امریکی ادارے آئی آر آئی نے اپنے
تازہ ترین سروے میں بتایا ہے کہ پاکستان میں مسلم لیگ (ن) اس وقت ملک کی
مقبول ترین جماعت بن گئی ہے جبکہ تحریک انصاف کی مقبولیت کم ہو گئی ہے۔ آئی
آر آئی نے اپنے سروے میں ملک کے مختلف حصوں اور طبقات کے 6 ہزار افراد کی
آراءپر مبنی سروے میں جب یہ سوال پوچھا قومی اسمبلی کے انتخابات ہوں تو وہ
کس کو ووٹ دیں گے؟ اس سوال کے جواب میں 28 فیصد نے مسلم لیگ (ن)، 24 فیصد
نے تحریک انصاف اور 14فیصد نے پیپلزپارٹی اور 3 فیصد نے ایم کیو ایم کو ووٹ
دینے کا اعلان کیا۔ جب یہی سوال مختلف صوبوں کے شہریوں سے پوچھا گیا تو
پنجاب میں 43 فیصد لوگوں نے مسلم لیگ (ن) ، 27 فیصد نے تحریک انصاف اور 7
فیصد نے پی پی پی کو ووٹ دینے کی حمایت کی۔ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی
فروری کے سروے کے مقابلے میں مقبولیت 41 فیصد سے بڑھ کر 43فیصد ہوگئی ہے
جبکہ تحریک انصاف کی فروری کے سروے میں پنجاب میں 33 فیصد مقبولیت تھی جو
کم ہو کر 27 فیصد رہ گئی ہے۔ پی پی پی پنجاب میں مقبولیت 9 فیصد سے کم ہو
کر سات فیصد رہ گئی ہے۔اس سروے کی وجہ سے عمران خان کویہ کہنا پڑا کہ” میں
مانتا ہوں کہ ہماری پارٹی کے گراف میں کمی ہوئی ہے۔“ عمران خان پرایک
بارایساوقت آیا تھا کہ وہ پاکستان کے نمبر 1سیاسی جماعت کے سربراہ بن گئے
تھے۔ ان کے سونامی ہر شہر میں کامیاب ہورہے تھے مگر بدقسمتی سے وہ دور
زیادہ دیر تک نہ رہ سکا۔ اب تو نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ ان کی پارٹی کے
نامی گرامی لوگ ان کو چھوڑ کر جارہے ہیں۔
ذکر ہورہا ہے پاکستان کی نمبر ایک پارٹی کا ۔ یہ سروے کسی خاص شہر کا نہیں
ہے جس کو جھٹلادیا جائے یہ عوامی سروے ہے جو کسی پاکستانی ایجنسی نے نہیں
بلکہ ہمارے ان داتا ملک امریکہ نے کرایا ہے وہ ملک جس کا ہر حکم ہم سر
آنکھوں پر رکھتے ہیں۔ ن لیگ نے تمام سیاسی جماعتوںمیں سبقت حاصل کی ہے۔ اگر
ان تین پارٹیوں کا تھوڑا سا جائزہ لیا جائے تو ہر پارٹی میں اچھائی کے ساتھ
ساتھ برائی بھی ہوتی ہیں۔مشرف کی حکومت کے دوران جب بے نظیر ملک واپس آئیں
اور جس وقت بے نظیر شہید ہوئی اس کے بعد سے ان کے قتل میں ق لیگ کو شامل
کیا جارہا تھا۔ پرویز الہٰی کو مشرف کے ساتھ بے نظیر کے قتل میںبراہ راست
شامل کیا گیا۔ پھر وقت نے اپنا آپ دکھایا اور جو پارٹی قتل میں ملوث تھی اس
پارٹی کو حکومت میں نہ صرف شامل کیا بلکہ ان کے ایک لیڈر کو ملک کے نائب
وزیراعظم کی کرسی پر بٹھا دیا۔مانا کہ پاکستان میں شرح خواندگی بہت کم ہے
مگر عقل کی کمی تو نہیں ۔ہر ذی شعور جانتا ہے کہ یہ کیا ہورہاہے اور کس لیے
ہو رہا ہے؟ جس طرح لال مسجدکا واقعہ مشرف لیگ کو حکومت سے ختم کراسکتاتو
ایسا کچھ مستقبل قریب میں بھی ہوسکتا ہے۔
