توہین رسالت کے پس پردہ کہانی کیا ہے

l گستاخانہ فلم بنانے والی ٹیم سزایافتہ مجرموں پر مشتمل ہے!
l ملعون ٹیری جونز چرچ کا چندہ چوری کرتا تھا!
l پادری کہلوانے والے جعل ساز ٹیری جونزکو 3800ڈالر جرمانہ کی سزا بھی دی گئی!
l گستاخانہ فلم بنانے والا فلم ساز نکولا بنک فراڈ کے جرم میں سزا یافتہ ہے!
l گستاخانہ فلم کا ڈائریکٹر ایلن رابرٹس اس سے قبل جنسی فلمیں بناتا تھا!
l فلم بنانے والی کمپنی میڈیا فارکرسٹ کو کس نے دھوکہ میں رکھ کر ڈبنگ کی؟
l اداکاروں کو صحرائی ایڈوانچر کا کہہ کر فلم بنائی گئی بعد میں ڈبنگ کس کے اشارے پر ہوئی؟
l خاکوں اور فلموں سے دنوں میں کروڑ پتی بننے کا فارمولا کیا ہے؟
l مسلمانوں کی جذباتیت نے یہودیوں کو کیسے امیر بنا دیا؟
l امریکہ مخالفت کے باوجود فلم بَین کیوں نہیں کر رہا۔ اصل سازش کیا ہے؟
l CNNنے کس طرح بغیر خاکے شائع کیے مسلمانوں سے کروڑوں ڈالر کمائے؟
l BBCکا منافقانہ رویہ کیا تھا؟
l نیسی جے پال کو کس مشن پر پاکستان بھیجا گیا تھا؟
l کیا واقعی اہم حکومتی شخصیات توہین رسالت پر احتجاج اور چھٹی کے خلاف تھیں؟
l سیاسی لیڈروں نے عین موقع پر احتجاج غیر موثر کیسے بنا دیا؟
l کرکٹ ٹیم نے کس کے دباﺅ پر ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ میں بازو پر کالی پٹی نہیں باندھی؟
l کیا ہولوکاسٹ توہین رسالت سے زیادہ اہم ہے؟
l فلم بنانے والوں کے وارنٹ جاری کر دیے گئے؟
l بائیبل کی رو سے توہین رسالت کی سزا موت ہے!
l برطانیہ کے قانون کے مطابق توہین رسالت کی سزا موت ہے !


اس بار میں نے لکھنا کسی اور موضوع پر تھا۔ پاکستان کے خلاف سازشوں کو بے نقاب کرنے کی کوشش پر ہر مرتبہ میں ”سزا“ کا حق دار رہا ہوں مگر عجیب بات ہے کہ اس قدرسمجھانے کے باوجود نہ میں اپنے فرض سے رکا اور نہ ہی سازشی عناصر پیچھے ہٹے۔ بہر حال اس مرتبہ پھر میری تحقیقات کا دائرہ کار اور موضوع کچھ اور تھا لیکن جب میں اپنی رپورٹ فائل کرنے والا تھا تب ہی توہین رسالت کے حوالے سے گستاخانہ فلم پھیلائی جانے لگی۔ کچھ لوگ خصوصاً ہمارے دانشور اسے ”متنازعہ فلم“ بھی کہہ رہے ہیں لیکن میرے نزدیک یہ گستاخانہ فلم ہے۔ میں اسے متنازعہ اس لیے نہیں کہتا کہ ”متنازعہ چیز“ دو فریقین کے درمیان ایک ایسا ایشو ہوتا ہے جس پر بیٹھ کر سمجھوتا کیا جا سکتا ہے۔ جبکہ ” گستاخانہ“ پر سمجھوتا نہیں ہوتا۔ متنازعہ کہنے کا مطلب ہے کہ ہم اس پر گفتگو کرنے کو تیار ہیں کیونکہ ”متنازعہ“ پر گفتگو کی جاتی ہے اور اسے کسی حد تک درست بھی تسلیم کیا جاتا ہے لبرل حلقے اسی لیے اسے گستاخانہ کے بجائے ”متنازعہ فلم“ کا نام دے رہے ہیں۔ اس موضوع پر لکھنا میرا حق ہی نہیں فرض بھی ہے اسی لیے میں نے اس بار اپنی تیار تحقیقی سٹوری کو ایک طرف رکھ کر گستاخانہ فلم کے حوالے سے تحقیقات شروع کر دیں۔ان معلومات کے حصول کے لیے ظاہر ہے مجھے کچھ وقت درکار تھا تاکہ مکمل تصدیق ک بعد اصل حقائق سامن لا سکوں ۔تحقیقات کے دوران میرے سامنے چند اہم سوال تھے کہ آخر کیوں ہر سال اس قسم کے سانحات ہو رہے ہیں؟ گستاخانہ خاکے اور فلم بنانے والوں کو اس کا کیا فائدہ ہے؟ یہ سوال اس لیے بھی اہم تھا کہ میں نے یہودیوں کے بارے میں جتنی تحقیق کی ہے ان کے مطابق یہودی بغیر کسی فائدے کے کوئی کام نہیں کرتا۔

