راقم الحروف کو شاعر اور
شاعری سے خصوصی لگاﺅ اور شغف ہے ۔ مگر آج میں نے جس شاعر کے بارے میں
لکھنے کی کوشش ہے وہ بہت مشکل حدف والے شاعر ہیں ان کے بارے میں لکھنا
گویا جوئے شِیر لانے کے برابر ہے۔ ویسے تو میر تقی میر کسی تعارف اور
کسی تفصیلات کے محتاج نہیں مگر اردب ادب اور اردو سے لگاﺅ رکھنے والے
قارئین مجھے یقین ہے کہ اِس مضمون کو خاصہ پسند فرمائیں گے۔ اور ساتھ
ہی اردو چونکہ ہماری قومی زبان بھی ہے اور اردو کی تعلیم ہمارے اسکو ل
سے لیکر جامعات تک میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اس لئے اُن طالب
علموں کیلئے بھی بہت سودمند ہوگا جو میر کے بارے میں جاننے کے خواہش
مند ہونگے۔
ریخت کے تم استاد نہیں ہو غالب
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا
دنیائے علم و ادب میں میر تقی میر کو یقینا ایک جادوئی و حرکیاتی شاعر
قرار دیا جا سکتا ہے اور وہ محبانِ اردو کی نظروں میں بری قدر و احترام
سے دیکھے جاتے ہیں۔اور جب تک اردو ادب زندہ و تابندہ ہے تب تک ان کا
نام بھی ادب و احترام سے لیا جاتا رہے گا۔میر تقی میر نے اپنی اعلیٰ
صلاحیتوں سے یہ ثابت کر دیا کہ اردو شاعری کو ادبِ عالیہ میں بھی شامل
کروایا جا سکتا ہے اور سلسلے میں ان کی کامیابی بڑی اعزاز کی حامل ہے۔
ان کی شاعری میں دلکشی اور چاشنی کا مربہ ہوا کرتا تھاجو بیان سے باہر
ہے اور اس کا صحیح اندازہ ان کے چاہنے والوں سے معلوم کیا جا سکتا ہے۔
میر تقی میرغالباً 1723 یا1722 ءمیں ہندوستان کے شہر آگرہ( اس شہر کو
پہلے اکبر آبادبھی کہا جاتا تھا) میں پیدا ہوئے۔ان کا اصلی نام محمد
تقی اور تخلص میر تھا ۔دس برس کے تھے کہ ان کے والد کا انتقال ہوگیا
اور پھر بڑے بھائی کی بے مروتی کی وجہ سے دہلی چلے گئے ۔ انہوں نے اپنی
ابتدائی تعلیم اپنے والد اور منہ بولے چچا سید امان اللہ سے حاصل کی
تھی۔ میر کے والد نہایت درویش صفت انسان تھے۔ اور اپنے سوتیلے ماموں
خان آرزو کے ہاں کافی عرصہ قیام کیا جو بہت بڑے شاعر اور فارسی دان بھی
تھے۔ میر نے ان کی شاعری میں بھرپور استفادہ کیا۔اس کے علاوہ بھی
خاندانی ریخت و الم اتنا زیادہ تھا کہ جنون کی سی حالت ہوگئی۔ اسی
زمانے میں سید سعادت علی خان کی ترغیب سے ریختے میں شعر کہنے لگے۔ پھر
شاید ان دونوں شخصیات کے تعلقات خراب ہونے پر سخت پریشان رہنے لگے تھے۔
کافی عرصہ تک مختلف رئیسوں اور نوابوں کے ہاں ملازمت کے مزے بھی لیئے
بعد ازاں لکھنو چلے آئے گئے۔ یہاں نواب آصف الدولہ کے ملازم ہوئے اور
یہیں نواسی برس کی عمر میں 1810ءکومیر اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔حال
تنگ دستی اور ریختگی کا عالم ایسا تھا کہ ان کے شعروں میں بھی اس کا
عنصر غالب ہے۔ان کی تصانیف میں اردوکے چھ دیوان موجود ہیں۔ ان کی
شاعرانہ شہرت کا آفتاب افق شعر و ادب پر آج بھی اسی طرح روشن و تابندہ
ہے۔ میر اپنے وارداتِ قلبی کو انتہائی خوبصورتی کے ساتھ زبانِ شعر میں
ڈھالنے پر قادر تھے، ان کے شعروں میں نمایاں خصوصیات درد و غم‘ سادگی‘
موسیقیت‘ سوز و گداز‘ تصوف‘ اور حالاتِ زمانہ کی تصویر کشی شامل ہیں۔
اس سرے دل کی خرابی ہوئی اے عشقِ دریغ
تو نے کس خانہ مطبوع کو ویران کیا
میر کی پوری زندگی چونکہ افلاس، تنگ دستی اور آزمائشوں میں گذری تھی اس
لئے رنج و الم اور فکر و احساس ان کی شخصیت کا خاص جزو بن گئے تھے۔ ان
ہی وجوہات کی بناءپر میر کی شاعری میں سوز و گداز اور رنگ و اثر پیدا
ہوا۔ یوں ان کی شاعری لازوال بن گئی۔ زندگی کے آلام نے انہیں خوددار‘
بد دماغ‘ چڑچڑا اور نازک مزاج بنا دیا تھا چنانچہ وہ خوداس بات کا
اعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیںکہ نازک مزاج آپ قیامت ہیں میر جی!
