اسلام ہی اللہ رب العزت
کاپسندیدہ دین ہے۔جس کی حفاظت و صیانت کا انتظام رب تعالیٰ نے اپنے منتخب
اور پسندیدہ بندوں کے ذریعے کیاتاکہ اس کا چہرہ زیباتغیر و تبدل کے گردو
غبار سے آلودہ نہ ہو۔ہر دور میں شیدایانِ اسلام نے غیر معمولی قربانیاںپیش
کرکے اورمخلصانہ خدمات انجام دے کرحوادثِ کائنات سے اسلامی احکام و تعلیمات
کو اخلاف تک پہنچانے کا فریضہ انجام دیا....۰۲ویںصدی عیسوی کے نصف آخرمیںجن
نفوس قدسیہ نے اپنے خونِ جگر سے گلشنِ اسلام و سنیت کی آب یاری فرمائی ان
میںعلامہ ارشدالقادری علیہ الرحمہ ایک ممتاز اور منفرد مقام رکھتے ہیں۔
علامہ ارشدالقادری مقناطیسی اور سیمابی اوصاف سے متصف ایک حساس اور درد
مندشخصیت کے مالک تھے....مقناطیسی اس لیے کہ آپ اکابر و اصاغر،عوام و خواص
ہر طبقہ کے منظورِ نظر اور ہردل عزیز تھے؛اکابرعلما و مشایخ اور اربابِ فکر
و نظر ان کے خلوص و للہیت اور مذہبِ حق کے تئیں جذبہ صادق کودیکھتے ہوئے
ہمت افزائی فرماتے،عوام ان کے جہدِ مسلسل سے پیغامِ عمل حاصل کرتے۔اپنے تو
اپنے اغیار بھی ان کے حسنِ سلوک،علمی وجاہت اور مکارمِ اخلاق کے معترف
ومتاثرتھے اور ہیں....سیمابی اس لیے کہ خدمتِ دین اور دفاعِ مسلکِ حق کے
جذبے نے انہیں کسی مقام کا پابند نہیںرکھا،ع ”مومن فقط احکامِ الٰہی کاہے
پابند“کے مصداق جہاںضرورت محسوس کی ابرِباراں بن کر چھاگئے،کشتِ ایمان کو
سیراب کردیا۔تزل زل و تذب ذب کے وحشتیںچھٹ گئیںاورایمان وایقان کی چھاؤں نے
بسیرا ڈالا۔جہاں گم راہی اور ضلالت کی تاریکی دیکھی،نیابتِ مصطفی صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وسلم کا فریضہ انجام دینے کے لیے حاضر ہوگئے،احقاقِ حق اور
ابطالِ باطل میں انہیںیدِطولہ حاصل تھا۔برصغیر کے علاوہ یوروپ وافریقا کے
بہت سے علاقے ان کی دعوتی و تبلیغی اور تعمیری و تنظیمی وتعلیمی خدمات کے
نقوش سے جگ مگا رہے ہیں....حساس اوردردمند اس لیے کہ جب بھی وقت پڑا انہوں
نے بلاخوف لومةلائم اپنی صلاحیتوں کو بہ روئے کار لاکر بروقت اہلِ حق کو
متحرک و فعال رہنے کا درس دیا۔
درج بالا ایک ایک لفظ کی تصدیق ان کی کتابِ حیات کا ایک ایک صفحہ کرتا
ہے،دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ان کے علمی و دینی فیضان کے دھارے کرتے ہیں،ان
کے فکر انگیز،ایمان افروز،کفرسوزاور کشورِ دل کو فتح کرلینے والے
نگارشات،کتب و مقالات اور صحافتی جواہر پارے کرتے ہیں اور وہ
درجنوںادارے،تنظیمیں اور تحریکیں ان حقایق کی معترف ہیںجن کی
شریانوںمیںعلامہ ارشدالقادری کے سوزِ دروں،آہِ صبح گاہی اور نالہ نیم شبی
کے نتیجے میں آنکھوںسے بہنے والے گوہرِ بصارت کا لہو گردش کررہا ہے۔چاہے وہ
