ہمارے ملک کے سیاست دانوں کی
اکثریت مفاد پرستوں پر مشتمل ہے اور قوم کا بھی کم و بیش ایسا ہی حال ہے
سیاست دانوں کا جائزہ لیں تو صدر آصف زرداری، مسلم لیگ کے میاں نواز شریف،
مسلم ق کے چوہدری برادران ،متحدہ کے الطاف حسین ، بلوچستان نیشنل پارٹی کے
اختر مینگل اور دیگر نمبر دو سطح کے بہت سے ایسے نظر آئیں گے جن کے بارے
میں مفاد پرستی کے دلائل دینا ان پر مفاد پرستی کا الزام لگانا کوئی مشکل
کام نہیں ہے البتہ ان سب کو خود اس الزام سے بچنا بہت مشکل ہوسکتا ہے، عام
اصولوں کے تحت یہ لوگ واضع مفاد پرست ہیں ۔
ان دنوں سپریم کورٹ میں زیرسماعت دوہری شہریت کا مقدمہ بھی مفاد پرستی کا
ایک چھوٹا سا ثبوت ہے،اس مقدمے کی وجہ سے سیاستدانوں کی صفحوں میں ہلچل مچی
ہوئی ہے اس کی لپٹ میں آنے والوں میں بے چینی اور اضطراب بڑھ رہا ہے ان کا
بس نہیں چل رہا کہ اس عدلیہ کو ہی ختم کردیں اور پرانی والی لنگڑی لولی
عدلیہ کو بحال کردیں۔ دوہری شہریت کے مقدمے سے عام لوگوں کا کوئی تعلق نہیں
جو غریب ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف جانے کی حیثیت نہیں رکھتے انہیں
دوہری شہریت سے کیا دلچسپی ہوسکتی ہے؟یہ سچ ہے کہ دوہری شہریت رکھنے والوں
کی تعداد 70,80 لاکھ ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ تعداد تو ان دوفیصد میں
شمار ہوسکتی ہے جو 98 فیصد کے حقوق غصب کررہے ہیں جنہیں ملک کی اکثریت سے
کوئی دلچسپی نہیں ہے۔اہم بات یہ ہے کہ دوہری شہریت رکھنے والے تمام افراد
کا اس مقدمے سے کوئی تعلق نہیں ہے ابھی تو عدالت نے صرف دوہری شہریت رکھنے
والے قومی و صوبائی اسمبلیوں اور سینٹ کے اراکین کا معاملہ اٹھایا ہے کہ
آئیں اور قانون کے تحت دوہری شہریت رکھنے والاکوئی بھی شخص پاکستان کی کسی
بھی اسمبلی کا انتخاب نہیں لڑ سکتا اور نہ ہی رکن رہ سکتا ہے۔
جو لوگ یہ تاثر دے رہے ہیں کہ دوہری شہریت رکھنے والے پاکستان کے انتخابات
میں ووٹ ڈالنے کے حق دار نہیں ہیں وہ قوم کو دھوکہ دے رہے ہیں اور معصوم
لوگوں سے جھوٹ بول رہے ہیں۔خلافِ آئین اور قانون دوہری شہریت رکھ کر اوراس
کیس میں ملوث ہونے کے باوجوداپنے آپ کو محب وطن اور ایماندار و دیانت دار
کہنا بے ایمانی اور بددیانتی نہیں تو اور کیا ہے ؟۔ایسا کہنے والے مفاد
پرست نہیں تو پھر کیا کہلائیں گے ؟۔
صدر مملکت آصف زرداری کا سوئس عدالت کا مقدمہ اور سوئس عدالت کو اب تک خط
نہ لکھنا مفاد پرستی کی دلیل نہیں تو اور کیا ہے؟(سپریم کورٹ کے احکامات کو
نہ ماننے پر قانون شکن ہونے کا الزام الگ ہے )۔
این آر کیس اور اس سے فائدہ اٹھانے والے تمام ہی مفاد پرست نہیں تو کیا
ہیں؟این آر او سے کسی عام پاکستانی کو تو کوئی فائدہ نہیں ہوا جبکہ ملک بھی
