انقلاب کیسے آئے گا؟

میری ایک داڑ ھ میں کیڑا لگ گیا جو مجھے طرح طرح سے پریشان کرتا، دن کے ہنگاموں میں اطمینان سے بیٹھ جاتا اور رات کی خاموشیوں میں جب دندان ساز خواب و راحت کے مزے میں سرشار ہوتے اور دوا خانے بند.... بے قرار ہو کر اٹھ بیٹھتا، ایک دن جبکہ میرے صبر کا پیمانہ بالکل لبریز ہوگیا تو میں ایک دن دندان ساز کے پاس گیا اور کہا اس داڑھ کو نکال دیجئے، اس نے نیند کی لذت مجھ پر حرام کررکھی ہے اور میرے رات کے سکون و اطمینان کو آہ و کراہ میں بدل دیا ہے“

ڈاکٹر نے اپنا سر ہلایا اور جواب دیا” جہالت ہوگی اگر ہم نے داڑھ کو نکال دیا جبکہ اس کا علاج ہوسکتا ہے“
اس نے داڑھ کو اِدھر اُدھر سے کھرچنا شروع کیا اور اس کی جڑوں کو صاف کردیا، عجیب عجیب طریقوں سے روگ کو دور کرنے کے بعد جب اسے یقین ہوگیا کہ داڑھ میں اب ایک کیڑا بھی باقی نہیں رہا تو اس کے سوراخوں کوایک خاص قسم کے سونے سے بھردیا اور فخر آمیز لہجے میں کہنے لگا” اب یہ تمہاری داڑھ تندرست داڑھوں سے زیادہ مضبوط ہوگئی“، میں نے تائید کی اور اس کی جیب اشرفیوں سے بھر کر خوشی خوشی چلاآیا لیکن ابھی ایک ہفتہ گزرنے نہ پایا تھا کہ کم بخت داڑھ میں پھر تکلیف شروع اور اس نے میرے روح کے نغموں کو پھر قریب المرگ لوگوں کی خرخراہٹ اور دوزخ کی چیخ و پکار سے بدل دیا، اب میں دوسرے ڈاکٹر کے پاس گیا اور محتاط لہجے میں اسے کہا
”اس خطرناک سنہری داڑھ کو نکال پھینکئے.... تکلف بالکل نہ فرمائیے اس لیے کہ کنکریاں چبانے والا انہیں شمار کرنیوالوں سے مختلف ہوتا ہے“

ڈاکٹر نے داڑھ نکال دی وہ گھڑی اگرچہ دردو تکلیف کی بنا پر بڑی ہولناک تھی لیکن در حقیقت مبارک تھی، داڑھ نکال دینے اور اچھی طرح دیکھ بھال کرلینے کے بعد ڈاکٹر نے کہا کہ آپ نے بہت اچھا کیا.... کیڑوں نے اس داڑھ میں اچھی طرح جڑ پکڑ لی تھی اور اس کے اچھے ہونے کی کوئی امید نہ تھی۔

اس رات میں نہایت آرام سے سویا، اب بھی آرام سے ہوں اور داڑھ کے نکل جانے پر خدا کا شکر ادا کرتا ہوں، انسانی سماج کے منہ میں بہت سی داڑھیں ہیں جن میں کیڑا لگا ہوا ہے اور یہ روگ اس قدر بڑھ چکا ہے کہ انتہا کو چھونے لگا ہے لیکن انسانی سماج اس کی تکلیف سے بچنے کیلئے داڑھ نکلواتا بلکہ محض لیپاپوتی پر اکتفا کرتا ہے اور تکلیف سے بچنے کیلئے انہیں باہر سے صاف کرا کے سوراخوں کو چمکدار سونے سے بھروا دیتا ہے اور بس!

پاکستان کا موجودہ معاشرہ مختلف امراض میں مبتلا ہے، سود خوری، رشوت ستانی، مفت خوری، بھتہ خوری، بدعنوانی، جھوٹ، منافقت، اقرباءپروری کساد بازاری، ذخیرہ اندوزی، دہشتگردی، کام چوری، خوشامدی سیاست، بدعہدی، مکرو فریب یہ وہ چند بیماریاں ہیں جس میں عام باشندے سے لیکر مسند اقتدار پر براجمان خواص تک مبتلا ہیں۔ یہاں کی صحافت تجارت بن چکی، یہاں علم کی بولی لگتی ہے اور قلم بکتے ہیں، سیاست بدنام ہوچکی، غیرت بے نام ہوچکی، یہاں کی تجارت پیشہ پیغمبری نہیں رہی، یہاں غریبوں کا خون چوسنے کیلئے ذخیرہ اندوزی کی جاتی ہے، گرانفروشی کی جاتی ہے، تھانوں میں جائیں انسان کپڑے بھی اتروا کر نکلتا ہے، یہاں کے پولیس والے سگریٹ کی ڈبیا کی خاطر اپنا ایمان فروخت کردیتے ہیں، استاد، استاد نہیں رہا اور شاگرہ، شاگرد نہیں رہا، علم دینے والے صنعتکار بن گئے اور علم حاصل کرنے والے سردار بن گئے ہیں۔ یہاں غریبوں کے بچے راتوں کو بھوکے سوجاتے ہیں اور بڑے بڑے گھروں اور توندوں والے پوچھنا تک گوارہ نہیں کرتے، کیا انقلاب لانے والے لوگ ایسے ہوتے ہیں؟ کیا ایسے لوگوں کو تبدیلی کا نعرہ لگانا زیب دیتا ہے؟ کیا یہ ایک بار پھر نہیں لگیں گے، آنیوالے الیکشن میں اپنے ضمیر فروخت نہیں کریں گے؟ کوئی گارنٹی نہیں دے سکتا، یہاں انقلاب تب آئے گا جب معاشرے کا ہر فرد مسلمان بن کر سوچے گا، پاکستانی بن کر رہے گا، سماجی داڑھوں کو کھرچنے، سونا بھرنے سے علاج نہیں ہوگا، برائیوں کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکنے سے ہوگا، وگرنہ درد، درد ہی رہے گا سکون نہیں ملے گا۔
Azhar Thiraj
About the Author: Azhar Thiraj Read More Articles by Azhar Thiraj: 77 Articles with 69076 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.