اردو پاکستان کی قومی اور بر
صغیر میں بولی جانی والی سب سے بڑی زبان ہے۔ فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے اس
عظیم زبان کا معدہ اور نظام ہضم بہت متحرک اور مضبوط ہے۔ فارسی، عربی ،
ترکی، ہندی، پنجابی، سنسکرت غرض جس زبان سے بھی ہجرت کر کہ کوئی لفظ اس تک
پہنچا اس نے او ج و کمال پایا۔ اردو دنیا کی چند بڑی زبانوں میں سے ایک ہے
اور اس کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ یہ بر صغیر میں بسنے والی مختلف قوموں
کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہے۔ ہمارے افغان بھائی بھی اردو سمجھتے اور بولتے
ہیں وہ الگ بات ہے کہ اردو میں تذکیر و تانیث کہ اصولوں کی دھجیاں پختونوں
سے بہتر کوئی نہی اڑا سکتا۔ تا ہم احمد فراز اور قتیل شفائی جیسے اردو کے
عالم فاضل خیبر پختونخواہ سے ہی تعلق رکھتے تھے۔ بنگلہ دیش میں بھی اردو کے
اثرات ابھی باقی ہیں، خصوصا مذہبی طبقہ جن کے روحانی یا سیاسی مراکز
ہندوستان اور پاکستان میں ہیں وہ بخوبی اردو سمجھتے ہیں۔ ہمیں بنگلہ دیش
جانے کا تو اتفاق نہی ہوا (ابھی تک) مگر بنگالیوں سے ہمارا واسطہ اکثر رہتا
ہے۔ ابھی پچھلے کل کی بات ہے ہمارے گھر پہ برقیات کی ترسیل میں کچھ خرابی
پیدا ہوئی، پڑوس میں ہی ایک بنگالی بھائی برقی آلات کی مرمت کا کام کرتے
ہیں، انہیں مدد کے لئیے بلایا، بولے کیا آپ جانتے ہیں ہمارا اصلی نام کیا
ہے؟ ہم نے کہا لوگ تو آپ کو "شاہ نواز" ہی پکارتے ہیں۔ بولے نہی، ہمارا یہ
نام اردو بولنے والوں کے لیئے ہے۔ بنگالی میں ہمارا نام "توہین" ہے۔ جس کا
اردو میں اچھا مطلب نہی لیا جاتا۔ یعنی " توہین عدالت " جس کی سزا مسکن و
مخدر ادویات کی فروخت میں ملوث موسیٰ گیلانی صاحب کے جد کریم سید یوسف رضا
گیلانی صاحب ملتان شریف والے بھگت رہے ہیں۔ تو ثابت ہوا کہ بنگلہ دیش والے
بھی اردو کی باریکیوں کو سمجھتے ہیں۔ اور تو اور ایک مرتبہ ایک عمانی
باشندے سے کسی بات پر ہمارا اختلاف ہو گیا، طنز کرتے ہوئے یوں گویا ہوئے "
یا عزیزی انت واجد سیانا"۔ حصول روزگار کے متلاشی سمندر پار پاکستانیوں نے
عربوں کو بھی اردو سکھا دی ہے۔ اسی طرح ایک عرب ملک کی سبزی منڈی جانا ہوا،
ایک پاکستانی ٹرک ڈرائیور مشہور قوالی "دما دم مست قلندر" سن کر مست و بے
خود ہو رہا تھا، اسی اثناء میں ایک عرب جوان وارد ہوا اور وہ بھی شریک رقص
ہو گیا، اب خدا جانے یہ وجد تھا یا پھر اس کی مستی کہ وہ بھی یوں اس کا
ہمنوا ہوا " دما دم مست سلنڈر"۔ لیجیئے قلندر کی جگہ سلنڈر نے لے لی۔ ہم سے
اپنی محبوبہ "اردو" کے ساتھ یہ زیادتی برداشت نا ہوئی، عرض کیا یہ قلندر ہے
نا کہ سلنڈر، عرب چونکہ حاضر دماغ بھی ہوتے ہیں فورا جواب دیا " یا شیخ لا
فرق بین القلندر والسلنڈر"۔ تو قوالی، شاعری اور اردو کے محبین نے اسے دور
دراز ممالک تک پہنچا دیا ہے۔ حتیٰ کہ اردو سے نا بلد حنا ربانی کھر جو کہ
اردو بولنے والوں کی وزیر خارجہ ہیں، کی سہیلی ہیلری بی بی بھی اردو کے ایک
لفظ "ساس" کے معنی جانتی ہیں، شاید اس لئیے کہ کچھ لوگوں کے نزدیک ان کا
پاکستان سے تعلق بھی کچھ اس نوعیت ہی کا ہے۔
اردو کو بہت اچھے اچھے خدمت گار بھی میسر آئے۔ تا ہم اردو کا ادراک اور فہم
پاکستان میں عام نا ہو سکا اور یہ خواص کی محافل و مجالس تک ہی محدود رہی۔
من حیث القوم ہم نے اردو کو نہی اپنایا۔ سندھ میں آج بھی سرکاری مکاتب میں
اردو کی جگہ سندھی ہی لکھی اور بولی جاتی ہے۔ حتیٰ کہ سندھ میں اردو کی
حیثیت ایک متنازعہ سیاسی فریق کی سی ہے۔ اسی طرح عدالتوں نظام میں آج تک
انگریزی ہے رائج ہے۔ جس کی وجہ سے ایک عام آدمی کو عدالتی معاملات سمجھنے
میں اچھی خاصی پریشانی کا سامنا بھی کرنا پڑھتا ہے۔ طلبا و طالبات اردو کو
کوئی اہمیت نہی دیتے کیونکہ سکول جس کو اردو میں مدرسہ کہتے ہیں وہاں
