پرانے زمانے کی بات ہے کہ ایک بادشاہ تھا
اُس کا وزیر انتہائی شاطر ،چالاک اور ظالم تھا، بادشاہ اُس کے مشوروں کو
بہت اہمیت دیتا تھا ایک روز وزیر نے شاہی خزانے کا دیکھا تو بہت کم پایا
اُسے ایک منصوبہ سوجا ، اُس نے بادشاہ کو شاہی خذانے میں اضافہ کیلئے یہ
مشورہ دیا کہ، بادشاہ سلامت آپ رعایا پردُگنے محصولات کردیں تاکہ شاہی
خذانے میں اضافہ ممکن ہوسکے اور ہمارے عیش و عشرت میں کمی نہ آئے، بادشاہ
نے وزیر کی اس بات پر اپنی حیرانی و پریشانی کا اظہار ظاہر کرتے ہوئے کہا
کہ عوام احتجاج کریگی جواباًوزیر نے بادشاہ کو اطمینان دلاتے ہوئے کہا کہ
آپ بے فکر رہیں ایسا نہی ہوگا کیونکہ وزیر عوام کی حالت و نفسیات سے واقف
ہوگیا تھا بالآخر بادشاہ نے منادی کا حکم صادر کیا کہ آئندہ بادشاہ کے حکم
سے محصولات میں دُگنا اضافہ کردیا گیا ہے ، بادشاہ کے حکم سے رعایا نے
محصولات دُگنا دینا شروع کردی کچھ وقت گزرا تو پھر وزیر کو بے چینی ہوئی
اُس نے بادشاہ کو مزید محصولات میں اضافہ کرنے کا مشورہ دیا بادشاہ حسب
عادت گھبرایا کہ عوام میں بغاوت نہ پیدا ہوجائے لیکن اس بار بھی وزیر نے
اطمینان دلایا کہ کچھ نہیں ہوگا اگر کچھ ہوا تو میں سنبھال لونگا خیر
بادشاہ نے مزید محصولات بڑھانے کا حکم دیا گو کہ یہ احکامات کئی بار ہوئے
مگر عوام نے خاموشی سے تعمیل کی لیکن وزیر کو اب بھی بے چینی تھی اُس نے
بادشاہ کو ایک ایسا مشورہ دیا کہ بادشاہ تحت سے اٹھ کھڑا ہوا کہنے لگا یہ
بہت زیادہ ہوجائیگا وزیر نے مشورہ یہ دیا تھا کہ اب آپ منادی کروادیں کہ
صبح کام پر جاتے ہوئے دربار سے ایک جوتا کھا کر جایا کریں گو کہ اس حکم کے
بعد سے رعایا صبح دربار میں ایک جوتا کھاکر کام پر جانا شروع کردیا ، ایک
روز رعایا کی جمیع غفیر ہوگیا اور بہت شور شرابا تھا کہ بادشاہ کی آنکھ کھل
گئی اُس نے وزیر کو طلب کیا کہ کیا ماجرا ہے یہ رعایا کیوں تمام کی تمام
یہاں کیوں شور مچارہی ہے ، وزیر نے کہا کہ بادشاہ سلامت رعایا کا مطالبہ ہے
کہ جوتے مارنے کیلئے بادشاہی لوگ زیادہ سے زیادہ رکھیں تاکہ کام پر جانے
میں دیر نہ ہو۔ ۔۔۔۔یہ رعایا کوئی اور نہیں ہماری ہی قوم ہے اور بادشاہ تو
آپ جانتے ہی ہیں فرق صرف یہ ہے کہ وہاں وزیر ایک تھا تو عالم کیا ہوا اور
یہاں کئی وزراءہیں تو جان لیجئے اپنا عالم ۔۔۔۔۔۔۔!!
یہ رعایا جب اپنے آپ کو خود بدلے گی تب کہیں جاکر حالات بدل سکیں گے کیونکہ
آنے والے نئے چہرے ، نئے خواب، نئی بات، نیا احساس سب کا سب دھواں ہے اور
پچھلے انگارے ہیں ۔۔۔ گل ِ گلزار بنانے کیئے اس کھیت میں ہل چلاکر ازسر نو
اس رعایا کو اپنے تمام فاصلے مٹاکر یکجا ہونا پڑیگا ، تعصب، اقربہ پروری،
نفرت، بغض و عناد، کینہ پروری، جھوٹ و افلاس، قوم پرستی وغیرہ ۔۔ان تمام
جراثیم کو ذہنوں سے نکال باہر پھیکناپڑیگا پھر مطالبہ جو اٹھے گا وہ یقینا
ایوان میں قابل قبول ہوگا ان مطالبوں میں سب سے پہلا اور موثر پاکستانی
عوام کا مطالبہ انتخابات میں جدید خطوط پر کمپیوٹرائز اسکینگ کے ساتھ ووٹنگ
سسٹم کا ہے جو عوام الناس نے پیش کرنا ہے اُن نمائندوں کیلئے جن کو وہ
منتخب کرنا چاہتے ہیں بغیر کسی زور و زبر اور دباﺅ کے۔ ۔۔۔ یہ حقیقت ہے کہ
گرجہ، قبائل ، خاندان ، قومیت مسلسل بکتی چلی آرہی ہیں اور ان کے سردار ہوں
یا چوہدری یا پھر وڈیرے یا خان سب کے سب غریب و غرباء، مسکین و ضرورت مندوں
کو ان کی ضروریات کا لالچ دیکر یا پھر خوف و خشیت کا احساس دلاکر ووٹ حاصل
کرنا وطن عزیز پاکستان میں وطیرہ بن چکا ہے ، جب تک یہ نظام جڑ سے مر نہیں
جاتا اُس وقت تک پاکستان کی ترقی نا ممکن ہے ، قسمتیں نعروں سے نہیں عمل سے
بدلا کرتی ہیں اور عمل بھی وہ جو مثبت اور فلاح پر مشتمل ہو ورنہ ڈگڈگی
بجانے والے بہت تماشہ بناتے ہیں اور سمجھدار عقل کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے
پاکستان زندہ باد
پاکستان پائندہ باد |