ڈاکٹر عبد القدیر خان صاحب نے
اپنی سیاسی جماعت تحریک تحفظ پاکستان کے نام سے رجسٹر کروالی۔ میرا خیال
تھا کہ میڈیا اس بات کو ”ہائی لائٹ “ کرے گا اور اس کی تشہیر کرے گا لیکن
اتنے دن گزر جانے کے بعد بھی اس پر خاموشی ایک معنی خیز ہے۔ کیا پاکستان کو
ایٹمی صلاحیت دینے والے کی اتنی بھی اہمیت نہیں کہ ہمارے نام نہاد کالم
نگار اس پر دو جملے ہی لکھ دیتے؟ مجھے ذاتی طور پر ڈاکٹر عبد القدیر خان
صاحب کے سیاست میں آنے پر اختلاف رہاہے ۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ قومی ہیرو
سیاست میں قدم رکھے۔ میں نے ایک مرتبہ ڈاکٹر عبد القدیر خان صاحب سے پوچھا
تھا کہ آپ کا سیاست میں آنے کا کواراد ہ تو نہیں ؟ تب ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ
فی الحال تو نہیں ہے لیکن آنے والے وقت کا میں کچھ کہہ نہیں سکتا ۔ ان دنوں
یہ پراپیگنڈا بھی کیا جا رہا تھا کہ ڈاکٹر عبد القدیر خان تحریک انصاف میں
شامل ہو رہے ہیں لیکن ڈاکٹر صاحب نے مجھے صاف صاف بتا دیا کہ ایسا نہیں ہے
انہوں نے کہا کوئی بے وقوف ہی ایسا سوچ سکتا ہے ۔ مجھے ڈر تھا کہ اگر ہمارے
قومی ہیرو نے سیاست میں قدم رکھا تو ان پر بھی کیچڑ اچھالا جائے گا اور ان
پر الزام تراشیاں کی جائیں گی۔ اگر ہمارے ہاں پاک سیاست ہوتی تو مجھے
اعتراض نہ تھا لیکن ہماری سیاست کا جو حال ہے وہ آپ سب کو معلوم ہے ۔مجھے
یہ علم ہے کہ ڈاکٹر عبد القدیر خان پاکستان اور پاکستانی قوم کے حوالے سے
کتنے حساس ہیں۔ اسی لیے مجھے خدشہ تھا کہ وہ قوم کی حالت بدلنے کے لیے
سیاست میں چلے آئیں گے ۔ اس وقت مجھے ان کے سیاست میں آنے پر اختلاف تھا
لیکن اب جب کہ ہمارے ہیرو نے سیاست میں قدم رکھ لیا ہے اور اپنی سیاسی
جماعت بھی رجسٹر کروا لی ہے تو پھر ہم پر فرض ہے کہ ہم انکا ساتھ دیں اوران
سے معلوم کریں کہ پاکستان کی حالت بدلنے کے لیے ان کے پاس کیا فارمولا ہے ؟
ڈاکٹر قدیر پر یقینی طور پر کیچڑ اچھالا جائے گا اور ان پر الزامات لگائے
جائیں گے ۔ اس وقت لوگ بھول جائیں گے کہ پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے پر
ڈاکٹر قدیر کوکتنی سزا بھگتنا پڑی ۔ لوگ بھول جائیں گے کہ کس طرح انہیں
اپنے گھر کا خرچ چلانے کے لیے اپنے بھائی سے مدد مانگنی پڑی ۔ مجھے یاد ہے
کہ ایک مرتبہ ڈاکٹر صاحب نے مجھے خط لکھا تو اس میں یہ بھی بتایا کہ ان کے
پاس کمپوزنگ کرنے کے لیے کوئی نہیں ہے ۔ اسی طرح ایک بار انہوں نے مجھے کچھ
ڈاکومنٹس بھیجے تو میں یہ دیکھ کر پریشان ہو گیا کہ ڈاکٹر صاحب کے پاس
صفحات کی بھی کمی تھی اور انہوں نے مجھے جن صفحات پر پرنٹ بھیجا وہ استعمال
شدہ صفحات تھے ۔ وہ کوئی پرانی سی وی (CV) تھی جو غالباً ریٹائرڈ ہونے سے
پہلے کسی نے انہیں بھیجی تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے اس کی بیک سائیڈ پر پرنٹ نکال
کر مجھے بھیجا تھا ۔میرے پاس یہ ڈاکومنٹس ابھی تک محفوظ ہیں کیونکہ یہ
ہمارے قومی ہیرو کی حالت اور اس پر ہوئے ظلم کی داستان سناتے ہیں ۔ یہ
اکیسویں صدی کی بات ہے۔ ڈاکٹر صاحب ان دنوں پابندیوں کی زد میں تھے اور
پاکستان کب کا ایٹمی قوت بن چکا تھا ۔ پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے والا
سائنس دان کس حال میں تھا یہ جان کر یقیناً غیرت مند پاکستانیوں کے سر شرم
سے جھک گئے ہوں گے ۔ ڈاکٹر صاحب نے نظربندی کے دوران اپنے اوپر ہونے والے
ظلم و ستم کا ذ کر میڈیا میں ضرور کیا ہے لیکن ان باتوں کو کبھی منظر عام
