کالم کا نام ’’فریب نظر ‘‘
اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت میں’’ترس‘‘کھانے کی ایسی صلاحیت رکھی ہے جو کسی
کی ہمدردی میں بروئے کار آتی ہے۔ایسے ہی مجھے ترس آرہا ہے ان غریب لوگوں پر
جوایک ایک لقمے کو ترس رہے ہیں اور ریاست ان کے لئے کچھ نہیں کر پارہی،مجھے
ترس آرہا ہے ان غریب ہاریوں پر جن کے پاس اپنی زمین تو نہیں جاگیر داروں کی
زمینیں کاشت کرتے ہیں ان کومعاوضہ بھی کم ملتا ہے اور ان کے گھروندے جب
سیلاب کی تباہ کار یوں میں ختم ہو جاتے ہیں نہ تو جاگیر دار ان کی امداد
کرتے ہیں اور نہ حکومت ہی ان کی بحالی کے اقدامات کر پاتی ہے۔مجھے ترس آ
رہاہے ان خوا تین پر جن کے سہاگ دہشت گردی نے اجاڑ دیئے نہ تو ان کو انصاف
ملتا ہے اور نہ ان کی پرورش کا انتظام؟۔مجھے ترس آرہا ہے ان یتیم بچوں پر
جن کی تعلیم وتربیت اورپرورش ریاست کی ذمہ داری ہونے کے باوجوداہتمام نہیں
کیا جاتا۔مجھے ترس آ رہاہے ان گھرانوں پرجن کے پیارے غائب کر دیئے گئے
اوران کا باز یاب کرانا حکومت کی دلچسبی میں شامل نہیں؟مجھے ترس آ رہاہے ان
تین سو افرادکے بچوں پر جن کوفیکٹری کے اندر ہی جلاکر بھسم کر دیا گیا اور
روائتی الفاظ میں ہمدردی اور انصاف کے اعلان کے علاوہ کچھ بھی نہیں کیوں کہ
فیکٹریوں کے مالک تو بالواسطہ یا بلا واسطہ حکو مت میں ہوتے ہیں انکوائری
تو رشوت خور اور بھتہ خور کرتے ہیں اور اس نذرانے میں حکومت کے وزرا کا حصہ
ہوتاہے کیونکہ کرپشن کے ہر سکنڈل میں کسی نہ کسی کا نام آتاہے۔مجھے ترس آتا
ہے ریاست کی اعلیٰ عدالتوں پر کہ جن کے فیصلوں پر عملی اقدامات کے بجائے
پوری حکومتی مشینری رکاوٹ ڈالنے کے لئے پوری ڈھٹائی سے استعمال کی جارہی
ہے۔مجھے ترس آرہاہے ملک کے وزیر اعظم پر کہ جس کو آئین پاکستان نے پور ے
اختیارات دیئے ہیں پھر بھی صدارتی محل کا غلام ہے۔مجھے ترس آ رہا ہے ایک
ایسے شخص پر کہ جس بھٹو کی دولت، بے نظیر بھٹو کی دولت حاکم علی زرداری کی
دولت پاکستان کی لوٹی ہوئی دولت،اور خود اپنی دولت، کہاں لے جائے گا، کون
کھائے گاکس کے کام آئے گی ؟قا رون کے پاس بھی بڑی دولت تھی لیکن قیامت تک
نفرت کے سوا اس کے حصے میں کچھ نہیں آ پائے گا۔مجھے ترس آرہاہے ان بلکتے
ہوئے لوگوں پر جنہوں نے ’’جیسے ‘‘ بھی انتخاب کے ذریعے اپنے نمائندوں کو
اسمبلی بھیجا تاکہ ان کے مسا ئل کوحل کریں گے، بدقسمتی سے نمائند گان نے
اپنے مفا دات کو ترجیح دی اور اس لالچ میں عوام کو دن بدن مہنگائی لاؤڈ
شیڈنگ ،بے روزگاری بد امنی دہشت گردی بد اخلاقی کے سوا کچھ نہ دیا اور ذاتی
مفادات کی خاطر ملکی سا لمیت بھی داؤ پر لگا دی۔مجھے ترس آ رہاہے سیاسی
جماعتوں کے جنونی، مخلص، اور نظریاتی کار کنوں پر جن کے کندوں پر چڑھ کر
ایوان اقتدار تک پہنچ کر مزے لوٹنے والے لیڈرکار کنوں کو ٹشو پیپر کی طرح
پھینک دیتے ہیں اور اپنے اردو گرد جرائم پیشہ لوگوں جمع کر کے ملک و قوم کو
لوٹتے ہیں ۔ مجھے ترس آرہاہے جمہوریت، جمہوریت، کی تسبیح الاپنے والے
لیڈروں پر جن کی اپنی پارٹیوں میں تو جمہوریت نہیں بلکہ خاندانی پارٹیاں
ہیں اورملک میں جمہوریت کے لئے بڑے پر عزم ہیں جو سراسر دھوکا ہے۔ مجھے ترس
آرہا ہے ان سول ڈکٹیٹرز پر جو فوجی ڈکٹیٹر کو تو برا کہتے تھکتے نہیں لیکن
اگر کوئی شخص پارٹی کے اندر سے اٹھ کرمتبادل پارٹی بنانا چاہے تواسے خفیہ
طریقے قتل کرا دیا جاتا ہے تاکہ پارٹی ڈکٹیٹر کے مقابلے میں دوسرا ڈکٹیٹر
سر اٹھانہ پائے ایسی جمہوریت سے (سو بار الحذر)۔مجھے ترس آرہاہے ان علمائے
کرام پر جوانبیاء علیھم السلام کے وارث ہیں ان کی اس وراثت پر ڈاکا ڈالا جا
رہا ہے مغربی یلغار نے ہمار ے گھروں، ہمارے اداروں، ہمارے میڈیاہمارے حکمرا
نوں کے ایوانوں تک دشمنی، عریانی، فحاشی کا طوفانِ بد تمیزی بپا کیا ہوا ہے
اور علمائے امت آپس میں دست و گریبان ہیں(اور دل سے احساسِ زیاں جاتارہا)
کے مصداق بنے بیٹھے ہیں اور اس طرز عمل سے پوری قوم بکھری پڑی ہے اس وقت (ایک
ہوں مسلم حرم کی پا سبا نی کے لئے،نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاکِ کاشغر) یہ
کام صرف اورصرف علمائے امت ہی کر سکتے ہیں۔مجھے ترس آرہاہے ان میڈیا مالکان
پر جو اپنی تجارت کے لئے ضابط اخلاق کو مد نظر رکھے بغیر خاص کر الیکٹرانک
میڈیا پراشتہاری مہم جس میں پاکستان کی نظریاتی بنیادوں کو کھو کھلا کرنے
والے اقدامات کئے جاتے ہیں جو بحیثیتِ مسلمان وہ خود بھی پسند نہ کرتے ہوں
لیکن دنیا کمانے کی ہوس میں تمام قواعد کی حدیں توڑ دی جاتی ہیں۔مجھے ترس
آرہا ہے ہر مظلوم پاکستانی پر جو ہر طرح کا ظلم برداشت کر رہا ہے اور بے بس
ہے اس کی آواز کوئی سننے والا نہیں ہاں ایک مقام آئے گا کہ جب اسی کی سنی
جائے گی ۔ جب ظالم و مظلوم اپنے رب کے سامنے پیش ہوں گے اور اپنا اپنا دفتر
عمل ہو گا اور ظالم کو جواب دینا ہو گا قیا مت تو بہر حال قائم ہو کے رہے
گی۔ |