انسانی حقوق کے علمبرداروں کے نام

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

جب بھی اسلامی ممالک کے اندر کوئی بھی معمولی واقعہ ” جوکہ حقیقتاًنہ تو غیر انسانی ہوتا ہے اور نہ ہی غیر اخلاقی “رونما ہوجاتا ہے تو انسانی حقوق کے نام نہاد علمبردار اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور دنیا سر پر اٹھا لیتی ہے کہ فلاں اسلامی ملک میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہورہی ہے۔اقوام متحدہ سے لیکر تمام یورپی ممالک بشمول یورپ کے چمچوں کے اس اسلامی ملک پر دباو ڈالا جاتا ہے کہ فوری طور پر کارروائی کی جائے۔لیکین یہود اور عیسائیوں کے ہاتھوں آئے روز انسانی حقوق کی جس طرح داداگیری کے ساتھ پامالی ہوتی ہے اس پر نہ تو اقوام متحدہ کے ناخداوں کو اپنا فرض یاد آتا ہے اور نہ ہی انسانی حقوق کے علمبردار اس سلسلے میں اُف تک کرتے ہیں۔سوچنے والی بات ہے کہ کیا انسانی حقوق کے علمبرداروں کوبرما کے مظلوم مسلمانوں کا خون نظر نہیں آتا؟کیا فلسطین کے مسلمان ظلم وبربریت کی چکی میں نہیں پِس رہیں؟کیا کشمیر کے مسلمان مظلوم نہیں ہیں؟وزیرستان میں بے گناہ اور معصوم لوگوں کا قتل عام انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں کہلاتی؟اگر دنیا کی نظر میں مسلمانوں کے خون سے کھیلی جانی والی یہ ہولی ظلم ہے۔تو پھر وہ کونسی وجہ ہے کہ انسانی حقوق کے علمبردار مہر بہ لب ہیں۔3جون 2012کو برما کے مسلمانوں پر جو قیامت ٹوٹ پڑی وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔بدھ بھکشووں نے برما کے نہتے اور معصوم لوگوں کو ذبح کرکے درندگی کی ایک ایسی مثال قائیم کردی کہ جسے دیکھ کر انسانی روح کانپ اٹھتی ہے ۔بے بس عورتوں کو جنسی درندگی کا نشانہ بنایا گیا۔سینکڑوں ضعیف العمر اور اپاہج بوڑھوں کو زندہ جلادیا گیا۔جبکہ بچ جانے والوں کو سمندر کی خونی موجوں کے نظرکیا گیا۔جبکہ تعجب اور حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ یہ سب کچھ پس دیوار نہیں ہوا،بلکہ ظلم وبربریت کی یہ خونی داستان آج کے اس ترقی یافتہ دور کے فعال اور متحرک میڈیا کے سامنے تاریخ کے اوراق پرقلم بند ہوا۔تو کہاں پر تھے انسانی حقوق کے علمبردار؟کہاں پر تھا اقوام عالم کا انصاف؟برسوں سے مسلمان جس اذیت اور کرب سے گزررہا ہے ظلم وبربریت کی اس اندوہناک تسلسل پر تو انسانی حقوق کے علمبرداروں نے چُپ سادھ لی ہے۔لیکین اب سیدھے سیدھے وار مسلمانوں کے دلوں پر کیا جارہا ہے۔اور دل کے گھاو وقت کے ساتھ ساتھ اور زیادہ کرب ناک ہوتے جاتے ہیں۔اس بارے میں ایک بہت ہی مشہور قصہ یاد آرہا ہے۔کہ پُرانے وقتوں میں ایک لکڑہارے اور شیر کی بہت گہری دوستی تھی۔لکڑہارا جب بھی لکڑیاں کاٹ کر گھر لاتا تھا۔