اسی طرح اس قسم کے خاکے چھاپنے والوں کو اپنی جان جانے کا خوف بھی لاحق ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود ان گستاخیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک اہم سوال یہ بھی تھا کہ ان کے ردِ عمل میں ہونے والے احتجاج کا فائدہ کسے ہوتا ہے۔ میری ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ میں اپنی رپورٹ میں جذباتیت یا وابستگی کا عنصر شامل نہ ہونے دوں لیکن مجھے اعتراف ہے کہ اس موضوع پر لکھتے ہوئے ”جذباتیت“ سے ہاتھ چھڑانا شاید آسان نہ ہو خاص طور پر اس وقت کہ جب میں تحقیق کے دوران اس گستاخانہ فلم کا ٹریلر دیکھ چکا ہوں۔ بہر حال میری کوشش ہے کہ میںحقائق اور اعدادوشمار کو سامنے رکھتے ہوئے اس ساری صورتِ حال کا جائزہ لوں۔

ملعون ٹیری جونز کون ہے؟
ٹیری جونزایک ایسا ملعون شخص ہے جسے اسلام سے نفرت اور گستاخانہ رویے کی بنا پر شہرت ملی۔ میرے سامنے ایک اہم سوال یہ بھی تھا کہ یہ ٹیری جونز کون ہے؟ میڈیا نے ٹیری جونز کو پادری اور مذہبی شخصیت کے طور پر پیش کیا لیکن جب میں نے ٹیری جونز کے حوالے سے تحقیقات کیں اور مختلف رپورٹس کا جائزہ لیا تو یہ انکشاف ہوا کہ یہ دراصل ایک فراڈ اور کرپٹ شخص ہے۔ یہ ملعون سزایافتہ مجرم ہے۔ ٹیری جونز کی عمر ساٹھ سال ہے۔ اس کے بیک ریکارڈ کے مطابق ٹیری جونز کیلیفورنیا گریجوئیٹ اسکول آف تھیولوجی سے ڈپلومہ حاصل کرنے کا دعویٰ کرتا ہے لیکن اس ادارے کی ویب سائٹ کے مطابق اس ادارے کو کسی قسم کی قانونی یا درسی تصدیق حاصل نہیں یعنی یہ ایک جعلی ادارہ ہے جو اپنے آپ کو کسی بھی قسم کی یونی ورسٹی کی تصدیق سے ماورا سمجھتا ہے۔ ٹیری جونز ہوٹل منیجر تھا بعد میں یہ 1996ءمیں ڈوولرڈ آوٹ ریچ نامی ایک بنیاد پرست چرچ کا سربراہ بن گیا۔ یہ چرچ گنینر ولی فلورڈا میں واقع ہے۔ اس چرچ کا کل رقبہ20ایکڑ ہے۔ جس کی مالیت106 ملین ڈالر ہے جبکہ اس پر ٹیکس1,35000مالیت کے اعتبار سے لیا جاتا ہے۔ ٹیری جونز نے جرمنی میں کرسچن کمیونٹی آف کلون کے نام سے ایک چرچ قائم کیا تھا۔ برطانوی اخبار گارڈین 9ستمبر2010ءکے مطابق ٹیری جونز کو جرمنی کے بورڈ آف چرچ کی حیثیت سے برخواست کر دیا گیا ہے۔ جرمنی کے شہر کلون میں واقع اس چرچ کے ایک اہم عہدے دار اسٹیفن بار نے بتایا کہ ٹیری جونز کو قیادت کے اسٹائل میں پائے جانے والے قابل اعتراض فرق کے باعث چرچ بدر کیا گیا تھا۔ اس پر یہ الزمات عائد کیے گئے تھے کہ اس سے قرآن پاک کی بے حرمتی کے عزائم کی بنا پر عالمی تنازعات کو ہوا مل سکتی ہے اور اس نے اپنے ماننے والوں کے ساتھ قابل اعتراض سلوک کیا۔ اسٹیفن کا یہ بھی کہنا ہے ٹیری جونز اپنی عیسائیت کی تشریح کو ہی سب سے افضل سمجھتا ہے لہٰذا اس طرح کی شہرت گرجا گھر کے لیے نقصان دہ ثابت ہو رہی تھی اسی طرح انہیں یہ بھی ڈر تھا کہ گرجا گھر کے بانی کے قرآن مخالف کلمات غلط قسم کے پیروکاروں کو پسند ہیں اور یہ لوگ گرجا گھر پر حاوی ہو سکتے ہیں۔

