سرمایہ کاری

80 کی دہائی تھی اور الیکشن مہم زوروں پر تھی ۔ آج کا ایک مشہور سیاسی لیڈر اُن دنوں میرا اچھا دوست تھا اُس نے میرا تعارف اُس نوجوان سے کرا یا ۔ اُسے سیاست کو شوق تھا اور سیاسی ورکر کی حیثیت سے بہت محنت اور لگن سے کام کر تا تھا۔ الیکشن کے دنوں میں ہم نے اکھٹے کا م کیا ۔ الیکشن گزر گئے لیکن میرے اور اُس کے اچھے تعلقات کافی عرصہ قائم رہے وہ ہفتہ دس دن بعد میرے پاس آتا ۔ گھنٹہ دو گھنٹے گپ شپ لگا تا ۔ سیاسی حالات کے بارے میں باتیں کرتا اور چلا جاتا۔ کبھی کبھی میں بھی اُ س کے گھر چلا جاتا ۔ میرے گھر کے قریب ہی مین روڈ ر ایک تین چار کنال کا انتہائی قیمتی پلاٹ تھا۔ اُس پلاٹ میں کئی دکانیں کئی دفاتر اور کئی گھر تھے ۔ اُ س پلاٹ کے ایک کونے میں اُ س کا دو تین کمروں کا ایک چھوٹا سا گھر تھا۔ ایک کونے میں ایک علیحدہ کمرے میں اُس کے والد رہتے تھے ۔ دھوتی اور بنیان پہنے حقہ پیتے وہ عموماً اپنے کمرے کے باہر ہی بیٹھتے ہوتے تھے۔ دو کمروں میں وہ اور اُس کے چھوٹے چھوٹے بچے مقیم تھے ۔ ایک ڈرائینگ روم تھا۔ مجھے ڈرائینگ روم میں بٹھانے کے لئے وہ اُ س کا تالہ کھولتا ۔ ہم اندر داخل ہو تے وہاں قدیم دور کا ایک صوفہ پڑا تھا۔ جس پر چادریں چڑھا کر اُسے محفوظ کیا گیا تھا ۔ وہ چادر کا فقط اتنا حصہ بناتا کہ میں بیٹھ سکوں ۔ وہیں کمروں میں موجود ایک برتنوں کی الماری سے دو گلاس نکالتا اور گھر سے شربت بنا کر اُن گلاسوں میں لے کر واپس آتا ۔ چھوٹی سی ایک میز میرے آگے رکھتا ۔ کرسی پکڑ کر سامنے بیٹھ جاتا ۔ شربت پیتے ہوئے بات چیت ہوتی اور میں واپس آجاتا۔

بڑی سادہ سی زندگی تھی اُس کی ۔ لباس میں ہمیشہ عوامی سوٹ پہنتا ۔ پیروں میں موٹے ٹائر سول کی چپل ہوتی اور وہ سارا دن موٹر سائیکل پر پھر رہا ہوتا ۔ موٹر سائیکل بھی شاید اُس نے کبھی بھلے وقتوں میں لی تھی۔ دن میں تین چار دفعہ خراب ہونا اُ س موٹرکا معمول تھا۔ موٹر سائیکل جب بھی خراب ہوتی وہ سڑک سے اینٹ اٹھاتا ۔ اُس اینٹ پر بیٹھ جاتا۔ اوزار نکالتا اور موٹر سائیکل کو دس منٹ میں مرمت کر کے پھر یہ جا وہ جا خیال تھا کہ انتہائی غریب آدمی ہے ۔ یہی سوچ کر میں نے دو چار دفعہ اُسے مدد کی پیشکش کی مگر اُ س نے نہیں کر ٹال دیا کہ جناب اللہ کا دیا بہت کچھ ہے ۔ اپنی زمینداری ہے بہت معقول آمدن ہے ۔ میں نے سوچا کہ بہت قناعت پسند ہے کیونکہ اُس کے رہن سہن سے اُس کی آمدن معقول محسوس نہیں ہوتی تھی۔