عالمی تحریک دعوتِ اسلامی کراچی ہو،ورلڈاسلامک مشن انگلینڈہو،ادارہ شرعیہ
بہار ہو،جامعہ فیض العلوم جمشید پورہو،جامعہ حضرت نظام الدین اولیاءدہلی ہو
یا پھر ملک و بیرون ملک میں قائم آپ کے ذریعے قائم کیے گئے تعلیمی و
تبلیغی،رفاہی و فلاحی اور مذہبی و تربیتی ادارے یا تنظیمیں ہوں،ہر کوئی ان
کامرہونِ منت ہے اور سب ان کے احسانات کی دستار اپنے سروںپر سجائے رقصِ
بسمل کررہے ہیں۔
علامہ ارشدالقادری کی حیات و خدمات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات روزِ روشن
کی طرح عیاں اور واضح ہوجاتی ہے کہ ان کی ذات اپنے عہد میں ایک قائد اور رہ
بر ورہ نما کی طرح تھی۔وہ حرکت و عمل کے پیکرِمجسم تھے۔تعمیرِملت کے لیے
ہمیشہ سرگرداںرہتے۔خدمتِ دین کاوہ جس قدر صالح اور پاکیزہ جذبہ رکھتے تھے
ہرایک کو اس خوبی سے متصف دیکھنا چاہتے تھے۔اس سلسلے میںمولانانعمان
احمدازہری کا یہ مشاہداتی بیان چشم کشا اور حقیقت افشاں ہے:”رات کے دو بجے
بھی اگرآئندہ کل کا کوئی منصوبہ ذہن میں آجاتا توطلبہ کو جمع کرنے والی
گھنٹی(Alarm)اسی وقت بج جاتی اور سب کو چیمبر میں حاضر ہونا پڑتا بعض طلبہ
کی غیر حاضری پر سخت ناراض ہوتے اور مایوس کن لہجے میں فرماتے کہ”ہماری
جماعت میں کام کرنے کا جذبہ ہی نہیںہے۔میَں نے یہ جامعہ آرام و آرائش کے
لیے نہیںجفاکشی کے لیے کھولا ہے۔آپ کو تن آسانی کے لیے نہیںبلکہ فوجی زندگی
گزارنے کے لیے بلایاگیاہے جو ہمہ وقت چاک و چوبند(Alert)ہوتے ہیں“۔“(مولانا
نعمان ازہری،سالانہ مجلہ کاروانِ رئیس القلم دہلی2007ء،ص36)
آپ نباضِ وقت تھے۔حالات کے تقاضوں کو محسوس کرکے جدیدانداز میںتبلیغ و
اشاعتِ دین و سنیت کے لیے منصوبہ سازی اور پھر ان پر عمل آوری کی سبیل بھی
نکال لیتے تھے۔ایک مقام پر اپنے قلبی اضطراب کااظہار ان الفاظ میں کرتے
ہیں:”ایک عرصے سے چیخ رہا ہوں کہ زندہ رہنا تو سوچنے اوربرتنے کا انداز
بدلنا ہوگا۔فولادکی تلوار کا زمانہ ختم ہوگیا۔اب قلم کی تلوار سے معرکے سر
کیے جارہے ہیں۔پہلے کسی محدود رقبے میں کفر و ضلالت کی اشاعت کے لیے
سالہاسال کی مدت درکار ہوتی تھی اور اب پریس کی بدولت صرف چند گھنٹوں میں
شقاوتوںکاایک عالم گیر سیلاب امنڈسکتاہے۔ذرا آنکھ اٹھاکر دیکھئے! آج
ہندوستان کا ہر فرقہ قلم کی توانائی اور پریس کے وسائل سے کتنامسلح
ہوچکاہے۔اتنامسلح کہ اس کی یلغار سے ہمارے دین کی سلامتی خطرے سے دوچارہوتی
جارہی ہے۔بلکہ میَں بعض ایسی بھی جماعتوں کی نشان دہی کرسکتا ہوں جن کے
وجود کا کوئی سررشتہ ماضی میںنہیںملتالیکن اس اجنبیت کے باوجودصرف قلم کے
وسائل کے بل پر وہ روئے زمین پر طوفان کی طرح پھیلتی جارہی ہیںاور ان
کااجنبی لٹریچر سیکڑوں برس کی قابل اعتماد تصنیفات کو نہایت تیزی کے ساتھ