خوامخواہ کی قانونی جنگ میں الجھ کر رہ گیا۔
میاں محمد نواز شریف کااپریل 2000 میں اس وقت کے چیف ایگزیکٹیو پرویز مشرف
سے ڈیل کرکے سعودی عرب ازخود جلاوطن ہوجانا ، پوری قوم اور اپنے ساتھیوں کو
اپنے مفاد کے لیئے فوجی جرنیل کے حوالے کردینا خالصتاََ ان کا ذاتی مفاد
نہیں تھا تواور کیاتھا؟اس وقت وہ اس قدر خود غرض بند گئے تھے کہ انہوں نے
جیل میں بند مخدوم جاوید ہاشمی کی بھی فکر نہیں کی اور صرف اپنے خاندان کو
لیکر ملک کو خدا حافظ کہہ گئے ۔ پھر اس وقت آئے جب ملک میں جیسی تیسی
جمہوریت آئی اور انہیں اس بات کا یقین ہوگیا کہ اب انہیں گرفتاری سمیت کسی
بھی بات کا خطرہ نہیں ہے ان کا یہ رویہ میری نظر میں ذاتی مفاد تھا اور رہے
گا۔
اسی طرح آصف علی زرداری بھی دسمبر 2007 میںاسی وقت ملک واپس لوٹے جب ان کی
اہلیہ کا قتل ہوا اور ان کے لئے ملک میں حالات سازگا ر ہوگئے تھے ورنہ تو
وہ خود اپنے خلاف درج مقدمات اور فوجی آمر سے اس قدر خوفزدہ تھے کہ بے نظیر
بھٹو کے وطن آنے کے باوجود یہاں آنے سے گریزاں تھے۔ بے نظیر بھٹو کی
ناگہانی موت نے حالات کو ایسا بدلا کہ سب سے زیادہ فائدہ آصف زرداری کو ہوا
وہ نہ صرف واپس ملک میں آئے بلکہ ملک کے صدر اور پیپلز پارٹی کے بااختیار
شریک چیئرمین بھی بن بیٹھے ۔
سیاست دانوں کی مفاد پرستی کے واقعات تو اتنے ہیں کہ اسے ایک نشست میں
لکھنا ممکن نہیں ہے، اس کو تحریر کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ قوم کو باخبر
کیا جائے کہ جنہیں ہم منتخب کرتے ہیں وہ ملک اور قوم کے وفادار نہیں بلکہ
صرف اپنی ذات اوراپنے خاندان سے وفادار ہیں اور محبت تو شائد وہ صرف اپنی
ذات سے ہی کرتے ہیں باقی ساری باتیں قوم کو بے وقوف بنانے اور اقتدا رحاصل
کرکے ملک اور قوم کی رقوم بٹورنے کے لیئے ہوتی ہیں، لیکن اس ساری پریکٹس
مین اصل قصور ان لوگوں کا ہوتا ہے جو ان مفاد پرستوں کا انتخاب کرتے ہیں
اور انہیں لوٹ مار کا موقعہ فراہم کرتے ہیں۔
اب متحدہ کے قائد الطاف حسین کو دیکھئے کہ انہوں نے برطانیہ کی شہریت خود
حاصل کی انہوں نے اس مقصد کے لیئے برطانیہ حکومت کو درخواست دی ہوگی تب ہی
تو ان کو وہاں کی شہریت ملی ،کسی ملک کی شہریت حاصل کرنا اس ملک سے وفاداری
کا حلف کا ہی باعث بنتی ہے ایک شخص بیک وقت دو ممالک کا وفادار کیسے ہوسکتا
ہے؟ یہ پاکستان میں تو ہوتا رہا لیکن دنیا کے کسی ملک میں یہ بات تسلیم
نہیں کی جاتی الطاف حسین اور ان کے ساتھیوں کا برطانیہ کی شہریت حاصل کرنا
مفاد پرستانہ عمل نہیں ہے تو پھر کیاہے؟
ملک میں اگر کسی جماعت کے سب سے زیادہ کارکن قتل ہوئے تو وہ متحدہ ہے؟ اور
ملک کے کسی شہر کے سب سے زیادہ لوگ قتل ہوئے تو وہ کراچی ہے۔اس صورتحال میں
