قتل و غارت ،لوٹ مار، آتش زنی ,بھتہ خوری اور دہشت گردی

لوٹ مار، آتش زنی بھتہ خوری (13)،(14)، افراد کی روزانہ ہلاکتیں اور اب تاجروں کا ایک ایک رات میں(28) ،(28) افراد کا اغوائ ۔۔۔۔۔صبح سویرے اٹھتے ہی تمام اخبارات کی سرخیاں یہی چیخیں مار رہی ہوتی ہیں ۔ٹی وی آن کرو تو ہر خبر بریکنگ نیوز ،اورہر ٹیکر میں مار دھاڑ ،مارکیٹوں اور بازاروں کو آگ لگا دینے کی خبریں۔۔۔۔۔کیا یہ ہی تھا میرے پر سکون شہر کا کلچر جو آج بنا دیا گےا ہے تو کیوں نہ میں اور میرے جیسے متعدد عام شہری سابق صدر پرویز مشرف کے پرسکون دورِ حکومت کو یاد کریں اور آج کے حالات کا ماتم و نوحہ کریں ۔۔۔۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میرے بچپن کے دوست2006میں کراچی آئے تو انہوں نے فرمائش کی کہ پہاڑ گنج پر پٹھان کے ہوٹل پر چل کر بکرے کا گوشت کھائیں گے2006کے دسمبر کی سرمائی رات اور رات کے12 بجے کا عمل۔۔۔۔ اپنے پرانے ماڈل کی FXمیں بیٹھ کر ٹھٹھرتی ہوئی سرد رات میں پہاڑ گنج کے پٹھان کے ہوٹل میں بیٹھ کر بکرے کا گوشت کھانا پھر قہوہ پینا اور اس کے بعد صبح کے4بجے گھر کو روانہ ہونا کراچی کی رونق دیکھنے والی ہوتی تھی، شاہراہیں روشن اور چمکدار،چائے کے ہوٹل رات رات بھر آباد ،پان کے کیبن مدھر نغموں سے گنگناتے ہوئے،کراچی کا پر امن ماحول۔۔۔۔ اور آج اس شہرِ قائد میں میری بیان کی ہوئی جگہ پہ رات کے ۴ بجے بیٹھنا تو درکنار دن کی روشنی میں جاتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے۔کیا پرویز مشرف آسمانوں سے اترا تھا؟ جو کراچی امن کا گہوارہ تھا ؟کیا موجودہ حکمران جہنم سے امپورٹ کئے گئے ہیں جو کراچی کو آگ اور خون میں رنگے ہوئے ہیں اور آئے دن کی لوٹ مار اور دہشت گردی کو اس معاشرے میں رائج کرنے کا چلن عام کرنے کی ٹھانے ہوئے ہیں آج کوئی ایک گھرانہ ہمیں بتا دیا جائے جو امن و عافیت میں ہو، دہشت کے سائے ماﺅں اور بہنوں کی آنکھوں میں ہر وقت رقصاں ہیں ۔بہنیں سہمی ہوئی فاختائیں محسوس ہو رہی ہیں کہ بھائی نوکری پریا دکان پر جا رہا ہے اللہ خیر کرے شام کو بخیریت واپس آجائے۔۔۔۔۔کیا ہمارے شہر کی خواتین کو یہی کام رہ گیا ہے کہ وہ اپنے پیاروں کی واپسی کے وقت دروازے پر نگاہیں جما کر محوِ انتظار رہیں اور اگر اللہ نہ کرے کہ اسے رات کو یہ اطلاع ملے کہ تمہارے گھر کا مرد جو کہ رزقِ حلال کی تلاش میں گھر سے نکلا تھا ۔۔۔۔اغواءکرلیا گیا یا مار دیا گیا۔۔۔۔ ۔اب ذرا سوچیں اس خاندان پر اب کون سی قیامت آنی باقی ہے جو یہ زمینی خداﺅں نے اس خاندان پر نازل کر کے انہیں جیتے جی زندہ لاشوں کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا اور ان سے ہر دکھ اور سکھ چھین لیا مگر یہ بات ہم شائد نہ سمجھ پایئں اور ان کا دکھ درد بھی ہم نہ جان پایئں کیوں کہ ہماری باری ابھی نہیں آئی مگر لگتا ہے کہ باری آنے میں دیر بھی نہیں ہے ۔