امریکی صدر کی ہٹ دھرمی برقرار

اقوام متحدہ کے اجلاس سے خطاب کرتے وقت امریکی صدر بارک اوبامہ کے چہرے پر امریکی باشندے کی جانب سے توہین آمیز فلم بنانے پر رتی برابر شرمندگی اور ندامت نہیں تھی پوری امت مسلمہ اور تمام اسلامی ممالک کے سراپا احتجاج ہونے کے باوجود انہوں نے پوری دنیا کے سامنے اس بات کا شرم انگیز انکشاف کیا ہے کہ وہ امریکی باشندے کی جانب سے توہین رسالت پر مبنی بننے والی فلم پر قطعی طور پر پابندی عائد نہیں کر سکتے کیونکہ امریکہ آزادی رائے کے حق کا احترام کرتا ہے اس تمام گفتگو کے بعد انہوں نے روائتی انداز میں مسلمانوں کا دل رکھنے کیلئے یہ بھی کہا ہے کہ فلم کے اندر جو توہین کے پہلو ہیں قابل مذمت ہیں اور اس پر ان کو افسوس ہے!!!!پوری مسلم امہ اور تمام اسلامی ممالک کے احتجاج کے بعد امریکی صدر کی جانب سے اس بات کا اقوام متحدہ میں اعتراف کہ وہ فلم پر پابندی عائد نہیں کریں گے اس سے یہ بات انتہائی بااثر انداز میں ثابت ہو چکی ہے کہ اس فلم سازی کے پیچھے امریکہ صدارتی لابی کا پورا پورا ہاتھ کا ر فرما ہے اس کا جامعہ مطلب یہ ہوا امریکی حمایت یافتہ کوئی شخص کسی بھی ملک میں امت مسلمہ کے سر کے تاج اور پوری انسانیت کیلئے رحمت ورہبر نبی کریم ﷺکی شان میں گستاخی کر سکتا ہے اور مستقبل میں فلم سے بھی بڑھ کر شیطان صفت کھیل کھیلا جا سکتا ہے( نعوذبااللہ)مسلمان عقیدے کے عین مطابق اس طرح کی جرات تو دور کی بات اس طرح کی حرکت کے بارے میں سوچنے والے کا ٹھکانہ بھی جہنم ہے ااہل فکر حلقے امریکی صدر کی اقوام متحدہ میںتقریر کو کسی اور نظر سے دیکھ رہے ہیں کیا9/11کی طرح مسلمانوں کیخلاف دنیا کے اندر کوئی نئی سازش تو تیارنہیں کی جارہی؟؟؟ایبٹ آباد میں ڈرامہ رچایا کہ اسامہ بن لادن کی موجودگی ظاہر کی کے پاکستان کی طرح دیگر امریکہ کو کھٹکنے والے ممالک کیخلاف کئی پلاننگ تو نہیں کی جارہی؟آزادی رائے حق کے نام پر پوری دنیا کے اندر مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے درمیان آگ بھڑکا کردنیا کے اندر کہیں جنگ کی تیاری تو نہیں کی جارہی؟؟؟دیکھئے حالات بہت واضح نظر آرہے ہیںاگر مسلمان کسی مسلک یا مذہب کیخلاف یا اس کے رہبرکے خلاف بات نہیں کرتا تو دنیا کے اندر قیام امن کی کوششیں اور سلامتی کیلئے منصوبہ بندی کیلئے بنائے گئے عالمی ادارے اقوام متحدہ کو فلفور اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تھا اور پوری دنیا کو اعتماد میں لیکر قانون سازی کر نی چاہیے تھی نہ کے خود امریکی صدر کو آزادی رائے حق کی بنیاد پر اپنے آ پ کو اس توہین آمیز فلم کا سرپرست ثابت کرنا چاہیے تھا دیکھئے نہ یہ کوئی ڈراﺅن حملے کی منظوری کی بات نہیں تھی کہ دنیا کے اندر دہشت گرودوں کو ختم کرنے کیلئے امریکہ بغیر منظوری کے کسی بھی ملک کی سرحد کو ڈراﺅن حملہ کا نشانہ بنا سکتا ہے بلکہ امریکی صدر تو دنیا کے اندر مسلمانوں کے مذہب اور ان کے نبی پاکﷺ کی شان اقدش میں گستاخی کا باعث بننے والی فلم کے متعلق اقوام متحدہ میں بات کررہے تھے ان کو یہ ہرگز نہیں کہنا تھا کہ امریکہ فلم پر پابندی نہیں لگا سکتا یہ تو ایسے ہی ہے کہ جب بھی امریکہ کی مرضی ہو گی بغیر منظوری کے وہ کسی بھی ملک کی داخلی خود مختاری کے حق کی پا مالی کرتے ہوئے اس کے اندر داخل ہو کر ڈراﺅن حملہ کرکے اس باشندوں کو نشانہ بنا ڈاے گا۔ نہیں نہیں نہیں ۔امریکہ کی شاہدیہ بھول ہے ڈراﺅن حملوں پر اسلامی ممالک کی خاموشی ،9/11کے بعد اسلامی ممالک کیخلاف کاروائی ،پوری دنیا کے اندر امریکہ کے مسلمان ممالک کیخلاف رویے پر مسلمانوں کی خاموشی ،مسلمان مخالف قوتوں کی امریکی پشت پناہی پر مسلمانوں کی خاموشی یہ تمام چیز یںایک طرف لیکن مسلمان کٹ سکتا ہے مگر اپنے پیارے آقا ﷺکےخلاف کوئی بات برداشت نہیں کر سکتا ،ماشااللہ مسلمانوں کے حالیہ جذبات مظاہروں ،پر امن احتجاج کے بعد پوری دنیا کے اندر مسلمانوں کے بارے میں ایک مثبت رائے قائم ہو چکی ہے جس سے فائدہ اٹھانے کیلئے ضرورت اس بات کی ہے کہ پوری امت مسلمہ اپنے اندرونی اختلافات کو ایک طرف رکھ کر صرف اسلام کے نام پر یکجا ہو جائیں وہی اسلام جس کی سربلندی کیلئے حضرت امام حسن ؓنے کربلا کے میدان میں تاریخ کی عظیم ترین شہادت پیش کر دی تھی اس کو بچانے کیلئے مسلم اتحادوقت اہم ضرورت ہے وہ وقت دورنہیںکہ جب خود امریکہ فلم پر پابندی بھی عائد کرے گا وہ مسلمانوں سے روائتی معافی مانگ کے بجائے حقیقی معادفی مانگے گا کیونکہ اگر عالمی ادارہ انصاف بھی اقوام متحدہ کی طرح امریکہ کی لونڈی بن کر مسلمانوں کے مذہب کے خلاف سے مزاک کرتا ہے تو پھر اقوام متحدہ یا عالمی عدالت انصاف سے کسی کو امید رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
Mumtaz Ali Khaksar
About the Author: Mumtaz Ali Khaksar Read More Articles by Mumtaz Ali Khaksar: 49 Articles with 37484 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.