سیاست ایک عبادت اور اقتدار عوام
کی امانت سمجھا جاتا ہے۔ عبادت سمجھ کر سیاست کرنے کا دعویٰ تو سب ہی سیاست
دان کرتے ہیں مگر اس عبادت تک رسائی صرف اُن کے خاندانوں یا رشتے داروں کا
ہی مقدر ٹھہرتی ہے جبکہ اقتدار میں آنے کے بعد عوام کی امانت سے صرف اپنوں
کو ہی نوازنے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ پاکستان کا شمار اُن ممالک میں
ہوتا ہے جہاں کئی دہائیوں سے وراثتی یا خاندانی سیاست کی ایک مضبوط روایت
موجود ہے اور یہ سلسلہ نہ صرف نسل در نسل جاری ہے بلکہ بیک وقت ایک ہی
خاندان کے افراد کے اسمبلی میں ہونے کے رواج کو بھی تقویت مل رہی ہے۔ سیاسی
جماعتوں میں عہدیداروں کا چناﺅ ہو یا عام انتخابات، قومی سطح کی سیاست ہو
یا صوبائی سطح کی سیاست تقریباً تمام سیاسی جماعتوں میں موروثی سیاست کا
رنگ نمایاں ہے۔ جونہی کوئی بندہ کسی بڑے عہدے پر آتا ہے وہ اپنے رشتہ داروں
اور دوستوں کو نوازنے کا عمل شروع کر دیتا ہے۔ بعد ازاں حکومتی وسائل
استعمال کرکے نہ صرف اپنے رشتے داروں کو سیاست میں کامیاب بنایا جاتا ہے
بلکہ مزید کو سیاست میں آنے کی دعوت بھی دی جاتی ہے۔ ان کے علاوہ نوازے
جانے والے افراد کی ایک بڑی تعداد محکمہ پولیس، محکمہ تعلیم، محکمہ جنگلات،
محکمہ پٹوار اور پبلک سروس میں موجود ہے جس کا شمار کرنا قدرے مشکل کام ہے۔
اپنوں کو نوازنے کی یہ عادت فقط ایک پارٹی یا فرد کا خاصہ نہیں بلکہ
تقریباً ہر سیاسی جماعت ایسا کرتی ہے۔ نہ صرف سیاسی جماعتیں بلکہ چھوٹے
افسران بھی اپنے بھائیوں، بہنوں اور رشتہ داروں کو نوازتے ہیں البتہ جماعت
اسلامی وہ واحد پارٹی ہے کہ جہاں خاندانی سیاست نہیں بلکہ باقاعدہ انتخابات
ہوتے ہیں اور یہ جماعت اپنے اندر مضبوط جمہوری روایات رکھتی ہے۔ اس جماعت
میں موروثی سیاست، خاندانی یا گروہی سیاست کی کوئی مثال نہیں ملتی اور یہ
اپنے اندر نظم و ضبط، کارکنوں کے اخلاص، جمہوری اقدار اور بدعنوانی سے پاک
ہونے کی شہرت رکھنے کے باعث دیگر جماعتوں سے ممتاز گردانی جاتی ہے۔ روایتی
مفاد پرست جماعت یا جماعتوں اور ایک نظریاتی انقلابی تحریک میں یہی فرق
ہوتا ہے۔ قائد یا راہنماءآمر نہیں ہوتا بلکہ کارکنان کی رائے کا احترام
کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی کی جمہوری روایات کو بطورِ مثال اپناتے
ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان بھی ایک عرصے سے اپنی پارٹی
میں انتخابات کرانے کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن تاحال اپنے مقصد میں ناکام
دکھائی دیتے ہیں کیونکہ ان انتخابات میں پارٹی کی اصل کمان نظریاتی
عہدیداران اور کارکنان کے ہاتھ میںچلی جانے کا اندیشہ ہے جو عبوری عہدے
رکھنے والے مفاد پرست سیاستدانوں کو قطعاً قبول نہیں ہے۔