آہ کی تاثیر اور فغاں کی توقیر کا دبستان کلام میر تقی میر ہے ۔شاعرانہ
خصوصیات میرتقی میر میں اس لئے بھی کُوٹ کُوٹ کر بھری ہے کیونکہ وہ
فطری طور پر ایک شاعر پیدا ہوئے تھے اور یہ اردو ادب کی خوش قسمتی ہے
کہ شاعری کے ابتدائی دور میں میرتقی میر جیسا عالی دماغ شاعر میسر آیا
جس نے زمینِ سخن کو آسماں بنا دیا۔ ان کی شاعرانہ عظمت نے ان کے دور کو
شاعری کا سنہرا دور بنا دیا ان کے بعد ہر دور کے شعراءنے انہیں ” خدائے
سخن “ تسلیم کیا ۔ خواجہ میر درد کے والد خواجہ عندلیب نے میرتقی میر
کے متعلق کہا تھا ” اے میر تو میر مجلس خواہی شد“ یعنی اے میر تو ایک
دن منھل کی جان بنے گا۔
میر تقی میربڑے ہی نازک مزاج اور بد دماغ ہونے کے باوجود وہ آدم بیزار
نہیں تھے۔ چنانچہ ہنگامہ حیات سے خاص لگاﺅ رکھتے تھے۔ میر تقی میر
زندگی‘ تہذیب اور فن کے بارے میں اپنا منفرد تصوراور خیالات رکھتے تھے۔
اسی لیے ان کی شاعری کو ان کی شخصیت کا آئینہ کہا جاتا ہے۔ میرتقی میر
ایک ایسے شاعر تھے جنہوں نے تمام احنافِ شاعری میں طبع آزمائی کی ہے
مگر ان کی شہرت اور ان کے فن کی بقا کا دارومدار غزل پر زیادہ رہاہے
اسی لیے انہیں شہنشاہِ غزل بھی کہا جاتا ہے۔ غزلوں میںمیر تقی میر کے
بہتّر نشتر بہت مشہور ہیں۔ یہ ایسے منتخب شعر ہیں جو شاہکار بلکہ منتخب
غزلوں کا مجموعے کا درجہ رکھتے ہیں، اب بہتّر نشتروں کی تحریر تو اس
مضمون کی زینت نہیں بنا سکتا ہاں اتنا ضرورہے کہ ایک دوشعر ان نشتروں
میں سے درج کر دیا جائے۔
مجھ کو شاعر نہ کہو میر کہ صاحب میں نے
درد و غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا
الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا
میر تقی میر کا یوں تو تمام شعر ہی مشہور ہے خاص طور پر عشق کے مارے
ہوئے لوگوں پر یہ شعر صادق آتا ہے‘ میر تقی میر کہتے ہیں کہ عشق و محبت
ایک ایسا مرض ہے جس میں تمام علاج اور دوا کا اثر اُلٹا نکلتا ہے اور
یہ مرض عاشق کی جان کے پیچھے پڑ جاتا ہے‘ یوں جان لے کر ہی چھوڑتا ہے۔
میر تقی میرپر بھی یہ کیفیت طاری ہوئی‘ انہوں نے عشق سے چھٹکارا حاصل
کرنے کی بڑی کوششیں کیں مگر بے فائدہ اور جسم و جان کی ساری توانائی
ختم ہونے کو ہے، موت ہی اس غم سے نجات دلا سکتی ہے۔
ناحق ہم مجبوروں پر تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں، ہم کو عبث بدنام کیا
میر تقی میر آزادی اور خود مختاری کو ایک الزام قرار دیتے ہیں کہ انسان
کو آزاد اور خود مختار کہا جاتا ہے‘ اورساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہا جاتا
ہے کہ انسان کی قسمت میں جو لکھ دیا گیا ہے، وہی ہو کر رہتا ہے، تو اس
طرح انسان اپنی مرضی کا مالک کیسے ہوا‘ یہ محض بدنام کرنے کے لئے ہے۔
ہم تو اپنی لکھی ہوئی قسمت کے تابع ہیں۔ آزادی و خود مختاری کچھ بھی
نہیں ہے۔میر تقی میراپنے شعر میں رنج و الم کی کیفیت کا ذکر کر تے رہے
ہیں جس کی وجہ سے وہ ساری زندگی دکھ‘ تکلیف‘ پریشانیوں میں گزار دی۔وہ
اس طرح کہ رات بھر روتے اور اتنا روتے کہ صبح ہو جاتی اور صبح ہونے کے
بعد رات کا انتظار کیا جاتاکہ رات کو آرام کی نیند لیں مگر ہماری قسمت
میں آرام و چین کہاں۔
میرے سلیقے سے میری نبھی محبت میں
تمام عمر میں ناکامیوں سے کام لیا
میر تقی میر عزم و ہمت‘ ضبط اور حوصلے کا ذکر کر تے ہیں کہ اپنے محبوب
کے تمام ستم کو میں نے صبر و تحمل سے برداشت کیا۔ اسی وجہ سے لوگ میری
محبت کی مثالیں پیش کرتے ہیں کہ محبوب کے تمام ظلم برداشت کئے اور کوئی
شکوہ زبان پر نہیں لایا۔
میر تقی میر کے بارے میں گو کہ لکھنا بہت مشکل پہلو ہے مگر میں نے کوشش
کی ہے کہ اس پر بہترین تحقیق کر سکوں اور ویسے بھی ایک میر پر صحیح
طریقے سے لوازمات سے پُر لکھنے کی سعی کی جائے تو ایک اور کتاب مرتب ہو
جائے گی اور راقم تو صرف ان کیلئے ایک آرٹیکلمضمون لکھنے کی کوشش میں
تھا جس میں سرخروئی کے ساتھ کامیاب ہوا یا نہیں اس کا فیصلہ کالم پڑھنے
والے قارئین ہی کر سکتے ہیں۔ |