جس طرح ہم آج دوسرے گھرانوں کی تباہی اور بربادی کا دکھ محسوس نہیں کر پا رہے، ہو سکتا ہے کہ کل ہمارے گھرانوں پر ٹوٹنے والی آفت و مصیبت کا دکھ بھی کوئی محسوس نہ کرسکے۔کیوں کہ یہ سب ہمیں روٹین کی کارروائی محسوس ہو رہی ہے اور ہمارے نا اہل ترین حکمراںہر وقت کی راگنی گاتے ہوئے فخر سے پریس کانفرنس کرتے نظر آتے ہیں کہ اتنے بڑے شہر میں (15)، (20) آدمی مرجانا کوئی بڑی بات نہیں ۔۔۔۔۔۔

ارے واہ میرے صوبے اور میرے ملک کے حکمرانوں تم تو اپنے ایک” فرد“ کی ہلاکت پر پانچ، پانچ سال صدارت ،حکومت اور وزارت کے مزے اڑا لو اور میرے شہرمیں جنوری سے لے کر اب جون کے وسط تک تقریباََ آٹھ سو افراد پرُتشدد واقعات میں ہلاک ہو گئے ہیں ان آٹھ سو افراد کے اہلِ خانہ کیا صرف پانچ دن کے لئے بھی وہ سہولتیں حاصل کرسکتے ہیں جو تم پانچ سال عیش و عشرت میں اڑا کر بھی مطمئن نہیں۔تم اور تمہارے خاندان کا ایک ایک فرد کرپشن اور قومی دولت کا لٹیرا ثابت ہو چکا ہے یہاں تک کہ تمہاری عورتیں تک کروڑوں اور اربوں ڈالرز کی قومی دولت چرا کر بیرونِ ملک بھجوا چکے ہیں اب اور کیا لوٹنے کی کمی رہ گئی ہے اس لٹی پٹی اور کٹی پھٹی قوم کے پاس۔۔۔ خدارا تمہارا کوئی دین مذہب ہے (اگر ہے تو)ہم تمہیںاس کا واسطہ دیتے ہیں کہ ہم اپنی غلطی کا خمیازہ بہت بھگت چکے ہیں تمہیں اقتدار میں لا کر ۔۔۔۔اب تم بھی ہمیں معاف فرما دو۔اور جہاں تم نے جائیدادیںبنائی ہیں اور پیسہ ڈالروں کی صورت میں جمع کر لیا ہے وہیں چلے جاﺅ کیوں کہ یہ اتنا پیسہ ہے کہ جب تک ہم اور ہماری نسلیں زندہ ہیں یہ ختم نہیں ہو گا اور تمہاری آنے والی نسلوں سے بھی ختم نہیں ہوگا ۔اور ہاں جاتے ہوئے وہ سارے کرپشنز کیسزاور انکی فایئلیں بھی لے جانا جو تم اس ملک میں کرتے رہے ہو اب ہمتمہارے کرتوت اور تمہارا ساےہ بھی اپنے اور اپنے بچوں پر نہیں دیکھنا چاہتے ۔اور اپنی اولادوں کو بھی لے جا نا تا کہ گدی نشینی کی مکروہ روائت بھی دم توڑ جائے اب ہم خود ہی اپنے اور اپنی قوم کے معاملات سدھار لیں گے ۔علامہ اقبال کے خواب اور قائدِ اعظم کی تعبیر میں خود ہی رنگ بھر لیں گے کیوں کے ہم چینیوں کی مثال کو اپنے سامنے رکھیں گے جو کہ افیون کے نشے سے جاگے تو پوری دنیا پر چھا گئے اور بڑی بڑی سپر طاقتوں کو لرزہ بر اندام کر دیا ۔ہم بھی جو تم لوگوں کی مکاریوں کی بناءپر گروہوں میں ، قبائل میں قوموں میں تقسیم ہو گئے ہیں ۔لسانیت کے چنگل میں پھنس گئے ہیں ۔مذہبی گروہ بندیوں کے اندھے جال میں کس دیئے گئے ہیں آزاد ہونے کی کوشش کریں گے بلکہ کوشش ہی نہیں کریں گے آزاد ہو کر بھی دکھا دیں گے کیوں کہ ہم وہ ہیں کہ
جو رکے تو کوہِ گراں تھے ہم
جو چلے تو جاں سے گزر گئے
Mukhtar Asim
About the Author: Mukhtar Asim Read More Articles by Mukhtar Asim: 12 Articles with 9196 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.