گستاخانہ فلم پرحکومتی ردعمل اور عوامی جذبات

پرانے زمانے کی ایک پنجابی کہاوت عام ہے کہ ،،اگ لاکے ڈبو نیائیں تے،،یعنی کہ جب کسی بھی چیز کو آگ لگ جاتی ہے تو ماچس سائیڈ پر رکھ دی جاتی ہے پھر آگ لگانے والا جلنے والے کے سامنے اپنی صفائی بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اس آگ سے میراتو کوئی تعلق نہیں یہ آگ ماچس نے لگائی اب وہ تو سائیڈ پہ پڑی ہے میں اس کا کیا کرسکتا ہوں جو کہ غلط اور بے بنیاد ہے جلنے والے کو تسکین دینے کیلئے کیا یہ ماچس اٹھا کر اسی ہی آگ میں جلائی نہیں جا سکتی ؟ایسا ہو سکتا ہے، مگر جلانے والا یہ چاہتا ہے کہ جلنے والا خود یہ ماچس اٹھائے اور اپنی آگ میں جلا دے پھر میں اسے پورے خطہ کیلئے خطر ناک قرار دیتے ہوئے ختم کردوں اور خود اس پہ قابض ہوجاﺅں اگر اس سے ایسا کرنا ناممکن ہو تو یہ ارد گرد کی رکاوٹوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لیتے ہوئے خود بخود ہی جل کرختم ہوجائے جیسا کہ امریکہ کے خفیہ اداروں نے پہلے اس گستاخانہ فلم بنانے کیلئے اس فلم ساز پادری کو فنڈنگ کی اور تشہیر کرکے آگ لگائی جب یہ آگ بھڑک اٹھی ہے تو جواب مل رہا ہے کہ ہمارا اس فلم سے کوئی تعلق ناہے فلم ساز پادری کو ہم نے اشتہاری قرار دے دیا ہے جبکہ امت مسلمہ کیلئے وہ واجب القتل ہے جس کا کھلے اظہار بھی کیا جارہا ہے اوریہ کام امریکہ خود بھی کرسکتا ہے جس سے ایک تو امت مسلمہ کے جذبات پر قابو میں مدد ملے گی اوردوسرا دنیا بھرمیں ایک اچھا تاثر بھی قائم ہوگا مگر وہ خود یہ کام کرنا نہیں چاہتا وہ چاہتا ہے کہ یہ کام پاکستانیوں میں سے کوئی ایک کرے اور واپس اپنے وطن لوٹ جائے پھر اس کی یا اس کے نیٹ ورک کی تلاش کی مد میں ہم آپریشن شروع کریں اور پاکستان پر قابض ہوجائیں کیونکہ امریکہ کو شاید یہ علم نہیں کہ مسلمان تو جام شہادت کیلئے ہر وقت بے قرار رہتے ہیں جیسا کہ گزشتہ روز پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ممبر پنجاب اسمبلی و عاشق رسول سردارواجد علی ڈوگر نے گستاخانہ فلم کے خلاف حلقہ PP-229میں نکالی گئی تقریباً تیس سے چالیس ہزار افراد پر مشتمل ایک احتجاجی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے اپنی کروڑوں روپے مالیتی جائیداد امریکی گستاخ رسول پادری کے قتل کا انعام رکھ دی ہے اور دعا کی ہے کہ اے خدا مجھے اپنے ہاتھوں سے اس پادری کو قتل کرنے کا موقع عطا فرمااور جسے گستاخ رسول کے قتل کے بعد شہادت بھی نصیب ہو اس کیلئے اس سے بڑا رتبہ اور کونسا ہوگا ؟ اب اس پادری تک نا پہنچ پانے کے باعث ہم اپنے اندر لگی آگ سے اپنے ہی ارد گرد کی رکاوٹوں کو بھی جلاتے ہوئے تباہ ہورہے ہیں جس پر حکومت چلا رہی ہے اور اس کا ذمہ دار وہ میڈیا کو ٹھہراتے ہوئے دکھائی دیتی ہے کہ ان کے لائیو نشریات دکھانے سے معاملات مزید بگڑ رہے ہیں حتیٰ کہ اس ساری کی ساری تباہی کی ذمہ دار حکومت خود ہے کیونکہ جب یہ فلم منظر عام پر آئی تھی اورحکومت کو اس کا علم بھی ہوچکا تھا تو اسی ہی وقت حکومت نے اس پہ سو موٹو ایکشن کیوں نہیں لیا اگر لیا تو یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس امریکی گھٹیا حرکت پر فرزندان اسلام خاموش نہیں رہیں گے اور یہ کسی بڑی تباہی کا سبب بن سکتی ہے میڈیا پر آکر اس معاملہ پر اٹھائے جانے والے اقدامات پر روشنی کیوں نہیں ڈالی اگر حکومت اسی ہی وقت نیٹو سپلائی معاہدہ کا بائیکاٹ کرتے ہوئے ڈرون تیارے مار گرانے کا اعلان کر دیتی تو نہ یہ خود کش حملے ہوتے نا آج دوران احتجاج اتنی جانیں جاتیں اور نا ہی آج اتنے وسیع پیمانے پر املاک کو نقصان پہنچایا جاتا مگر افسوس کہ حکومت کو تو پڑی ہے کہ کھاﺅ پیو اورجیسے بھی روتے دھوتے ہوں اپنے دن پورے کرو اگر کوئی پوچھے تو کہ دو کہ یہ بحران سابق آمر پرویز مشرف کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہیں جو ہمیں ورثہ میں ملیں یا ملے،اب حکومت کی جانب سے نیٹو سپلائی معاہدہ کا بائیکاٹ ڈرون طیاروں کو مار گرانا امریکی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنایا گستاخ رسول پادری اور اس فلم کے دیگر اداکاروں کو سرعام پھانسی لگانے کا مطالبہ کرنا تو بہت دور کی بات امریکہ پر ایک لعنت بھیجنے تک کو بھی تیار نہیں تو عوام کیا کرے وہ اپنا غصہ سڑکوں پر آکر نہ نکالے تو اور کہاں جائے ،اب رہی بات ان حالات کے کنٹرول کی تو پنجابی میں کہتے ہیں کہ ،ڈُلے بیراں دا کجھ نئی گیا ،یعنی کہ ابھی تک تو کچھ بھی نہیں ہوااگر اندرون خانہ ہونے والے نیٹو سپلائی معاہدے میں طے شدہ شرائط کھل کر منظر عام پر آگئیں یا اسی ہی فلم سے متعلق کسی نے طلبہ تنظیموں کو بھڑکا دیا تو حالات کنٹرول سے باہر ہوجائیں گے اس لئے حکومت کو چاہئے کہ آرام پرستی یاکھاﺅ پیﺅ اقتدار بچاﺅں کی سیاست میں مصروف رہتے ہوئے جبر یا طاقت سے اگر امن قائم کرنا چاہے تو یہ نا ممکن ہے اور اپنی تمام تر توانایاں اس عمل پر صرف کرنے کی بجائے جو کرنا ہے وہ یوں سمجھ کر کرے کہ موجودہ حالات ہماری موت کا پھندا ہیں جس سے بچنے کیلئے جو کرنا ہے وہ ابھی اور اسی ہی وقت کرنا ہوگا ورنہ یہ آگ سبھی ہی کو اپنی لپیٹ میں لیتے ہوئے کچھ باقی نا چھوڑے گی اور پھر امریکہ کیلئے لئے بھی بچنے کا کوئی راستہ نا ہوگا یعنی کہ جلنے والا اپنی آگ میں ماچس سمیت جلانے والے کو بھی جلا کر راکھ کر دے گاجس سے بچنے کا بہترین حل امریکی تعلقات ترک کرتے ہوئے نیٹو سپلائی معاہدہ کا بائیکاٹ اور ڈرون طیارے مار گرانے کا اعلان یا پھر واجب القتل گستاخانہ فلم ساز پادری اور اس فلم کے دیگر اداکاروں کی کھلے عام پھانسی کا مطالبہ ہی دکھائی دیتا ہے ۔
Muhammad Amjad Khan
About the Author: Muhammad Amjad Khan Read More Articles by Muhammad Amjad Khan: 61 Articles with 38754 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.