شیر پوری وفاداری کے ساتھ وہ لکڑیاں اپنے پیٹ پر لادھ کر لکڑہارے کے ساتھ گھر تک جاتا تھا۔ہوا کچھ یوں کہ شیر بیمار پڑ گیا اور اسکے مُنہ میں چھالے پڑ گئے۔ایک دن شیر معمول کے مطابق لکڑ ہارے کے ساتھ اپنی بے انتہاءمحبت کا اظہار کرتے ہوئے اس کا چہرہ چھاٹ رہا تھا۔کہ لکڑ ہارے نے انتہائی بے رُخی کے ساتھ شیر کا مُنہ خود سے ہٹاتے ہوئے کہا کہ تمہارے مُنہ سے بدبوآرہی ہے۔اس بات سے شیر انتہائی رنجیدہ ہوگیا۔اور یوں یہ دوستی ختم ہوگئی۔کچھ دنوں کے بعد لکڑہارا ایک مرتبہ پھر شیر کے پاس آیا اور نہ ملنے کی وجہ پوچھی۔تو شیر نے لکڑہارے سے کہا کہ اپنی کلہاڑی سے میرے سر پرضرب لگاوؤلکڑہارا ضرب لگانے سے انکاری ہوا۔اور شیر سے کہنے لگا کہ تم میرے بہترین دوست ہو ،میں کیسے خود اپنے ہاتھوں سے تم پر وار کرسکتا ہوں۔اس پر شیر نے لکڑ ہارے کو وارننگ دی کہ اگر تم میرے سر پر اپنے کلہاڑے سے وار نہیں کروگے تو میں تمہیں زندہ کھا جاؤنگا۔ چنانچہ چاروناچار لکڑ ہارے نے شیر کے سر پر اپنے کلہاڑے سے وار کیا۔شیر کے سر سے خون کا فوارا اُبل پڑا،اور شیر زخمی حالت میں نظروں سے اوجھل ہوگیا۔کچھ دنوں بعد شیر کا زخم ٹھیک ہوگیا اور وہ ایک مرتبہ پھر لکڑہارے سے ملنے کے لیئے اس جگہ چلا گیا جہاں پر دونوں کی ملاقاتیں ہوا کرتی تھی۔شیر نے اپنا سر لکڑ ہارے کو دکھاتے ہوئے سوال کیا کہ کیا میرازخم ٹھیک ہوچکا ہے؟لکڑ ہارے نے زخم کا جائیزہ لیا اور پھر انتہائی مسرت سے جواب دیا کہ تمہارا زخم تو بلکل بھر چکا ہے۔شیر نے ایک ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے لکڑ ہارے سے کہا کہ ہاں میرا یہ زخم تو ٹھیک ہوچکا ہے۔لیکین جس دن تم نے مجھے حقارت سے دھتکارتے ہوئے کہا تھا کہ تمہارے مُنہ سے بدبو آرہی ہے میرے دل کا وہ گھاؤ ناسور بن چکا ہے۔اس لیئے آج کے بعد اگر تم اس جنگل میں نظر بھی آئے تو میں تمہیں چیر کر کھا جاؤنگا۔یہ کہتے ہوئے شیر وہاں سے روانہ ہوا۔اس سارے قصے کا مطلب میرا یہ ہے کہ جو لوگ مسلمانوں کی دل آزاری کا سبب بن کر کبھی انکے مذہب اور کبھی مسلمانوں کے پیغمبر کے توہین کے مرتکب ہورہے ہیں ایسے لوگ مسلمانوں سے اس بات کی توقع کیوں کررہے ہیں کہ وہ ہمارے ناکردوں پر خاموش رہیں گے۔جب مذہب کی بات آتی ہے تو کوئی فرقہ، کوئی مسلک ،کوئی قوم اس پر خاموش نہیں رہ سکتا۔اور اسکے نتیجے میں کوئی تامل ٹائیگر کے روپ میں اپنے جسم سے بم باندھ کر توہین مذہب کے مرتکب افراد پر حملہ اور ہوتا ہے یا پھر نہتے اور مجبور فلسطینیوں کی طرح اپنے دشمن کے مقابلے پر اُتر آتے ہیں۔ایسے میں جب انسانیت کے علمبردار مذہب کی توہین پر خاموشی اختیار کرلیتے ہیں تو انسان کا انسانیت پر سے بھی یقین اٹھنے لگتا ہے۔آج توہین رسالت پر پوری امت مسلمہ سیغ پا ہے۔