اساتذہ بچوں کو یہ سمجھانے میں ہی ناکام ہیں کہ قومی زبان کی کیا افادیت ہے۔
توہم پرستی کا شکار پاکستانی قوم اور اس کے رہبر یہ سمجھتے ہیں کہ اردو
ہماری ترقی میں رکاوٹ ہے۔ جب کہ یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ ہمیں سابقہ روسی
اتحاد کے زیر اثر رہنے والی ریاستوں کے سفر کا موقع ملا۔ ان میں سے بیشتر
ایسی ریاستیں ہیں جن کے ناموں کے درست تلفظ بھی ہمارے پاکستانی نہی جانتے۔
وہ پسماندہ اور بعید از کائنات سمجھی جانے والی ریاستیں اپنی علاقائی اور
ریاستی زبانوں میں ہی ترقی کر رہی ہیں۔ حتیٰ کہ کمپییوٹر کے تمام سوفٹ ویئر
بھی انہوں نے اپنی زبانوں میں ہی بنا رکھے ہیں۔ جس سے ان کی قومی سلامتی کو
مزید تقویت ملتی ہے۔ ہمارے ہمسایہ ملک چین کے صدر اور وزیر اعظم پڑھے لکھے
اور زہین و فطین اشخاص ہیں۔ آپ نے کبھی بھی ان کو کسی غیر ملکی زبان میں
گفتگو کرتے ہوئے نہی سنا ہو گا، حالانکہ وہ بخوبی انگریزی سے واقف ہیں۔
پورا عرب اور اس کی قیادت اپنی زبان میں ہی کلام کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ طب،
ہندسہ، ارضیات، صحافت، معاشرت، مذہب، سیاسیات اور قانون کے علوم کے حصول کا
ذریعہ بھی قومی زبان ہی ہے۔ یہ ممالک کس لحاظ سے پیچھے ہیں؟ دنیا مین تیل
کی پچھہتر فیصد ضرورت عرب سے ہی پوری ہوتی ہے۔
پاکستان میں صورتحال اس سے بالکل مختلف ہے۔ صدر مملکت، آئیندہ قربانی کے
لئیے تیار جناب وزیر اعظم، اراکین اسمبلی سمیت دیگر بڑے عہدوں پہ متمکن
اشراف اردو سے نا بلد ہیں۔ انگریزی کو باعث عزت سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان میں
کچھ ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو اردو سے تو نا واقف ہوتے ہیں وہ اپنا
رعب و مرتبہ بڑھانے کے لئیے انگریزی کی بھی "تیتی پھیتی" اڑا دیتے ہیں۔ ان
پاکستانیوں کی انگریزی بالکل ویسی ہی ہوتی ہے جیسے افغانستان سے ہجرت کر
پاکستان آنے والے پختونوں کی اردو ہوتی تھی۔ اردو کو بگاڑنے اور اس کو
پیچھے دھکیلنے میں سب سے اہم کردار برقی صحافت کا ہے۔ صبح سویرے انگریزی
لباس میں ملبوس خواتین میزبان منہ بگاڑ بگاڑ کر اردو کا جو حال کرتی ہیں اس
سے بالیقین اردو کے پیٹ میں شدید "وٹ" پڑھتے اور "مروڑ" اٹھتے ہوں گے۔
اخبارات، رسائل، جرائد اور دیگر تحریری مواد میں بھی لسانیات کے قواعد کی
خلاف ورزی نے اردو کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ تعلیمی نظام، عدالت،
صحافت، معاشرہ اور ریاست کو زبانوں کے اس نا مناسب استعمال کی وجہ سے شدید
خطرات لاحق ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کے پاکستانی اردو ٹھیک طرح سے
سمجھتے ہیں اور نا ہی انگریزی۔
اب پیغام رسانی کا نیا زریعہ جو اب قدرے پرانا ہو چکا جس کو ایس ایم ایس
کہتے ہیں اس نے تو اردو کو اور بھی کمزور کر دیا ہے۔ نستعلیق کی جگہ رومن
اردو نے لے لی ہے۔ بلکہ اقبال کے کئی ایسے شاہین ہیں جو خالص اردو میں لکھی
ہوئی عبارت کو سمجھنے کے لئیے اسے رومن اردو میں لکھ کر پڑھتے ہیں۔ حاکمانِ
وقت کو چاہیئے کہ اردو زبان کو بالاتفاق بطور قومی زبان نافذ کریں۔ تمام
سرکاری معاملات میں اردو رائج کی جائے۔ اس سے باہمی اتفاق اور یگانگت ہیدا
ہو گی۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بین الاقوامی سطح پہ انگریزی کی اہمیت مسلمہ
ہے۔ حصول روزگار و کاروبار کے لئیے، تعلیم و فن کے فروغ کے لئیے عالمی سطح
پہ ہمیں انگریزی کی ضرورت بہر کیف ہے۔ تا ہم اپنی ثقافت و تشخص، اقدار و
تاریخ کا دفاع اور فروغ صرف اور صرف اردو ہی میں کر سکتے ہیں۔ اسلامی علوم
کا عظیم و ضخیم ذخیرہ جتنا عربی زبان میں تھا اتنا ہی آج اردو میں دستیاب
ہے۔ فصاحت و بلاغت کی اس شاہکار زبان کو اپنا کر ہی ہم اپنے تشخص کو مجروح
ہونے سے بچا سکتے ہیں۔
|