آج سارا دن نبی کے پروانے سراپا
احتجاج رہے ۔کوئی گلی کوچہ ایسا نہ تھا جہاں حُرمتِ رسول پہ کٹ مرنے کے
جذبے سے سرشار اُمتیوں نے اپنے جذبہ عشق کا اظہار نہ کیا ہو لیکن اِس کے
ساتھ ہی انتہائی دُکھ سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ یہ احتجاج اُنیس افراد کی
جانوں کا نذرانہ لے گیا اور ہسپتال زخمیوں سے بھر گئے ۔اربوں روپئے کی
املاک کا نقصان تو شاید قابلِ برداشت ہو کہ انسان اپنی محنتوں سے اِس کا
مداوہ کر سکتا ہے لیکن جانے والے تو کبھی لوٹ کر نہیں آتے ۔ دینِ مبیں میں
ایسے ہنگاموں کی گنجائش ہے نہ اجازت ۔ہمارا دین تو حالتِ جنگ میں بھی نہ
صرف بچوں ، بوڑھوں اور عورتوں سے در گزر کی تلقین کرتا ہے بلکہ کھڑی فصلوں
کو اُجاڑنے کی بھی سختی سے ممانعت کرتا ہے ۔اِس لیے جِن لوگوں نے یہ اودھم
مچایا وہ میرے نبی کے متوالے ہو ہی نہیں سکتے ۔یہ تو ایسے شر پسندوں کا
گروہ تھا جو ایک خاص مقصد کے تحت آیا اور اپنا کام دکھا گیا ۔سوال مگر یہ
ہے کہ ایسا کیوں ہوا اور اس کا ذمہ دار کون ہے؟۔
کہتے ہیں کہ ایک مچھلی پورے تالاب کو گندا کر دیتی ہے ۔آج بھی کچھ ایسا ہی
ہوا اور حبّ ِ رسول میں نکلے ہوئے انسانوں کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر میں چند
ایسی گندی مچھلیاں گھُس گئیں جنہوں نے اپنی مذموم حرکتوں سے ایک انتہائی
پاکیزہ مقصد کو سبو تاژ کرنے کی کوشش کی اور جو پیغام ہم یورپ اور امریکہ
کو دینا چاہتے تھے وہ ادھورا رہ گیا ۔محترم قمر الزماں کائرہ اوررحمٰن ملک
صاحب اِس کا الزام کبھی نواز لیگ اور کبھی دینی جماعتوں پر دھرتے ہیں لیکن
اپنی اداؤں پر غور کرنے کی زحمت نہیں کرتے۔تحقیق کہ اگر حکومتِ پاکستان
پہلے دِن سے ہی بھرپور طریقے سے میدانِ عمل میں ہوتی تو نہ دینی جماعتوں کو
موقع ملتا اور نہ عوام کو احتجاج کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی لیکن حکومت تو
اُن دنوں ”زرداری بچاؤ “ مہم پہ نکلی ہوئی تھی ۔اُسے کچھ سجھائی نہیں دیتا
تھا سوائے اپنا وزیرِ اعظم بھی بچانے اور کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر اعلیٰ
عدلیہ سے مزید وقت حاصل کرنے ۔مانا کہ حکومت اُس وقت بہت مصروف تھی لیکن آج
؟۔ آج تو اکابرینِ حکومت باہر نکل کر جلوسوں اور ریلیوں کی قیادت کر سکتے
تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے اُنہیں اِس کی بھی توفیق نہیں بخشی ۔ اگر راجہ
پرویز اشرف یہ سمجھتے ہیں کہ اپنے ٹھنڈے ٹھار سیکرٹریٹ میں چند مخصوص لوگوں
کے سامنے تقریر فرما کر اُنہوں نے حق ادا کر دیاتو یہ اُن کی بھول ہے
کیونکہ معاملہ کسی ریمنڈ ڈیوس کو بصد عجز و نیاز اپنے زمینی خُداؤں کے سپرد
کرنے کا نہیں کہ جس پر یہ قوم رو دھو کے چُپ ہو رہے گی بلکہ معاملہ اُس
ہستی بر حق کا ہے کہ جس کے بارے میں ایک انتہائی گنہگار مسلمان کا بھی یہ
ایمان ہے کہ ”بعد از خُدا بزرگ توئی قصّہ مختصر “ ۔اگر حکومتِ وقت یہ