تو کراچی ہر ایک کے لیئے خطرناک شہر ہے صرف الطاف حسین کے لیئے نہیں؟میں ان
کی دوہری شہریت کا مخالف نہیں اور نہ ہی میں اس حق کا رکھتا ہوں مین تو صرف
ملک کے سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں کے رہنماﺅں کی دوہری شہریت کا مخالف
ہوں ، میں یہ بات پورے یقین سے کہتا ہوں کہ جس کے پاس دوہری شہریت ہے اوروہ
اس سے دستبردار نہیں ہونا چاہتا تو اس کا مطلب واضع ہے کہ ایسا شخص پاکستا
ن اور پاکستانی قوم سے مخلص نہیں ہے وہ قوانین کے تحت بھی صرف اس ملک کا
وفادار ہوگا جہاں کی شہریت اس نے درخواست دیکراور متعلقہ ملک کی تمام شرائط
مان کر حاصل کی۔
اگرمتحدہ کے قائد کو پاکستان ، پاکستانیوں اور سب سے بڑھ کر اپنے تحریکی
ساتھیوں سے محبت ہے تو برطانیہ کی شہریت فوری چھوڑ دینا چاہئے اور اپنے ملک
واپس آجانا چاہئے ، اسی عمل سے و ہ پاکستان کے سچے اور مخلص لیڈر ہونے کا
ثبوت فراہم کرسکیں گے۔
بات ہورہی ہے مفاد پرست سیاست دانوں کی اور اب ذکر کرنا ضروری ہے چوہدری
برادارن کا ، مجھے نہیں معلوم کہ ان کی سیاست کا اصل مقصد کیا ہے؟ انہوں نے
اب تک اپنی سیاست سے ملک اور قوم کو کیا دیا ؟ان کی جماعت کا طویل دور
ِحکومت پرویز مشرف کے ساتھ گذرا جو ہر لحاظ سے آمر تھے ، ان کا اقتدار میں
جمہوری حکومت کو ختم کرکے آنے کا عمل بھی آمرانہ تھااور چوہدری برادران نے
ان کا بھر پور ساتھ دیا اگر یہ ان کا ساتھ نہیں دیتے تو پرویز مشرف بھی اس
قدر آسانی سے تقریباََ ساڑے نو سال تک حکومت نہیں کرپاتے۔عام خیال یہ ہی کہ
ملک کو جو کچھ نقصان پہنچا اور ملک آج جس مقام پر کھڑا ہے اس کے ذمہ دار
پرویز مشرف اور ان کی حکومت ہے ایسی صورت میں چوہدری برادران کس طرح اس
الزام سے بچ سکتے ہیں کہ وہ آمریت کو فروغ دینے والے سیاست دان ہیں؟اس کا
مطلب کہ وہ بھی کھلے مفاد پرست ہیں؟ ان کی مفاد پرستی کاعالم تو یہ ہے کہ
اقتدار میں شامل ہونے کی لالچ میں انہوں نے اس آمر نماءخود ساختہ جمہوریت
پسند سے ہاتھ ملالیا جو انہیں کم از کم دو سال تک ” قاتل لیگ “ کہتا رہا۔
میںیہ ہی کہنا چاہ رہا ہوں کہ یہ لوگ سیاست شائد صرف اپنے مفاد کے لئے ہی
کرتے ہیں، ان کی سیاست ہر طرح کے اصولوں اور ضابطوں سے پاک ہے۔
اب لیجئے سردار اختر مینگل کو ۔۔۔وہ ”سردار بھی ہیں اور مظلوم بھی“؟ میں
انہیں مظلوم نہیں کہہ سکتا میرے پاس ان کے لیئے بھی وہ ہی نام ہے جو میںنے
دیگر کو دیا ہے ۔ سردار اختر مینگل اس قبیلے کے سردار ہیں جو آج بھی
بلوچستان میں کسمپرسی کی زندگی گذار رہا ہے۔شاہیزئی مینگل قبائل برسوں سے
بلوچستان میں آباد ہے اس قبیلے لوگ اس دور میں بھی اپنے سردار کے خلاف حق