ٹیری جونز کے مطابق اسے خدا کی جانب سے ہدایت ملنے کے بعد اس نے 1982ءمیں بائبل پر عقیدہ رکھنے والی کرشماتی کمیونٹی تشکیل دی تھی جسے کلون چرچ کا نام دیا گیا اسے امید تھی کہ وہ اس گرجا گھر کی بدولت اپنے نظریات پورے یورپ میں پھیلانے میں کامیاب ہو جائے گا۔ یہ گروپ 800سے 1000 ممبران پر مشتمل ہو سکا تھا ۔ ٹیری جونز کی بدنامی کا سلسلہ بھی نیا نہیں ہے اس کی بدنامی کا آغاز1986ءمیں اس کے گھر سے ہی شروع ہو گیا تھا جہاں اس نے ڈورولڈ آوٹ ریچ سنیٹر کی بنیاد رکھی تھی لیکن اس متاثر کن نام کے باوجود اس کے گرجا گھر کے ممبران کی تعداد پچاس تھی اس گرجا گھر کی عرافی عام طور پر ٹیری جونز کے فرنیچر بزنس کے لیے استعمال ہوتی رہتی تھی ڈو کے ٹیکس نہ ادا کرنے پر نہ صرف اس پر جرمانہ عائد کیا گیا بلکہ اس کی قیمت بھی گر گئی۔ پچاس ممبران پر مشتمل یہ گرجا ٹیری جونز اپنی دوسری بیوی کی مدد سے چلاتا تھا اس کی اس بیوی کا نام سلویا تھا جبکہ اس کی پہلی بیوی کا نام لیزا جونز تھا جو 1996ءمیں مر گئی تھی۔ ٹیری جونز ایک گمنام شخص تھا جس کے قائم کردہ چرچ کے پچاس سے زائد ممبران نہ تھے لیکن9/11کے نو سال بعد اس نے قرآن پاک جلانے کا منصوبہ بنایا اور 20مارچ2011ءمیں اس ملعون نے اپنے منصوبے پر عمل کیا اور قرآن پاک جلا دیا۔ اس شخص کو ہمارا میڈیا مذہبی شخص کے طور پر پیش کر رہا ہے جبکہ اس کی حقیقت یہ ہے کہ اس کی بیٹی کا کہنا ہے کہ اس کا باپ یعنی ٹیری جونز چرچ کے چندے کی رقم میں خرد برد میں ملوث ہے اور چندے کی رقم کھا گیا ہے۔ اسی طرح ٹیری جونز نے اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر کہلوانا شروع کیا مگر بعد میں معلوم ہو گیا کہ یہ ایک فراڈ ہے اور ٹیری ڈاکٹر نہیں ہے لہٰذا اسے 2002ءمیں ڈاکٹر کا جعلی ٹائٹل رکھنے کے جرم میں 3800ڈالر جرمانہ بھی ہو چکا ہے۔ یاد رہے ٹیری جونز پر جرمنی میں داخلے پر ہی پابندی عائد کی جا چکی ہے۔

یہ گستاخانہ فلم بنانے والا فلماز نکولا بیلسے بھی ایک ریکارڈ یافتہ مجرم ہے اس کے بارے میں جب تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا کہ اسے 2010ءمیں بنک فراڈ کے جرم میں سزا سنائی گئی تھی وہ اپنا فرضی نام سام باسل استعمال کرتا رہا ہے فلم اپ لوڈکرنے کے بعد اس نے پولیس کو درخواست دی اور پولیس نے اسے حفاظتی تحویل میں لے لیا ہے۔ اس گستاخ کا کہنا ہے کہ اس نے 14منٹ کی فلم اپ لوڈ کی ہے اور اب مکمل فلم انٹرنیٹ پر ڈالنے کا سوچ رہا ہے اس کے مطابق یہ فلم 1994ءمیں لکھی گئی اس کی کتاب پر مبنی ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ 1994ءسے شہرت کا طلب گار تھا لیکن اس کی کتاب فلاپ ہو گئی اور پھر اس نے فلم بنائی اور وہ بھی فلاپ ہو گئی جس کے بعد اس نے اسے انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کر کے شہرت حاصل کی اسی طرح اس فلم کا ڈائریکٹر65سالہ ایلن رابرٹس اس سے قبل فحش فلمیں بناتا تھا۔