ایک دن میری اُس سے ملاقات ہوئی تو وہ کچھ پریشان تھا۔ میں نے پریشانی کی وجہ پوچھی تو بولا کہ ایک زمین خریدی ہے ۔ کچھ پیسے کم ہیں ۔ انتظام کر رہا ہوں اسی بھاگ دوڑ کی وجہ سے تھوڑی سی پریشانی ہے ۔ میں اُن دنوں کالج میں لیکچرار تھا۔ پندرہ سو روپے تنخواہ تھی۔ گاڑی بھی رکھی ہوئی تھی ۔ ٹیوشن سے بھی کچھ نہ کچھ آمدن ہو جاتی تھی ۔ میں جانتا تھا کہ شریف اور ایماندار آدمی ہے اسلیئے فوری طور پر حاتم کے انداز میں فوراً اُسے پندرہ بیس ہزار تک ادھار دینے کی پیشکش کی ۔ 80 کی دہائی میں یہ ایک خاصی بڑی اور معقول رقم تھی۔ مگر اُس نے کمال بے اعتنائی سے جواب دیا کہ اُسے کچھ زیادہ رقم درکار ہے۔ میں نے پھر کہا بتاﺅ آخر کتنی درکار ہے شاید میں کچھ مدد کر دوں ۔ وہ ہنسا اور کہا کہ ڈھائی کروڑ کی زمین خریدی ہے کوئی بیس لاکھ کم ہیں ۔ میں نے عزیزوں سے کہا ہے انشااللہ ہو جائیں گے ۔ آپ فکر نہ کریں رجسٹری میں دو تین دن ہیں اُمید ہے رقم مجھے کل تک مل جائے گی ۔

میں نے اُس کی نئی باتیں سنیں تو وہ مجھے پاگل لگا ۔ یہ منہ اور مسور کی دال ۔ ڈھائی کروڑ کی بات کر رہا ہے ۔ شاید لاکھ کی شکل بھی نہ دیکھی ہو ۔ دو تین دن بعد میری اپنے سیاسی دوست سے ملاقات ہوئی جس نے اُ س کو مجھ سے متعارف کرایا تھا تو میں نے اُسے کہا کہ وہ شخص پاگل ہو گیا ہے لگتا ہے ۔ پوچھنے لگا کیوں ۔ میں نے ڈھائی کروڑ کا قصہ سنا یا تو جواب ملا ہاں حکومت نے فلاں شہر کو ضلع بنانے کا اعلان کیا تھا تو ضلع دفتر کے لئے شہر میں صر ف اس کی زمین دستیاب بھی ۔ تقریباًدو کروڑ اسے وہاں سے ملا تھا۔ کچھ اُس کے پاس تھے تواُس نے زمین کا سودا کر لیا ہے صحیح کہتا ہے میں حیرانی سے اُس کی شکل تکنے لگا ۔ تو میرے دوست نے کہا کہ اُس کے رہن سہن پر نہ جاﺅ ۔ کنجوس آدمی ہے ۔ اُس کا گھر جس پلاٹ کے کونے میں ہے وہ چار کنا ل کا انتہائی مہنگا پلاٹ اُس کی ملکیت ہے ۔ شہر کی فلاں مشہور مارکیٹ میں دو کنال پر بنی ہوئی تین منزلہ فلاں عمارت بھی اُس کی ہے ۔ جس بلڈنگ میں میرا دفتر ہے ۔ وہ بھی اُسی کی ہے ۔ ماہانہ آمدن بے حساب ہے ۔ زرعی آمدن کی بہت ے مگر کنجوس ہے پیسے اکھٹے کرنے کا شو ق ہے ۔ خرچ کرنے کا نہیں اور اُسے تمام آمدن کو مکانوں ، دکانوں اور زمینوں میں سرمایہ کاری کے سوا کچھ نہیں آتا ۔ میں سوچنے لگا کیا فائدہ اُس پیسے کا جو وہ خود پر بھی خرچ نہیں کر سکتا ۔