پیچھے چھوڑتاجارہاہے۔
فکری مزاج کی تعمیر میںقلم کوجواہمیت حاصل ہے اس سے انکار نہیں
کیاجاسکتااور اس حقےقت سے بھی انکار ممکن نہیںہے کہ فکری استحکام کے بغیر
کوئی جماعت بھی ہوطوفانوںکا مقابلہ نہیںکرسکتی۔ پریس ہی کا یہ کرشمہ ہے کہ
فتنہ صبح کوجنم لیتا ہے دو پہر تک جوان ہوجاتا ہے اور شام ہوتے ہوتے
آبادیوںکے لیے ایک درد ناک آزار بن جاتاہے۔“(علامہ ارشدالقادری،سالانہ مجلہ
کاروانِ رئیس القلم دہلی2007ئ،ص۴)
اسی تناظر میں ایک اور اقتباس اسی مجلہ کے سرورق پرقابلِ مطالعہ ہے:”میری
عمرکابڑاحصہ یورپ اور مغربی ممالک کی خاک چھاننے میںگزرا،میںنے وہاںشدت سے
محسوس کیاکہ ایسے علماءکی سخت ضرورت ہے جو بین الاقوامی زبانوںمیںاسلام کی
تبلیغ و اشاعت کافریضہ بحسن وخوبی انجام دے سکیں۔ یورپ میں چونکہ عربوں کی
بھی معقول آبادی ہے۔اس لئے عربی کے ذریعہ بھی یورپ میں کام کرنے میں آسانی
ہوگی لیکن یہ کام کسی روایتی مدرسے میںنہیں ہوسکتا تھااس لئے الگ سے ایک
تربیتی کیمپ قائم کرنے کی ضرورت ہے چناچہ میں نے فیصلہ کرلیاکہ ایسا ادارہ
ضرورقائم کروں گاجہاںقدیم و جدید نظامِ تعلیم وتربیت کے پروردہ علماکو جدید
علوم و فنون سے مسلح کرنے کا کام کیا جاسکے۔“
چناںچہ علامہ نے اپنے اس حسین خواب کو ”جامعہ حضرت نظام الدین اولیائ“کی
شکل میں ہندوستان کے دارالسلطنت دہلی کی سرزمین پر شرمندہ تعبیرکیا۔جس
میںمدارس اسلامیہ کے فارغین علماکواہلیتی امتحان میں کام یابی کے بعد داخلہ
دیا جاتا ہے اور عالمی زبان و ادب نیز جدید اسالیبِ دعوت سے ہم آہنگ کیا
جاتا ہے۔اس لحاظ سے یہ جامعہ اپنی نوعیت کامنفرد ادارہ ہے۔جامعہ ہٰذا کے
کئی قابل طلبا عالمی جامعات مثلاً جامعہ ازہر مصر اور بغداد و شام کی دانش
گاہوں میں کام یابی سے اپنا تعلیمی سفر جاری رکھے ہوئے ہیں اور ان علما کی
بھی اچھی خاصی تعداد ہے جنہوںنے جامعہ کے توسط سے مذکورہ عالمی جامعات سے
سند فراغت حاصل کی ہے اورمتعدد مغربی ممالک میں کام یاب اور بامقصد داعیِ
دین کا کردار ادا کررہے ہیں۔
پہلی جنگِ آزادی 1857ءکے بعد انگریز حکومت کے ہاتھوں دہلی ایک مرتبہ پھر
تاراج ہوئی تھی اس کے بعد سے مسلسل بد مذہبوں نے اسے اپنی تبلیغ و اشاعت کا
مرکز بنایااور دہلی سے اہلِ سنت کا جو روحانی و علمی رشتہ تھایک سر کم زور
پڑگیاتھا۔علامہ نے دہلی میں جامعہ حضرت نظام الدین اولیاءکاقیام اس دور میں
کیا جب کہ علما و مشایخ ِ اہل سنت دہلی کو گویا فراموش کر چکے تھے۔بہ قول
علامہ یاسین اختر مصباحی:”علامہ ارشدالقادری کی خدمات سے پہلے بہت سے علما
دہلی آتے تھے مگر محض دو کاموں کے لیے ایک تو مزاراتِ اولیا پر حاضری دینے
اور دوسرا ٹرین بدلنے۔دہلی میں اہلِ سنت کی تریج و اشاعت کی طرف کسی کی