گستاخانہ فلم دھوکہ دے کر بنائی گئی
نبی اکرم کی شان میں گستاخی کے لیے بنائی گئی گستاخانہ فلم کو بند نہ کرنے کے حوالے سے لبرل حلقے اور عالمی طاقتوں نے مختلف بہانے بنائے اور اسے بند کرنے سے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ یہ آزادی اظہار رائے پر پابندی کے مترادف ہے۔ میں ان تمام لبرل حلقوں کو یہ چیلنج کرتا ہوں کہ یہ فلم آزادی اظہار رائے کی کوئی مثال ہرگز نہیں کیونکہ یہ دراصل دھوکہ اور فراڈ کی بنیاد پر بنائی گئی ہے اور اس فلم کے بنانے والے پر دھوکہ دہی کا مقدمہ چلاتے ہوئے اس فلم کو بند کیا جائے۔ اس فلم کے پروڈیوسر نے جھوٹ اور دھوکے کی بنیاد پر یہ فلم بنائی۔ یہ فلم ایک مسیحی نشریاتی کمپنی نے بنائی۔ لاس اینجلس کے نواحی علاقے ڈوآرٹ میں قائم میڈیا فارکرسٹ نامی پروڈکشن کمپنی کے صدر جوزف نصرالہ نے کہا ہے کہ فلم کے پروڈیوسر نکولا ہیسلا نکولانے اسے گزشتہ سال یہ کہہ کر دھوکہ دیا کہ وہ مسیحیوں پر مظالم کے حوالے سے فلم بنانے چاہتا ہے۔ نصرالہ نے ایک بیان میں یہ بھی کہا کہ نکولا کو فلم بنانے کے لیے جگہ کی ضرورت تھی لہٰذا میں نے اسے اپنی پروڈکشن کمپنی کی جگہ دس دنوں کے لیے استعمال کی اجازت دی۔ نصرالہ نے یہ بھی کہا کہ نکو لانے کسی کے علم میں لائے بغیر فلم میں ردو بدل کیا اور اس کے مکمل فوکس کو تبدیل کر دیا اور اس کو نئے ڈائیلاگ میں ڈب کر دیا قارئین کی سہولت کے لیے بتاتا چلوں کہ ڈب کا مطلب ہے کہ فنکاروں نے کچھ اور ڈائیلاگ بولے تھے لیکن بعد میں وہ ختم کر کے کسی اور کی آواز میں نئے ڈائیلاگ شامل کر دیے۔ گئے نصرالہ نے یہ بھی کہا کہ نکولا نے اس فلم کی تدوین کی اور حتمی فلم کی اس فلم سے کوئی مماثلت نہیں تھی جس کے متعلق مجھے بتایا گیا تھا یہ بات صرف فلم ساز کمپنی ہی نہیں کر رہی بلکہ اس فلم کی ایک اداکارہ اناگورگی نے بھی کہا کہ فلم کو ڈبنگ کے دوران گستاخانہ رنگ دیا گیا ہے گورگی اس فلم میں دلہن کا کردار کر چکی ہے۔

اس نے فلم پر شرمندگی کا اظہار کیا ہے یہی بیان ایک اور اداکارہ نے بھی دیا۔ اس نے عدالت میں کیس کیا کہ یہ فلم یوٹیوب سے ہٹائی جائے کیونکہ اسے صحرائی ایڈوانچر کا کہہ کر ایکٹنگ کا کہا گیا اور بعد میں ڈبنگ کی گئی جو کہ دھوکہ ہے، لیکن غیر ملکی عدالت نے کیس خارج کر دیا۔

سوال یہ ہے کہ اگر مغرب اس فلم پر آزادی اظہار رائے کا نام نہاد لیبل لگا کر اس پر پابندی کو آزادی اظہار رائے پر حملہ قرار دیتے ہوئے پابندی کی مخالفت کر رہا ہے تو پھر دھوکہ دہی اور فراڈ کی بنیاد پر اس پر پابندی عائد کیوں نہیں کی گئی؟ کیا آزادی اظہاررائے اور فراڈ میں کوئی فرق نہیں؟ اسی طرح برطانیہ میں بھی قانون کے مطابق انبیاءکی توہین کی سزا موت ہے لہذا اگر لبرل برطانیہ کے قانون کو دیکھیں تو اس کے مطابق بھی یہ کہنا سر ے سے ہی غلط ہے کہ توہین رسالت آزادی اظہار رائے ہے۔ اسی طرح بائیبل میں بھی خدا کی توہین کرنے والے کی سزا موت بتائی گئی ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا خدا کے پیام بر یا نمائندے یعنی پیغمبر کی توہین ، خدا کی توہین نہیں ؟ اگر خدا کا پیغام لوگوں تک پہنچانے والے کی توہین خدا کی توہین بنتی ہے تو پھر یہ کہنا غلط نہیں کہ گستاخانہ فلم بنانے والوں کی سزائے موت کا اعلان بائیبل بھی کر رہی ہے اور یہ مطالبہ غلط نہیں کہ توہین رسالت ک ذمہ داروں کو سزائے موت دی جائے۔

