غیرت کا تقاضہ

شان رسالت میں گستاخی پر مبنی فلم بنی اور30جون کو مریکہ میں ریلیز ہوئی ۔انتہائی گندے کردار کامالک ٹیری جونزجو ایک سابق ہوٹل منیجربھی ہے ۔30سال تک یورپ میں عیسائیت کی تبلیغ کرتا رہاہے ۔1996میں ڈو وارڈآﺅٹ ایچ نامی ایک بنیاد پرست چرچ کا سربراہ بھی رہا ہے ۔پھر کرسچن کمیونٹی آف کارن کے نام سے جرمنی میں اپنا ایک چرچ بھی قائم کیاتھا۔پھر چرچ کے مالی معاملات میںخرد برد کی اور پھر بھاگ گیا۔60سالہ ملعون ٹیری 2002ءمیں ایک جعلی ڈاکٹر کے ٹائٹلرکھنے کی پاداش میں گرفتار بھی رہ اور 3800ڈالر کی سزا بھی بھگت چکاہے ۔ ٹیری جونز 9/11کے موقع پر ایک مصری یہودی کے ساتھ مل کر اس فلم کو ریلیز کرنا چاہتاتھا۔گزشتہ برس بھی ٹیری جونزنے 9/11کے موقع پرقرآن مجید پر مقدمی قائم کیا اور پھر اسے جلانے کی ناپاک جسارت کی ۔30کو ریلیز ہونے کے ایک دن بعدیہ فلم یوٹیوب پر اپ لوڈ بھی کر دی گئی ۔اس کے بعدردعمل کا ایک سلسلہ پوری دنیا حصوصاًعرب دنیا سے سب سے پہلے شروع ہواجو اب تک جاری ہے ۔جب احتجاجوں کا نہ رکنے والا ایک سلسلہ طول پکڑ گیا تب سے ملعون فلم سازنکولا باسلے روپوش ہو گیامگر اپنی شیطنت سے باز نہیں آیا اور مسلمانوں کے اس ردعمل پر اس نے ایک بارپھر ہرزہ رسائی رکرتے ہوئے کہا کہ اسلام سرطان کی بیماری کی طرح ہے ۔نکولاباسلے کے گھر کے تمام افراد بھی امریکن پولیس کی نگرانی میں نکولا باسلے کے پاس نامعلوم مقام پر منتقل ہو چکے ہیں۔اس ملعون کاگھر امریکاکے شہرکیلی فورنیا کے قصبہ سیرٹیوس میں واقع ہے ۔

اس فلم پر سب سے پہلے احتجاجی سلسلہ عرب دنیا سے شروع ہوا ۔لیبیامیں”غازی“کے مجاہدوں نے مظاہرے کرتے ہوئے امریکی قونصلیٹ پر راکٹوں سے حملے کئے۔4امریکیوں کی زندگی کا خاتمہ کیا۔بنگلہ دیش میں بہت بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے اور بنگلہ دیش کی حکومت نے بھی یوٹیوب کے انکار کے بعد اس کو اپنے ملک میں بند کر دیا۔شیخ حسینہ نے گوگل کے نام ایک خط بھی لکھا تھا مگر اس فلم کو مزکورہ سائیٹ سے نہیں ہٹایاگیا۔انڈونیشیاءکے شہر جکارتہ میں ایک بہت بڑامظاہرہ ہوا۔افغانستان کے شہر کابل میں بہت سخت درعمل سامنے آیا ۔نیٹو بیس پر حملہ کیا گیااور دوامریکی فوجیوں اور 6جنگی طیاروں کو تباہ کیا گیا۔جب کہ یہ تعداد غیر مصدقہ تھی اصل تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ ہے ۔تھائی لینڈ کے اہم شہر بنکاک میں بھی ایک بہت بڑا جلوس نکالا گیا جوامریکی سفارت خانے کی طرف جانا چاہتے تھے جنہیں فورسزنے جانے سے روک دیامگر ان کا احتجاج اب بھی مختلف شہروںمیں جاری ہے ۔امریکا میں رہنے والے قبطی عیسائی آرتھوڈوکس بشپ نے بھی اس کی مذمت کی اور اسے ٹیری کا ذاتی فعل قرار دیا۔پوری دنیا میں احتجاجوں کا سلسلہ جاری ہے ۔یمن ،مصر،فلسطین ،عراق،مشرقِ وسطی اور افریکی ممالک میں بھی احتجاج ہو رہا ہے ۔