پر نہیں لائے تھے ۔ میں یہ سب ہر گز نہ بتاتا کیونکہ یہ میرے اور میرے ہیرو
کے درمیان راز تھا۔یقیناً مجھے اپنے ہیرو کا بھرم رکھنا چاہیے تھالیکن اب
جب ڈاکٹر صاحب میدان سیاست میں اتر چکے ہیں تو میر ے لیے ضروری ہو گیا ہے
کہ میں ان باتوں کو ریکارڈ پر لاﺅں تاکہ جب لوگ ڈاکٹر صاحب کے مخالفین کے
پراپیگنڈے کا شکار ہوں اور ان پر کیچڑ اچھالنے لگیں تو اس سے قبل ایک بار
یہ ضرور سوچ لیں کہ اس شخص نے پاکستان کو کیا دیا اور ہم نے اس کے ساتھ کیا
سلوک کیا؟ ڈاکٹر عبد القدیر خان صاحب کا سیاسی جماعت رجسٹر کروانے کے بعد
بھی یہی کہنا ہے کہ وہ وزیر اعظم نہیں بننا چاہتے بلکہ ان کا مقصد نوجوانوں
کو ایک راستہ دکھانا ہے اور راہنمائی کرنا ہے ۔ وہ چاہتے ہیں کہ نوجوان
سیاسی جماعتوں کے آلہ کار بننے کی بجائے عملی طور پر پاکستان کی ترقی اور
کامیابی کے لیے محنت کریں ۔ڈاکٹر عبد القدیر خان پاکستانی نوجوانوں کے
حوالے سے کافی پر امید ہیں ۔ کیا نوجوان بھی ان کے حوالے سے پر امید ہیں ؟
2007 میں تحریک طالبان پاکستان یعنی (TTP ) نے جنم لیا اور پاکستان کو آگ و
خون ک دریا میں نہلا دیا۔ اس تنظیم نے اس قدر خودکش دھماکے کیے کہ پاکستان
تباہی کے دہانے پر آ گیا ۔ سکول ، کالجز ، دفاتر ، اور بازاروں سمیت دیگر
عوامی مراکزپر دھماکے کیے گئے۔ غرض کوئی جگہ ایسی نہ تھی جس کو انہوں نے
نشانہ نہ بنایا ہو ۔یہی وجہ تھی کہ پاکستان میں کھیلوں سے لے کر کاروباری
طبقہ تک کوئی بھی آنے کو تیار نہیںاور پاکستان معاشی سطح پر تباہی کے قریب
پہنچ گیا ۔تحریک طالبان پاکستان یعنی TTP کے جنم لینے کے تقریباً پانچ سال
بعد 2012 میں ایک اور TTP (تحریک تحفظ پاکستان) جنم لے رہی ہے جس کی قیادت
پاکستان کو ایٹمی صلاحیت بنانے والے ڈاکٹر عبد القدیر خان کر رہے ہیں ۔ اس
جماعت کا مقصد پاکستان کو ترقی کی راہ پر لانا ہے۔ ایک TTP نے پاکستان کو
تباہ کر دیا اور دوسری TTP اسی ملبہ سے ایک نیا پاکستان تعمیر کرنے جا رہی
ہے ۔ اب فیصلہ آپ کو کرنا ہے کہ آپ کس TTP کو سپورٹ کرتے ہیں۔ یاد رہے اس
میدان میں قدم رکھنے کے بعد ڈاکٹر عبد القدیر خان صاحب پر الزامات لگیں گے
اور ان پر کیچڑ اچھالا جائے گا لیکن یہ بھی یاد رکھیں کہ یہ وہ شخصیت ہے جس
کو پاکستان آنے اور اسلامی ایٹم بم بنانے سے روکنے کے لیے مقدمات بنائے گئے
۔اس وقت پاکستانی حکمرانوں نے انہیں مشورہ دیا کہ ان مقدمات کا آپ پر کوئی
اثر نہیں ہو گا لہذا آپ بے فکر ہو کر اپنا کام کرتے رہیں لیکن اس ہیرو نے
کہا میں اسی غیر ملکی عدالت میں خود کو بے گناہ ثابت کروں گا ۔ ڈاکٹر عبد
القدیر خان نے ان مقدمات کا نہ صرف سامنا کیا اور کیس لڑابلکہ اسی غیر ملکی
عدالت نے یہ فیصلہ بھی دیا کہ ڈاکٹر عبد القدیر بے گناہ ہیں۔ اس شخص کا
مقابلہ اب ایسی سیاسی جماعتوں سے ہے جو اپنی کرپشن کے خلاف ایک خط لکھنے سے
بچنے کے لیے اپنا وزیر اعظم قربان کر دیتی ہیں یا پھر وہ جماعتیں جو ماضی
میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو صدر پاکستان بنانے کے جھوٹے نعرے لگا کر قوم کو
بے وقوف بناتی اور ووٹ حاصل کرتی رہی ہیں ۔ یہ سیاسی جماعتیں پرانی اور اس
میدان کے داﺅ پیچ کی ماہر ہیں ۔ انہیں معلوم ہے کہ کب اور کہاں جھوٹ بولنا
ہے لیکن ڈاکٹر عبد القدیر ان ہتھکنڈوں سے ناوقف ہیں ۔ انہیں صرف اپنی قوم
پر بھروسہ ہے ۔ وہی قوم جس کی خاطر وہ میدان سیاست میں قدم رکھ رہے ہیں ۔۔
۔اللہ پاکستان کا حامی و ناصر ہو!! |