گستاخانہ فلم اور خاکوں سے فائدہ کون اٹھاتا ہے؟
میرے لیے ضروری تھا کہ میں پہلے اس گستاخانہ فلم کے بنیادی کرداروں کی اصلیت بتاﺅں اور ان کے بیک ریکارڈ کا پول کھولوں تاکہ آپ پر ان کی اصلیت کھل سکے لیکن اس رپورٹ کی تیاری کے دوران میرے سامنے اہم سوال یہ تھا کہ ان گستاخانہ حرکات کافائدہ کون اٹھا رہا ہے اور ان کا مقصد کیا ہے؟

اس حوالے سے ایک اہم انکشاف یہ بھی ہوا کہ اس کا پس پردہ فائدہ امریکہ نے حاصل کیا اور سفارت خانوں پر حملوں کو بلاجواز قرار دیتے ہوئے مسلم ممالک میں اپنے سفارت خانوں میں فوجی تعینات کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

یہ ٹرینڈ کمانڈوز کے دستے ہیں جو امریکہ سیکورٹی کے نام پر مسلم ممالک میں بھیج رہا ہے اور ان کمانڈوز کو سفارتی ویزہ دیا جائے گا اور انہیں سفارت خانوں میں رکھا جائے گا۔ یہاں یہ یاد دلاتا چلوں کہ سفارتی ویزوں پر آئے افراد ملکی قوانین سے بالاتر ہوتے ہیں اور عموماً انہیں سزا نہیں دی جاتی اسی طرح سفارت خانہ بھی اس ملک کا حصہ نہیں سمجھا جاتا اور کوئی بھی ادارہ سفارت خانے میں داخل ہو کر کسی کو گرفتار نہیں کر سکتا۔ اب امریکہ مسلم ممالک میں موجود اپنے سفارت خانوں میں اضافی کمانڈوز کو بھیج رہا ہے۔

اسی طرح اگر ہم جائزہ لیں تو گزشتہ چند سالوں سے مسلسل ہر سال گستاخانہ خاکے شائع گئے جارہے ہیں تمام تر دھمکیوں اور احتجاج کے باوجود یہ سلسلہ جاری ہے لہٰذا میرے سامنے یہ اہم سوال تھا کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے اور اس کے پس منظر کیا کہانی ہے؟ اگر ہم صرف ظاہری طور پر دیکھیں تو گستاخانہ خاکہ شائع کرنے والے اخبارات گمنامی سے نکل کر شہرت کی بلند سطح پر پہنچ گئے اور انہیں صرف گستاخانہ خاکوں کو شائع کرنے پر ہی بنا کچھ خرچ کیے پبلسٹی مل گئی۔ یہ سلسلہ ڈنمارک سے شروع ہو ا اور اس اخبار کی شہرت کو دیکھتے ہوئے یورپی ممالک میں یہ ”مائنڈ سیٹ“ بن گیا کہ جو اخبار گستاخانہ خاکے چھاپے گا اسے مفت میں پبلسٹی اور اشتہارات ملنے لگیں گے اس کے بعد یہ تجربہ انٹرنیٹ پر کیا گیا اور گستاخانہ خاکے فیس بک اور دیگر ویب سائٹس پر چھاپے گئے۔ ان ویب سائٹس کو بھی شہرت ملی مجھے افسوس سے بتانا پڑ رہا ہے کہ مسلمان ان کے معاون ثابت ہوئے۔ مسلمانوں نے جذباتیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے لوگوں کو ان ویب سائٹس اور خاکوں کا بتایا اور ان ویب سائٹس کے مالکان نے مسلمانوں کو جذباتیت سے فائدہ اٹھایا۔ مسلمان ایک دوسرے کو ان ویب سائٹس کا بتا کر ان کی مفت میں پبلسٹی حاصل کرنے کی خواہش میں معاون بنے۔ انٹرنیٹ کی دنیا سے منسلک لوگ جانتے ہیں کہ انٹرنیٹ پر ”کلکنگ“ یعنی صرف ویب سائٹ اوپن کرنے پر ویب سائٹ کے مالک کو اشتہار یعنی پیسے ملتے ہیں جتنے لوگ کسی ویب سائٹ کو اوپن کریں گے اتنا ہی اس کے مالک کو پیسے ملتے جائیں گے۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مسلمان ان ویب سائٹس پر احتجاجی جملے لکھتے رہے بلکہ ان کے مالکان کو ننگی گالیاں بھی دیتے رہے لیکن یہ مالکان ان سب کے لیے تیار تھے خصوصاً یہودی صرف کاروباری نقطہ نظر سے معاملات کو دیکھتا ہے اسے اگر گالیوں کے عوض پیسے اور شہرت مل رہی ہو تو وہ گالیاں بھی اعزاز سمجھتا ہے یہی سب یہاں ہوا۔ مسلمان ایک دوسرے کو ان ویب سائٹس کا بتا کر وہاں احتجاجی کومنٹس یا ”جواب“ دینے کا کہتے رہے اور ان کے ویب سائٹس کے مالکان اسے تجارتی نقطہ نظر سے دیکھتے ہوئے پیسے کماتے رہے اس طرح مسلمانوں نے ہی جذباتی ہو کر نہ صرف انہیں گمنامی سے شہرت تک پہنچایا بلکہ امیر بھی بنا دیا۔