اِس میں کوئی شک نہیں مسلمانانِ پاکستان بھی اِس حساس مسئلہ میں کسی دباﺅ اور اُلجھن کا شکار ہوئے بغیر پورے خلوص کے ساتھ اپنی ہمت اور توانائی کے بقدرمیدان میں نکلے اور احتجاج کیااور کر رہے ہیں۔جتنے احتجاج کئے جا چکے اُس سے کہیں زیادہ کے اعلان ہو رہے ہیں ۔سیاسی جماعتوں میں مذہب کی طرف جھکاﺅرکھنے اور ہمیشہ ایسے مواقع پر مسلم لیگ ق کھل کراپناموقف دیتی آئی ہے اور اِس دفعہ بھی بلا تاخیر دیگر سیاسی جماعتوں کی نسبت چوہدری شجاعت حسین کامذمتی بیان آیا۔عمران خان نے بھی گوگل کو خط لکھنے کا فیصلہ اور عالمی عدالت انصاف سے رجوع کا فیصلہ کیا ہے ۔دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی بیانات دئیے ۔انسانی حقوق پر وویلا کرنے والی اور کچھ وہ زبانیں بھی جو امریکاکی ایڈ سے پلتی ،پنپتی اور بڑھتی ہیںوہ نہیں بولیں ۔اگر کسی نے کوئی بیان دیا بھی تو صرف رسمی بیان ہی کی حد تک ۔بلکہ اُن کی بعض سازشیں اِن احتجاجوں کو سبوتاز کرنے اور مذہبی قوتوں کو یکجا نہ ہونے کے لئے ہو رہی ہیں۔ آج کل میڈیا بھی بعض ایسے نام نہاد لوگوں کو ترجمانی کے سرٹیفکیٹ دے کر ٹاک شوز میں لابیٹھاتاہے جس کی پارٹی یاکونسل کا نام تو” علمائ“سے ہے مگر علماءتو کجا وہاں اُن کے علاوہ آج تک کوئی او ر ”عالم“بھی نہیں ہے ۔ چہ چائیکہ کہ وہ کونسل کے معیار پربھی اُترے ۔رمشاءکے مسئلہ پرتوآسمان سر پراُٹھائے رکھااور یہاں زبان سے اتفاق اتفاق کے جملوں کے علاوہ شاید کوئی بات نکلے۔انہیں کیسے اور کیا پتا کہ غیرت کا تقاضہ کیا ہوتا ہے اور تماشہ کیا ہوتا ہے ۔
میں نہ سمجھا تیری نظروں کا تقاضہ کیا ہے
کبھی جلوہ کبھی پردہ یہ تماشہ کیا ہے

سزائے موت کا قانون تبدیل کر کے عمر قید کرنے کےی سازش نہیں نظر نہیں آئی ۔اس پر ان کی ”بصیریت “ اور”بصارت “ نے شرعی پردہ کر لیا ہے۔اِس فلم کو نیٹوسپلائی سے بڑاواقعہ تو قرار دیا مگراُس جتنا اب تک احتجاج نہیں کیا گیا۔