عمران خان کی تحریک انصاف نے جب سب سے پہلے لاہور میں جلسہ کیا تو اس نے
پاکستان کی عوام بالخصوص نوجوانوں کو ایک انقلابی لیڈر عمران خان کی صور ت
میں نظر آیا۔پھر کیا دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان کے ہر کونے میں تحریک انصاف
کے جلسے کم اور سونامی کی بازگشت زیادہ سنائی دی جانے لگی۔ ہرطرف عمران خان
کے چرچے ہورہے تھے۔ ہر ضلع سے نامور سیاستدان تحریک انصاف میں شامل ہورہے
تھے۔ حتیٰ کہ لوگ وفاقی و صوبائی اقتدار کا مزہ چھوڑ کر تحریک انصاف میں
شامل ہورہے تھے حالاں کہ دوران حکومت کسی کا دل نہیں چاہتا کہ وہ حکومت کا
مزہ چھوڑ کر جائے ۔اس وقت کے عوامی سروے کے مطابق تحریک انصاف پاکستان کی
نمبر ایک پارٹی بنتی جارہی تھی مگر ایک دم نہ جانے کسی کی کرسی گری یا کسی
کی نظر لگ گئی کہ تحریک انصاف پر برے وقت کے بادل منڈلانے لگے۔ وہ سونامی
جو بڑھتا چلا جا رہا تھا وہ تھمنے لگا۔ آج حالت یہ ہے کہ جو سیاستدان بڑی
تیزی سے تحریک انصاف میں آئے وہ اتنی ہی جلدی سے تحریک انصاف سے جانے بھی
لگے۔
مسلم لیگ ن کبھی حکومت کا حصہ توکبھی حکومت مخالف بنتی رہی مگر پھر ایک وقت
ایسا آیا کہ اس نے حکومت کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر مستقل اپوزیشن سنبھال لی۔
میاں نواز شریف نے حکومت کی ہر برے وقت میں مدد کرکے اپنے لیے فرینڈلی
اپوزیشن کا لقب بھی حاصل کیا۔ یہ کسی حد تک ٹھیک بھی ہے کہ پی پی کی حکومت
پر جب بھی برا وقت آیا تو میاں نوازشریف نے در پردہ ان کی حمایت کی جس کی
وجہ سے اس کے گراف میں اتار چڑھاؤ رہا۔ اگر ملکی سطح پر ن لیگ کی کاوشوں کا
دیکھا جائے تو اس نے ملکی سطح پر کافی اچھے کام کیے ۔ اپنے پہلے ادوار میں
بزنس مینوں کے لیے صنعتی میدان میں ملک کے اکثر علاقوں میں صنعت کو فروغ
دیا۔ دور دراز علاقوں میں مختلف قسم کی صنعتیں لگوائیں۔ موٹروے بنوایا تاکہ
لوگوں کو آنے جانے اور اپنا مال وغیرہ لے جانے میں سہولتیں میسر ہوں۔
اس بار سیاست کے میدان میں مسلم لیگ ن کو تنہا ئی کا بھی طعنہ دیا گیا۔ اس
کی مخالفت میں پی پی کی حکومت نے تحریک انصاف کو چھوڑ دیاکہ اس طرح ان کی
آپس کی لڑائی سے فائدہ اٹھا سکیں۔ تحریک انصاف ملک کے کسی بھی کونے میں
جلسہ کرے اس کی تنقیدکے تیر ن لیگ پر چلتے ہیں۔ تحریک انصاف کے سربراہ
عمران خان ایم کیو ایم کے خلاف ثبوت لیکر انگلستان بھی گئے تھے اور کچھ بھی
نہ کیامگر اب ان کے تیر کے نشانے پر وہ نہیں بلکہ ن لیگ ہوتی ہے۔ وہ دو بات
پی پی کے خلاف کہتے ہیں تو دس باتیں نوازشریف اینڈ فیملی پر ۔ نواز شریف کی
ثابت قدمی نے ان کو اس مقام پر پہنچایا کہ وہ سیاست کے میدان میں اتنی
مخالفت ہونے کے باوجود نمبر ایک ہیں اور اللہ جس کو چاہیے عزت دے اور جس کو
چاہیے ذلت۔ |