بات کہنے کی جرات نہیں کرسکتے جبکہ سردار عطااللہ مینگل اور ان کے صاحبزادے
کراچی کے ڈیفنس سوسائٹی میں عالیشان بنگلے میں رہتے ہیں جس کا جنریٹر ہی 60
گز پر رکھا ہوا ہے یہ لوگ پورے بلوچستان کے مسائل کی بات اس طرح کرتے ہیں
جیسے انہیں اس کا بہت احساس ہو جبکہان کے بارے میں معروف خاتون صحافی نرگس
بلوچ کہتی ہیںکہ وہ اپنے قبیلے شاہزئی کی آبادی والے علاقوں جہاں ان کا
مکمل کنٹرول ہے نہ تواسکول قائم ہونے دیتے ہیں نہ ہی یہاں کے لوگوں کو
تعلیم کی سہولیات پہنچانا چاہتے ہیں۔
اختر مینگل اور عطااللہ مینگل ایک سے زائد مرتبہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ رہ
چکے لیکن انہوں نے اپنے آبائی علاقوں اور وہاں کے لوگوں کی ترقی کے لئے
کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا وہاں کے لوگ آج بھی بنیادی سہولیات سے محروم
ہیں۔ سردار اختر مینگل طویل عرصے بعد پاکستان آئے اور بلوچستان کے مسائل کے
حل کے لیئے چھ نکات پیش کرکے دوبارہ ملک سے چلے گئے ان کے اس اچانک دورے پر
بہت کچھ لکھا گیا میرا خیال ہے کہ انہوں نے یہ دورہ بلوچستان یا وہاں کے
لوگوں کے مفاد میں نہیں بلکہ اپنے سیاسی مستقبل کے مفاد میں کیا انہیں
اندازہ ہے کہ اگر حالات یہ ہی رہے تو وہ آنے والے سالوں میں بھی اقتدار سے
باہر رہیں گے اس لیئے انہوں نے چھ نکات کی آڑ میں اپنے ہم خیال سیاست دانوں
سے ملاقات کی تاکہ ائندہ انتخابات میں مناسب اتحادی کو تلاش کیاجاسکے جس کے
ساتھ انتخابی اتحاد کرکے بلوچستان میں اپنی حکومت بنائی جاسکے۔ اگر ان
لوگوں کو صوبہ یا اپنے لوگوں کا مفاد عزیز ہوتا تو یہ انہیں پریشان حال
چھوڑ کر ملک سے باہر نہیں جاتے بلکہ یہاں رہ کر اپنے حقوق کی جدوجہد کرتے
چاہے یہاں ان کو جیلوں ہی میں کیوں نہ رہنا پڑے۔
ہمارے ملک کے سیاست دان جیسے بھی ہیں پوری قوم کو خصوصاََ ان کے پیچھے
دوڑنے والوں کو اپنے ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر یہ سوچنا چاہئے کہ
ان لوگوں نے مسلسل یا کبھی کبھار ہی اقتدار میں رہ کر آخر ملک اور قوم کو
کیا دیا؟؟
لوڈ شیڈنگ، بیروزگاری ،مہنگائی اور امن و امان کی ابتر صورتحال تو ان ممالک
میں بھی ایسی نہیں ہے جہاں جمہوری ہی نہیں بلکہ جمہوریت کا نام لینے والا
بھی نہیں ہے ۔
ہمیں آنے والے نتخابات سے قبل ہی یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ان مفاد پرست ،
دوہری شہریت رکھنے والے،کرپٹ ،جھوٹے ، بددیانت ، قانون شکن اور عدلیہ کے
احکامات نہ ماننے والے سیاست دانوں سے کیسے چھٹکارا حاصل کرنا ہے؟یاد
رکھیئے کہ موجودہ دور کے سیاست دانوں خصوصاََ موجودہ حکومت اور اس کے
اتحادیوں سے چھٹکارا ہی پاکستان کی اور ہم سب کی ترقی کا ضامن ہوسکتا ہے۔ |