سمجھتی ہے کہ آج کے پُر تشدد ہنگاموں کے بعد قصّہ ختم ہو جائے گا تو یہ اُس
کی بھول ہے ۔یہ تو ابتداءہے جس کی انتہا وہ خونی انقلاب بھی ہو سکتا ہے جس
میں پتہ نہیں کتنے فرعون ، نمرود ، شداد اورقارون غرق ہو جائیں گے ۔یہ ہو
نہیں سکتا کہ بات میرے نبی کی شان کی ہو اور اُن کے اُمتیوں کو کسی پل چین
آ جائے ۔لاریب کہ اِس کو اپنے منطقی انجام تک پہنچنا ہی ہے خواہ اِس کے لیے
مسلم اُمّہ کو اپنے سارے حکمرانوں کا ”جھٹکا“ ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔
آج کے پُر تشدد ہنگاموں کے مراکز کراچی ، پشاور ، اسلام آباد اور لاہور رہے
۔باقی پورے مُلک میں بھر پور احتجاج کیا گیا لیکن کہیں بھی نہ تو تشدّد
ہوااور نہ ہی توڑ پھوڑ۔کراچی میں واضح طور پر نظر آ رہا تھا کہ احتجاجی
ریلیاں نکالنے والے اور تھے اور لوٹ مار کرنے والے کوئی اور۔جن لوگوں نے
بینک ، اے ٹی ایم اور دوکانیں لوٹیں ، وہ وہی لوگ تھے جنہوں نے کراچی کو
مقتل گاہ بنا رکھا ہے ۔یہ وہی بھتہ خور اور ٹارگٹ کلر ہیں جن کا نہ دین سے
کوئی تعلق ہے اور نہ حبِ رسول سے ۔اُنہیں سندھ کی نا اہل حکومت نے کھُل
کھیلنے کا موقع فراہم کیا جس کا اُنہوں نے بھر پور فائدہ اٹھایا ۔پشاور میں
پہلے بھی بیشمار دفعہ ویڈیو سینٹرز اور سی ڈی شاپس پر توڑ پھوڑ ہوتی رہی
اور اُنہیں بم دھماکو ں سے اُڑایا جاتا رہا ۔آج مذہبی انتہا پسندوں کو
نسبتاََ بہتر موقع ملا اور اُنہوں نے دو سینما گھر جلا دیئے ۔لیکن جس وقت
انتہا پسند یہ توڑ پھوڑ کر رہے تھے اُس وقت وہاں دور دور تک پولیس کا نام و
نشان نہ تھا شاید پشاور کی ساری پولیس ”بلور برادران “ کے سینما گھر کی
حفاظت پر مامور ہو گی کیونکہ احتجاجی جب وہاں پہنچے تو پولیس نے سیدھی
فائرنگ کی جس سے چار افراد جاں بحق ہوئے جن میں اے آر وائی نیوز کا ایک
ڈرائیور بھی شامل تھا ۔۔۔ اسلام آباد میں احتجاج کرنے والے امریکی سفارت
خانے کے سامنے جا کر احتجاج ریکارڈ کروانا چاہتے تھے جس کی اجازت نہیں دی
گئی جس کی بنا پر پولیس سے جھڑپیںہوئیں اور یہی صورتِ حال لاہور میں بھی
تھی جہاں احتجاج کرنے والوں کو امریکی قونصلیٹ جانے سے روکا گیا ۔
یومِ عشقِ رسول پر مذہبی جماعتوں کا کردار ہر گز لائقِ تحسین نہیں تھا ۔کسی
بھی قابلِ ذکر مذہبی شخصیت نے احتجاجی ریلیوں کی قیادت کرنے کی سرے سے زحمت
ہی گوارہ نہیں کی اگر مذہبی جماعتیں اپنی ذمہ داریوں کا بوجھ محسوس کرتیں
تو شاید یہ سب کچھ نہ ہوتا ۔ سوال یہ بھی ہے کہ جس قسم کا احتجاج ہماری
سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے آج ”یومِ عشقِ رسول “ پر کیا کیا وہ اُن کے لئے
جائز اور مناسب تھا ؟۔کم از کم آج کے دن تو اُنہیں اپنی سیاسی دوکان داری
چمکانے سے باز رہنا چاہیے تھا ۔احتجاج میں شامل ہر جماعت خواہ وہ مذہبی تھی
یا سیاسی ، اُس کے کارکنوں نے اپنی اپنی پارٹیوں کے جھنڈے اُٹھائے ہوئے تھے