خاکوں کے بعد گستاخانہ فلم کی طرف قدم اٹھایا گیا اس فلم کے اہم کرداروں کے بارے میں معلوم ہوا کہ انہیں ماضی میں بھی فرا ڈ اور دھوکہ دہی کی سزائیں سنائی جا چکی ہیں۔ انہیں ان کے حلقوں میں دھوکہ باز اور فراڈی کے طور پر جانا جاتا تھا اور ان کا کوئی نام نہیں تھا آج ٹیری جونز کو پوری دنیا میں جانا جاتا ہے اور اسے یہ پبلسٹی دینے میں مسلمان برابر کے شریک ہیں اسی طرح اس فلم کے اداکاروں کا کہنا ہے کہ فلم سازوں نے انہیں بھی دھوکہ میں رکھا اور ڈبنگ کے بعد فلم ”تھیم“ بد ل دیا۔

ان فلم سازوں اور سپورٹز میں سے کوئی بنک فراڈ کا مجرم ہے، کوئی چرچ کا چندہ کھا گیا تھا اور کوئی جنسی فلمیں بناتا تھا۔ اس فلم کی اپروچ اتنی ہے کہ اس میں مسلمانوں کو لڑائی کے وقت عربی لباس میں صحرا میں سے تلواریں اٹھائے آتا دکھایا گیا ہے لیکن ان کے مخالف یورپی فوج جدید لباس جدید اسلحہ اور بکتر بند گاڑیوں میں آتی ہے۔ جس فلمساز کی اپروچ اتنی ہو کہ وہ یہ سمجھتا ہو کہ 1400سال پہلے عرب تلواروں سے لڑتے تھے اور اسی زمانے میں یورپ والے آج کے جدید اسلحہ اور گاڑیوں پر آیا کرتے تھے اس کی شہرت اور پروفیشنلز ہونے کا اندازہ کوئی بچہ بھی لگا سکتا ہے۔ اگر پروفیشنلز کے حوالے سے دیکھا جائے تو اس فلم کی ایڈیٹنگ سے لے کر مکمل فلم تک اس قدر غیر معیاری اور بچگانہ کام ہے کہ ایسی پروڈکشن کو پاکستانی سینما بھی اٹھا کر کسی گندی نالی میں پھینک دیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس فلم کو آغاز میں کہیں نہ دکھایا گیا جس پر فلم ساز نے اس کا 14منٹ کا ٹریلر یوٹیوب پر اپ لوڈ کر دیا اور مسلمانوں نے اسے ”سپرہٹ“ بنا دیا۔ فلم سازکو معلوم تھا کہ یہ ردِعمل اسے کامیابی سے نوازے گا اور پھر وہی ہوا۔ ویب سائٹس نے اس ٹریلر کو اپ لوڈ کرنا شروع کر دیا اور دنیا بھر کے مسلمانوں نے گالیاں لکھ کر اسے دوسروں تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کیا ان ویب سائٹس نے دنوں میں لاکھوں ڈالرز کمائے اسی طرح فیس بک پر اس فلم کے کرداروں، پروڈیوسرز اور فلم سازوں کی تصاویر شیئر کی گئیں ان تصاویر کے ساتھ لکھا ہوتا تھا۔ ”لعنت بھیج کر آگے بھیج دیں“ کسی نے یہ نہیں سوچا ان ناموں کو مشہور کرنے میں ہم اہم کر دار ادا کر رہے ہیں اس طرح چند ہی دنوں میں یہ کر دار گمنامی سے شہرت کی بلند سطح پر پہنچ گئے اور وہ ادا کار جنہیں کوئی نہیں جانتا تھا ہالی وڈ کے اداکاروں سے بھی زیادہ مشہور ہو گئے وہ پروڈیوسرز جو ایک بند کمرے میں جتن فلمیں بناتے تھے انہیں بطور فلم ساز پوری دنیا میں متعارف کروا دیا گیا۔ چرچ کا چندہ چوری کرنے والے کو بطور پادری پوری دنیا میں مشہور کر دیا گیا۔پھر یہاں تک ہوا کہ CNNجیسے خبر رساں ادارے نے بھی رقم کمانے اور پیسے حاصل کرنے کا سوچا کیونکہ وہ بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا چاہتا تھا اس نے اپنی ویب سائٹ پر ایک سروے شروع کروا دیا کہ ”کیا آپ گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے حق میں ہیں؟“ اس پر ساتھ ساتھ بتایا جارہا تھا کہ کس طرف سے کتنے فیصد لوگوں کی کیا رائے موصول ہو چکی ہے دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمیشہ ”Yes“ کی تعداد زیادہ شو کی جاتی رہی اور مسلمان پاگلوں کی طرح ایک دوسرے کو CNN کالنک بھیج کر ”No“ پر کلک کرنے کا کہتے رہے ۔