تین چار سال پہلے وہ بہت عرصے بعد سر راہ مل کیا ۔ بہت تپاک سے پیش آیا مگر کچھ بجھا بجھا تھا۔ پوچھا تو کہنے لگا کہ بس دونوں بیٹے خوش نہیں۔ ملازمت کرتے ہیں اور جتنا کماتے ہیں اُس سے زیادہ مجھ سے لے لیتے ہیں ۔ اس کے باوجود میرے مرنے کے منتظر ہیں ۔ میں نے جو جائیداد بہت محنت سے بنائی مجھ سے ہتھیانا چاہتے ہیں میں نے بہت سمجھایا مگر اُسے اولاد سے زیادہ جائیداد سے پیار تھا۔ اسلیئے میرے ساری کوشش رائیگاں گئی ۔ چند ماہ پہلے اُس کی وفات ہو گئی اور اب اُ س کی اُ س جائیدا د کو اُس کے بیٹے ہر طرح برباد کر رہے ہیں ۔ جسے وہ خود پر بھی خرچ نہ کر سکا تھا۔

وارن بفے (WARREN BUFFET) دنیا کا سب سے مشہور اور جانا پہچانا سرمایہ کا رہے ۔ جس کے سرمایہ کاری کے طریقوں سے بہت سے لوگ سیکھتے اور اُسکے طریقوں کا حوالہ دیتے ہیں ۔ 2006 میں اُس نے اپنے سرمائے کا 90 فیصد حصہ خدمت خلق کی تنظیموں کے دے کر دنیا میں اپنا ایک باعزت مقام بنایا ۔ تمام عمر یونیورسٹیوں میں اُس بفے بچوں کو سرمایہ کاری کے بارے میں آگاہی اور اُس کے فوائد کے بارے میں بتاتا رہا اوراان نفے کے مطابق دنیا میں سب سے بہتر سرمایہ کاری انسان کی اپنی ذات پر ہے ۔ آ پ کا جسم ایک ہی ہے اور یہ آپ کو دوبارہ نہیں مل سکتا وہ 20سال 40 سال اور 60 کی عمر میں بھی یہی رہے گا اسلیئے اس کی حفاظت آپ کا فرض ہے ۔ آپ کی صحت آپ کا سب سے بڑا اثاثہ ہے اور اگر آپ کے پاس کچھ رقم ہے تو سب سے پہلے اُ س رقم کو اپنی ذات پر خرچ کریں ۔ یہی دنیا میں آ پ کی سب سے بہترین سرمایہ کاری ہے جس کا فائدہ آپ کا تمام عمر ہوتا رہتا ہے ۔ وہ لوگ جو پیسے ہونے کے باوجود اپنی ذات پر خرچ نہیں کر سکتے ۔ بد ترین نقصانات میں ہیںاور اس سرمایہ کاری کا کوئی فائدہ نہیں جو کا فائدہ آپ کی ذات کو نہ پہنچ سکے ۔ وہ وارن واقعی صحیح کہتا ہے میرا وہ واقف کار جس نے اپنی ذات ، اپنی صحت اوراپنے بچوں پر سرمایہ کاری کی بجائے زمینوں ، دکانوں اور پلاٹوں میں سرمایہ کاری کی زندگی کے اخری ایام میں اُس کے پاس نہ خوشی تھی۔ نہ صحت تھی۔ نہ اولاد اُس کے پاس تھی ۔ وہ سب کچھ گنوا کر زندگی کے بقایا ایام پریشانی میں گزار گیا ۔ یہی غلط سرمایہ کاری تھی اور یہی اس کا منطقی انجام تھا۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 578 Articles with 483798 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More