پاکستان کی سیاست پر اس وقت شریف برادران، چوہدری برادران اور بھٹو و
زرداری فیملی کا راج ہے۔ بھٹو اور زرداری فیملی (سندھ) ، شریف برادران بمعہ
اہل و عیال (لاہور / پنجاب )، چوہدری برادران (گجرات )اور گیلانی فیملی
(ملتان )کی سیاست میں مکمل طور پر چھائی ہوئی ہے جبکہ ملک کے دیگر حصوں میں
بھی ایسی ہی سیاست رواج پکڑ رہی ہے۔ وراثتی یا خاندانی سیاست کی یہ بیماری
صرف پاکستان تک ہی محدود نہیں بلکہ دیگر بہت سے ملکوں میں بھی ہے۔ جنوبی
ایشیاءمیں خاندانی سیاست حاوی رہی ہے یہی وجہ ہے کہ اس خطے میں جمہوریت
صحیح طریقے سے پروان نہیں چڑھ سکی۔ ترقی یافتہ ممالک میں سیاسی پارٹیوں کے
اندر جمہوری عمل کے تحت باقاعدہ انتخابات ہوتے ہیں جبکہ پاکستان میں سیاسی
جماعتوں کی قیادت یوں تقسیم کی جاتی ہے جیسے خاندانی جاگیر سے رشتہ داروں
کو حصہ دینا ہو۔ وراثتی یا خاندانی سیاست کے حامی ارکان کے بھائی، بیٹے،
بھتیجے، بھتیجیاں، داماد، سمدھی، بھانجے اور بھانجیاں صوبائی اسمبلی سے لے
کر سینٹ تک پہنچ چکی ہیں جبکہ بہت سے سیاست دانوں کی بیگمات اور صاحبزادیاں
بھی مخصوص نشستوں پر ارکان اسمبلی بن گئی ہیں۔ ایک بات تو طے ہے کہ
جاگیرداری، وڈیرہ شاہی اور بڑی زمینداریوں کے زوال کے باوجود پاکستانی
معاشرہ، سوچ اور سیاست فیوڈل ازم کی گرفت میں ہے جس کا سب سے بڑا ثبوت
وراثتی سیاست کا رحجان ہے جو پوری طاقت کے ساتھ ملک میں پروان چڑھ رہا ہے۔
ہمارے بیشتر سیاسی مسائل کا سبب یہی نظام ہے جس کے تحت نااہل اور کرپٹ
خاندان سیاست اور حکومت پر قابض رہتے ہیں اور سیاسی جماعتوں کے سربراہان
تاحیات ”قائد“ کے خطابات اور القابات سے پکارے جاتے ہیں۔ بہت سے سیاسی
گھرانے ایسے بھی ہیں جو ایک سے زیادہ سیاسی جماعتوں کے ساتھ منسلک دکھائی
دیتے ہیں۔ اگر کوئی سیاست دان خود نون لیگ میں شامل ہے تو والد صاحب قاف
لیگ، دادا جان تحریک انصاف جبکہ چچا جان پی پی پی میں شامل ہوگا جبکہ کئی
سیاست دان ایسے بھی ہیں جو ایک ہی گھر میں رہتے ہیں، ایک ہی ٹیبل پر اکٹھے
کھاتے ہیں لیکن انتخابات ایک دوسرے کے خلاف لڑتے ہیں۔ اصل میں ایسے لوگ ہر
طرح سے حکومت میں رہتے ہیں خواہ حکومت میں نظر آتے ہوں یا نظر نہ آتے ہوں۔
موروثی سیاست کی سب سے بڑی کمزوری یہی ہے کہ یہ آخر کار نااہل لیڈر پیدا
کرتی ہے اور وہیں سے زوال شروع ہوتا ہے۔ جب ایک گھر سے پورے کا پورا خاندان
الیکشن لڑے گا تو ان حلقوں سے جن سے وہ الیکشن لڑینگے ان کے وہ کارکن جو ان
کے لیئے نعرے لگاتے ہیں اور اپنی جیب سے پوسٹر چھپواتے ہیں وہ منہ تکتے رہ
جاتے ہیں۔ گزشتہ کئی دہائیوں میں خاندانی اور وراثتی سیاست سے کوئی ترقی
پسند پیش رفت نہیں ہوئی اس لیئے ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیئے ضروری ہے
کہ موروثی سیاست کو ہمیشہ کے لیئے دفن کر دیا جائے۔ |