میں تسلیم کرتا ہوں کہ یہ کوشش خاکوں کی اشاعت روکنے کے لیے تھی خود میں نے جب CNNپر یہ سوال دیکھا تو اسے ”No“ کر دیا لیکن پھر میں نے اس حوالے سے حقائق کاجائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ اس قدر ”No“کے باوجود”Yes“ کی تعداد زیادہ رکھی گئی حالانکہ ”Yes“کے لیے کوئی خاص کمپین نہیں چل رہی تھی۔ جبکہ ”No“کے لیے مسلمان دھڑا دھڑ ایک دوسرے کو CNNکالنک بھیج رہے تھے۔ کاروباری نقطہ نظر سے اگر ”No“کی تعداد زیادہ ہو جاتی تو یہ سلسلہ رک جاتا لیکن”Yes“ کی تعداد زیادہ ظاہر کرنے سے اس ویب سائٹ کی ”ٹریفک“ میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور CNNبھی کروڑ پتی کی اس دوڑ میں آگے چلا گیا۔ گستاخانہ خاکوں اور فلم کے حوالے سے بی بی سی کا رویہ بھی ٹھیک نظر نہیں آیا وہ ملعون سلمان رشدی کو تو سر لکھتے رہے اور گستاخانہ فلم کے حوالے سے عوامی رائے لبرل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔

اصل سازش کیا ہے؟
قارئین یہ تصویر کا ایک رخ ہے جو ادارہ گستاخانہ خاکے اور فلم بناتا ہے وہ دنوں میں اربوں ڈالر کما لیتا ہے اور اسے پوری دنیا میں شہرت مل جاتی ہے۔ اس لیے یورپی ممالک کا میڈیا خصوصاً یہودی لابی اس فامولے کے تحت اپنی دولت میں اضافہ کرنے میں مصروف ہے، لیکن میری یہ رپورٹ اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتی تھی جب تک اس سوال کا جواب حاصل نہ کر لیتا کہ ان میڈیا گروپس اور لابی کے ساتھ ساتھ یورپی حکومتیں خصوصاً امریکہ ان گستاخانہ خاکوں کو سپورٹ کیوں کر رہا ہے اور اپنے سفیر کی ہلاکت کے باوجود اسے ”آزادی اظہاررائے“ کہنے پر اصرار کیوں کر رہا ہے؟ اس حوالے سے جب تحقیقات کی گئیں تو معلوم ہوا یہ اسی مشن کی تکمیل کا عمل ہے جو مشرف دور میں نیسی جے پال کو سونپا گیا تھا اس سازش کی تفصیلات میں اپنی ایک پرانی تحقیقی رپورٹ ”کیری لوگر بل“ میں بیان کر چکا ہوں۔ مختصر یہ کہ نیسی جے پال کو امریکی حکومت نے تین ٹارگٹ دے کر پاکستان بھیجا تھا اس میں نصاب میں تبدیلی اور مخصوص آیات کو نکالنا، حدودبل میں تبدیلی اور توہین رسالت قانون کو منسوخ کرنا شامل تھا۔ پہلے دو منصوبے مقررہ مدت میں مکمل کر لیے گئے اور ان کی کامیابی کے لیے بھاری رقم بھی خرچ کی گئی تھی پاکستانی عوام گواہ ہیں کہ مختصر مدت میں یہ سب ہو چکا ہے آج حددوبل حقوق نسواں بل کے طور پر تبدیل ہو چکا ہے اور پاکستان کا تعلیمی نصاب بھی تبدیل کیا جا چکا ہے تو ہین رسالت کے قانون کے خاتمے کے لیے بھی مشرف نے رضا مندی دے دی تھی مگر وہ اس قابل نہ رہا۔