توجہ نہیں تھی۔“(مذکورہ تاثر علامہ یاسین اختر مصباحی نے راقم کے سامنے
دیاتھاجب راقم 2007ءمیں برادرم غلام مصطفی رضوی ،مبلغِ اسلام
مولاناارشدمصباحی اور جناب جاوید احمد قادری کے ہم راہ دارالقلم دہلی حاضر
ہواتھا)
اپنوں اور غیروں کی بے وفائی اور دھوکے بازی کے صدمے برداشت کرکے،اپنوں کی
احسان فراموشی کے نشترسے چھلنی جگرکے ساتھ علامہ نے ایک صبر آزما دور
کاٹا۔یقینا ان کی زندگی کا یہ دور کسی کڑے مجاہدے سے کم نہیں تھابلکہ حقیقت
یہی ہے کہ اسی عالم میں جب کی دہلی میںانہیںسر چھپانے کے لیے آشیانہ بھی
میسر نہیں تھامحبوبِ الٰہی کے آستانے پراپنی آرزﺅں کی تکمیل کے لیے آہ و
زاریاں کرتے رہے۔صبح اپنے ہاتھوں سے روٹیاں بناتے اور کھاتے۔حتیٰ کہ کئی
کئی دن محض سوکھی روٹیوںاور پانی ہی پر اکتفا کرنا پڑتاتھا۔یہ اس وقت کی
بات ہے جب علامہ کی شہرت و مقبولیت کاطوطی برصغیر کی وسعتوں کو عبور کرکے
یورپ و امریکا اور افریقا تک میںچہک رہاتھا۔مگرآپ درویشوں کی طرح اپنے مشن
اور مقصد کے حصول کے لیے پیکرِ صبر و رضا بن گئے تھے۔یقیںمحکم اور عملِ
پیہم کے ساتھ دہلی کو ایک مرتبہ پھر محبتِ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم
کا گہوارابنانے کی دھن میں لگے تھے۔آخرکار خدائے رحمن و رحیم نے ان کے
شکستہ دلی کی لاج رکھ لی اور چشمِ فلک نے وہ دن بھی دیکھاکہ1994ءمیںوہابیت
کے سینے پر اہلِ سنت کاایک عظیم قلعہ تعمیر ہوااور جامعہ حضرت نظام الدین
اولیاءکی شکل میںدہلی سے اہلِ سنت کا پرانا رشتہ استوارہوا نیز علامہ
کاخواب بھی صفحہ ذہن سے زمین پرجلوہ بارہوا
نشیمن پر نشیمن اس قدر تعمیر کرتا جا
کہ بجلی گرتے گرتے آپ خود بےزار ہوجائے
بنی بنائی،ہم وار زمینوںپراورسازگارماحول میں کام کرناکمال نہیں،بلکہ
صحرامیں گل کاری اپنے اندر معجزانہ شان رکھتی ہے۔علامہ کی ایک خصوصیت تھی
کہ وہ کام کے لیے بنجر زمینوں کاانتخاب کیا کرتے تھے۔قدیم صالح اور جدید
نافع کو استعمال میں لانا ان کی امتےازی خوبی تھی۔انہوں نے جو بھی
ادارے،تنظیمیںیا تحریکیںقائم کیں، ان کے ذریعے نئے آفاق فتح کیے،امیدوں کے
نئے چراغ روشن کیے اور ہمیں جہاں بانی،جہاںبینی اورجہاں گیری کا درس
دیا۔1976ءمیںحج کے موقع پر جب پورے عالم اسلام کے اکابرعلماو مفکرین سے مکہ
مکرمہ میںملاقاتیں کیں علامہ نے مشاورت کے بعد ایک عالمی تحریک کے قیام پر
زور دیااور وہیںایک عالمی تحریک ”الدعوةالاسلامیةالعالمیة“کی بنیاد رکھی،جس
کا صدر دفتر بریڈ فورڈ انگلینڈ میں بنایاگیااور یہ تحریک ”ورلڈاسلامک
مشن“کے نام سے آج بھی متحرک و فعال خدمات انجام دے رہی ہے۔ورلڈاسلامک مشن
آج کی تاریخ میںیورپ و امریکا اور افریقا میںمسلمانوںکی سب سے مضبوط اور