آقائے نامدار سرور کونین رحمت دوعالم کی توہین پرپوری دنیا کے مسلمان انتہائی رنجیدہ اورغصہ ہے۔ایسے میں امریکی دفتر خارجہ کا یہ بیان کہ اس تنازعے سے امریکی سرکار کا کوئی لینا دینا نہیں ہے اُلٹا مسلمانوں کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔اگر اوبامہ سرکار سمجھتی ہے کہ وہ اس سارے معاملے سے بری الذمہ ہے تو کیوں اب تک ملعون پادری اور گستاخ فلم کے دیگر افراد پر کوئی مقدمہ نہیں بنا؟کیوں توہین رسالت کے مرتکب افراد اب تک آذاد پھر رہے ہیں؟بات صاف اور واضح ہے کہ اس سارے معاملے میں گستاخ فلم کے جملہ ملعونوں کو امریکہ کی اشیر باد حاصل ہے۔اور اگر اس موقع پربھی انسانی حقوق کے علمبرداروں نے اپنا رول پلے نہیں کیا تو مذاہب کی توہین اور ا سکی آڑمیں لوگوں کی دل آزاری کاایک ایسا سلسلہ شروع ہوجائیگا جو نفرت اور دشمنی کی ایک ایسی دہشت گردی کوجنم دیگا کہ اسکے شعلوں سے کوئی محفوظ نہیں رہیگا۔آج جب امت مسلمہ اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے توہین پرخون کے آنسورورہا ہے تو ایسے میں یہ انسانی حقوق کے علمبرداروں کا فرض عین بنتا ہے کہ واشنگٹن ڈی سی کے سڑکوں پر نکل کر اس انتہائی گھناونی فعل کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے بین الاقوامی عدالت انصاف کا دروازہ کٹکٹائے اورثابت کریں کہ انسان کے بنیادی حقوق کے خلاف پروپیگنڈہ کرنا یا کسی انسان کے ایمانی جذبات کے ساتھ کھیلوار کرنا دنیا کی سب سے بڑی دہشت گردی ہے۔اور ایسے انسان کو تختہ دار پر لٹکا کردوسروں کے لیئے نشان عبرت بنانا چاہیئے۔خود انسانیت کا ٹھیکدار بن کر پوری دنیا سے دہشت گردی ختم کرنے والے امریکن جواب دیں کہ جب کسی کے ایمان پر وار ہوتا ہے تو کیا وہ جسم کے ساتھ بارود باندھ کر اپنے جذبہ ایمانی کا عملی ثبوت دینا اپنی خوش نصیبی نہیں سمجھے گا۔آپکا ایمان متزلزل ہوسکتا ہے لیکین وحدانیتکے شیدائی توحیدپرقربان ہونا اپنے لیئے اعزازسمجھتے ہیں۔کہیں ایسا نہ ہو کہ بار بار کی اس دل آزاری کی وجہ سے اسلامی دنیا کے مہذب اور ہمیشہ سے امن وبھائی چارے کے داعی لوگ بھی گولی کی زبان پر مجبور ہو۔مسلمانوں کی دل آزاری کو اظہار رائے کی آزادی سے ماخوذ کرنا انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی کو بڑھاوا دینے کے سوا کچھ نہیں۔اور آج مسلمان بین الاقوامی اداروں بشمول امریکہ کے ناخداووں سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کے ایمان کو چھیڑنے والے دنیا کے عظیم دہشت گردآذاد کیوں ہیں؟
شکریہ کے ساتھ
Shah Faisal Shaheen
About the Author: Shah Faisal Shaheen Read More Articles by Shah Faisal Shaheen: 8 Articles with 7431 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.