امریکا میں بنائی گئی توہین رسالت پر مبنی فلم کے خلاف مذہبی جماعتوں نے بھی پورے ملک میں احتجاج کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے ۔پورے ملک میں ہونے والے اِن مظاہروں میں بعض ناخوشگوار واقعات بھی دیکھنے میں آئے ۔انفرادی سظح پر ہر جماعت نے پورے ملک میں احجاجی مظاہرے ،دھرنے اور وال چاکنگ بھی ہوئی ۔اس سے قبل بھی ایسے واقعات مغرب کی طرف سے ہوئے جن میں شان رسالت میں توہین کی گئی اور حضور ﷺ کے خاکے بنائے گئے اور ان کے مقابلے بھی کروائےے گئے ۔شعائر اسلام اور قرآن کی توہین کرتے ہوئے قرآن جلایا گیاتھا۔جس پر تمام ملکی مذہبی جماعتیں سراپااحتجاج تھیں۔ ماضی میں اِس سطح کے حالات دیکھنے میں نہیں آئے جو اِس دفعہ دیکھے جارہے ہیں ۔ماضی میں متحدہ مجلس عمل کی کا ل پر پورے ملک میں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر احتجاج کیاگیا تھا۔اب مجلس عمل کی عدم بحالی پر ملی یکجہتی کونسل کے اجلاس کے علاوہ علماءکرام کسی بھی احتجاجی پلیٹ فارم پر اکھٹے ہوتے نظرنہیں آرہے۔ جس کا نقصان دیکھااور محسوس کیا جاسکتاہے۔ علماءکرام اگر مل کرکسی بھی پلیٹ فارم سے احتجاجی مظساہرے یاکوئی بھی حکمت عملی وضع نہیں کریں گے تونقصان ملک اور عوام کا ہوگا ۔جس طرح کہ سی این جی اسٹیشن ،2پیٹرول پمپ اور 4پولیس موبائلوں سمیت جانی نقصان بھی دیکھنے میں آیاہے۔تاہم علماءکرام کی قیادت ابھی تک اجتماعی سظح پر کوئی مﺅثر آواز اٹھانے میں ناکام نظر آتے ہیں ۔

ملکی دفاع کے نام پر اگر علماءاور سیاست دان ایک جگہ جمع ہوسکتے ہیں تو دین کی اسا س اور ایمان کے مرکزو محور کے لئے کیوں نہیں جمع ہو سکتے ؟یہاں بہت سارے سوالات اُبھرتے ہیں مگر کچھ سوالات ایسے ہوتے ہیں جووقت کے دامن میں چپکے سے پناہ لے لیتے ہیںاور پھر یہی وقت اِ ن سوالات کو آزاد کر دیتاہے ۔یہ وقت ان کی ضرورت کا ہوتاہے۔حکومتی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی سمیت تقریباًتمام مذہبی جماعتوں نے آج ملک گیر احتجاج کا فیصلہ کیاہے۔آج کے دن ”حرمت رسول پہ جان بھی قربان ہے“اور”گستاخ بنی کی سزاست تن سے جدا “کے پُر جوش نعرے بھی لگیں گے اور لگنے بھی چاہئے ۔مگر گستاخ اور اُس کے حواری جس چیز سے بکھلاہٹ کا شکار ہوتے ہیں وہ ہے اُن کامعاشی نقصان ۔اگر ساری مذہبی جماعتیں اس ہم مسئلے پر مل کر یہودی مصنوعات کا بائیکاٹ کرتے ہیں تو یہ ایک مﺅثر ترین احتجاج ہوگاغیرت بھی جس کی متقاضی ہے اور ایمان بھی۔اور یہی وہ وقت ہے تمام مذہبی رہنماﺅں کو مل کر بیٹھنا ہو گا۔اِس مل بیٹھنے سے آنے والے وقت میں بھی فائدہ ہوگااور تب ہی ان احتجاجوں کا کوئی فائدہ بھی میسر آئے گا ۔
Azmat Ali Rahmani
About the Author: Azmat Ali Rahmani Read More Articles by Azmat Ali Rahmani: 46 Articles with 59282 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.