بااثر تحریک ہے۔جو فروغ و دفاعِ اسلام اپنی مثال آپ ہیں۔جب کہ برصغیر میں
بد مذہبوں کی تبلیغی اور اشاعتی گم راہ کن تحریکوںنے زور پکڑاتو علامہ نے
1982ءمیں دارالعلوم امجدیہ کراچی میںاکابر علما کی میٹنگ کے بعد عالمی
تحریک دعوتِ اسلامی کی بنیاد رکھی اور اس کے دائرہ کار اور نصاب سے متعلق
خاکہ بھی علامہ ہی نے مرتب کیا۔(ماہ نامہ جام نور کا رئیس القلم نمبرجون
2002ءص61تا63ملخصاً)
علامہ خاموشی سے کام کرتے جاتے۔آپ کے استاذومربی حضورحافظ ملت علیہ الرحمہ
کے اقوال ہیں”ہرمخالفت کا جواب کام ہے۔“اور”زمین کے اوپرکام اور زمین کے
نیچے آرام۔“آپ کوان دونوں اقوال کی چلتی پھرتی تصویرکہاجائے تو بے جا نہ
ہوگا....ہندوستان میں بہار و بنگال میںانہوں نے بے مثال کام کیا۔وسطی اور
شمالی ہند میں متعدد مساجد و مدارس اور اداروں کے
قیام،درجنوںمناظروںمیںبدمذہبوں کے دانت کھٹے کرنے،کام یاب اور تاب ناک
صحافتی خدمات اور کئی علمی و ادبی،فقہی و مسلکی مضامین و مقالات اور کتب و
رسائل کے علاوہ پٹنہ میں ادارہ شرعیہ ،جمشیدپور میںجامعہ فیض العلوم اور
دہلی میںجامعہ حضرت نظام الدین اولیاءقائم کر کے علامہ نے برصغیر کے
مسلمانوں پر جو احسانات کیے ہیںوہ ہمیشہ اہلِ سنت کی تاریخ میں سنہرے حروف
میںلکھے جائےںگے اور اخلاف کے حوصلوں کے لیے مہمیز کا کام کریں گے۔سعادتِ
لوح و قلم پروفیسر مسعوداحمد نقش بندی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:”علامہ
ارشدالقادری علیہ الرحمہ سراپا حرکت تھے اور لگن کے پکے۔سخت سے سخت بیماری
بھی ان کی راہِ عمل میں حارج نہ ہوئی۔کراچی کے زمانہ قیام میں بار بار بے
ہوش ہوتے اور کئی کئی گھنٹے بے ہوش رہتے،لیکن جب ہوش آتاتوکام میںلگ
جاتے....وہ نوجوانانِ اہلِ سنت کے لیے بے مثال عملی نمونہ تھے۔“
(پروفیسرمسعوداحمد،تاثرات مشمولہ ’شخصیات‘ازعلامہ ارشدالقادری،ص۶،مطبوعہ
دارالکتاب دہلی)
علامہ ارشدالقادری ایک مخلص داعیِ دین اور خادمِ شرع متین کا نام ہے۔ان کی
کتابِ حیات کاایک ایک صفحہ حرکت و عمل سے عبارت ہے۔ان کے لگائے ہوئے پودے
آج تناور درخت بن گئے ہیں،جن کی خوش بوؤں سے مشامِ جاں معطر و معنبرہورہی
ہے،جن کے پھلوں سے قوم کو قوت و توانائی مل رہی ہے اورجن کی ٹھنڈی ٹھنڈی
چھاؤںمیں اہلِ سنت کے قافلے آرام بھی کر رہے ہیںاوراپنی عظمتِ رفتہ کی
بحالی کے لیے مزید منصوبہ سازی بھی۔بلاشبہہ انہوں نے ستایش و نام وری کی
پرواہ کیے بغیر وہ کارنامے انجام دیے کہ رہتی دنیا تک قوم اس سے استفادہ
حاصل کرتی رہے گی۔دورِ حاضر میں ہمارے اورہماری جماعت کے لیے ان کی زندگی”
خضرِ راہ“ کی حیثیت رکھتی ہے
ایسا کہاں بہار میں رنگینیوں کا جوش
شامل کسی کا خونِ تمنا ضرور ہے |