۔شاید وہ آج بھی اپنی اپنی عددی قوت کا مظاہرہ کرنے نکلے تھے ۔کیا قومی ،
ملّی اور دینی یکجہتی اسی کا نام ہے ؟۔کیا ہم اقوامِ مغرب کو یہ بتلانا
چاہتے تھے کہ مقصد خواہ کتنا ہی پاکیزہ کیوں نہ ہو ، ہم ایک لمحے کے لیے
بھی اپنے فرقے کو بھول سکتے ہیں نہ جماعت کو ؟۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ
پوری قوم کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے گھروں سے نکلتی اور ہمارے حکمران اور
مذہبی و سیاسی لیڈر اُس کی رہنمائی کرتے لیکن یہاں تو یہ عالم تھا کہ سارے
مذہبی اور سیاسی لیڈر اپنے گھروں میں استراحت فرما رہے تھے اور قوم شُتر بے
مہار کی طرح مُنہ اٹھائے اِدھر اُدھر بھاگتی پھر رہی تھی۔
آج سیکولر دانشوروں اور امریکی امداد پر پلنے والی NGO'S کی آنکھوں کی چمک
دیدنی ہے ۔وہ اِس احتجاج کی ناکامی پر بہت مسرور ہیں ۔ وہ پہلے تو دبے
لفظوں میں احتجاج کی مخالفت کر رہے تھے کیونکہ معاملہ مذہبی جذبات کا تھا
اِس لیے اُن کی زبانوں پر لکنت طاری ہو جاتی تھی ۔لیکن اب تو اُنہیں موقع
ہاتھ آ گیا ہے ۔وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں وہ کھُل کر
اپنے دلوں کی بھڑاس نکالیں گے ۔دست بستہ عرض ہے کہ کوئی بھی مسلمان نہ پہلے
پُر تشدد احتجاج کا حامی تھا ، نہ اب ہے۔لیکن جہاں تک اپنے جذبات کے اظہار
کا تعلق ہے وہ ہر عاشقِ رسول کا حق بھی ہے اور فرض بھی ۔
جو لوگ اِس موقعے پراحتجاج کی بجائے اپنی زندگیوں کو اسلامی سانچے میں
ڈھالنے کی تلقین کرتے ہیں اُن کا فرمان بجا لیکن دست بستہ عرض ہے کہ اگر آج
ہمارے اندر عشقِ رسول کی اتنی سی رمق بھی باقی نہیں بچی کہ ہم کسی شاتمِ
رسول کی ناپاک جسارت پر تڑپ اُٹھیں تو پھر یہی کہا جا سکتا ہے کہ
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے
یہ بات آج کے ذہین و فطین اور فہیم دانشوروں کی سمجھ میں تو نہیں آئے گی
لیکن یہ جذبہ عشق ہی تو تھا جس نے حضرت ابراہیم ؑکو آگ میں کودنے پر مائل
اور اپنے بیٹے کے حلقوم پر چھُری چلانے پر قائل کیا۔اِن لوگوں کے نزدیک تو
ہر شئے کو ماپنے کا محض عقل ہی ایک پیمانہ ہے لیکن یہ بھی تو ہے کہ
عقل عیار ہے سو بھیس بنا لیتی ہے
عشق بیچارہ نہ مُلّا ہے نہ زاہد نہ حکیم
ہمارا ایمان ہے کہ مسلمان خواہ کتنا ہی گُنہگار کیوں نہ ہو ، اُس کے اندر
عشقِ رسول کی آگ بہر حال روشن رہتی ہے ۔دینِ اسلام پرپی ایچ ڈی کرنے والے
ایک یہودی سکالر کا کہنا ہے کہ مسلمان خواہ کتنا ہی بُرا کیوں نہ ہو وہ
اپنے نبی کا نام سُنتے ہی تڑپ اُٹھتا ہے ۔اسی بنا پر دینِ اسلام کو کبھی
زوال نہیں آ سکتا۔یہ الفاظ دینِ اسلام کے بد ترین دشمن کے ہیں لیکن حیرت
ہوتی ہے ایسے مسلمان دانشوروں پہ جو اپنے ماں باپ کی شا ن میں گُستاخی پر
تو مرنے مارنے پر اُترآتے ہیں لیکن جن پر ہماری جانیں ، مال ، اولاد اور
والدین قُربان ، اگراُن کی شان میں کوئی گُستاخی کرے تو یہ پند و نصائح کے
دفتر کھول بیٹھتے ہیں۔ |