سمبٹریال اور دیگر مسیحی آبادیاں بھی ایک سازش کے تحت جلائی گئی تھیں اسی طرح سلمان تاثیر کو اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑے۔ زرداری حکومت بھی اس حوالے سے یقین دہانی کروا کر اقتدار میں آئی تھی۔ اب رمشا مسیح کیس کے فوراً بعد ہی جب کیس نے ایک دم اپنا رخ بدلا تو یہ فلم اور خاکے منظرِ عام پر آئے۔ ان خاکوں کی اشاعت کا سلسلہ ہر سال جاری ہے تاکہ آہستہ آہستہ مسلمان ٹھنڈے پر جائیں اور ان کے لیے یہ معمول کی بات بن جائے۔اگر ڈنمارک کے اخبار میں شائع ہونے والے خاکوں سے لے کر اس گستاخانہ فلم تک کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ کو اپنے مقصد میں کامیابی مل رہی ہے۔ جب ڈنمارک کے اخبار نے خاکے شائع کیے تب شدید ردِعمل سامنے آیا لیکن اب یورپ کے اخبارات اور ویب سائٹس گستاخانہ خاکے چھاپتے ہیں تو امت مسلمہ کی جانب سے کوئی خاص ردِعمل سامنے نہیں آتا اور یوں لگتا ہے جیسے یہ معمول کی کارروائی ہو۔ اس لیے اخبارات اور ویب سائٹس کے بعد اب فلم کی طرف قدم اٹھایا گیا تاکہ اس حوالے سے بھی ردعمل سامنے آسکے۔ جس ردعمل کی توقع تھی وہ سامنے نہیں آسکا اور میں پورے یقین سے یہ بتا رہا ہوں کہ اگر اس پر کوئی بڑی تحریک سامنے نہ آئی اور عالمی سطح پر توہین انبیاءکے خلاف کوئی قانون نہ بنایا گیا تو اگلے سال اور اس سے اگلے سال بھی ایسی فلمیں منظر عام پر لائی جائیں گی اور آہستہ آہستہ مسلمانوں کا ردعمل سرد ہوتا جائے گا ۔

گستاخانہ خاکوں کے حوالے سے یہ تجربہ کامیاب ہو چکا ہے اسی لیے جب اس گستاخانہ فلم کے خلاف دنیا بھر میں احتجاج ہو رہا تھا تو ”ٹیسٹ“ کے لیے فرانس کے ایک اخبار میں خاکے شائع کیے گئے لیکن ان خاکوں پر کہیں بھی کوئی خاص ردِعمل سامنے نہ آسکا۔ یہ سارا پلان اور بیک گراﺅنڈ توہینِ رسالت قانون کو غیر موثرکرنے کے لیے تیار کیے گئے۔

توہین رسالت.... کیا حکومت دوغلی پالیسی پر عمل پیرا ہے؟
پاکستانی حکومت نے توہین رسالت کے حوالے سے ایک دن احتجاج کے طور پر پورے ملک میں عام تعطیل کا اعلان کرتے ہوئے یہ ظاہر کیا کہ حکومت پاکستان توہین رسالت کی مذمت کے حوالے سے سنجیدہ ہے لیکن اگر حکومتی پالیسیوں کا جائزہ لیا جائے تو اسے دھوکہ اور عوام کو بے وقوف بنانے کے ایک عمل کے سوا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ جس اجلاس میں وزیراعظم صاحب نے جمعہ کی عام تعطیل کا اعلان کیا اسی اجلاس میں حکومتی شخصیات نے اس احتجاج اور عام تعطیل کے خلاف باتیں کیں۔ کئی حکومتی شخصیات جمعہ کی چھٹی اور احتجاج کے حق میں نہ تھیں وزیراعظم بھی اس بات کے گواہ ہیں کہ فاروق نائیک نے بھی احتجاج اور چھٹی کے خلاف بات کی اسی طرح وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ اگر چھٹی دی گئی تو ملک کو معاشی نقصان ہو گا۔کئی اور اہم شخصیات کا بھی اسی قسم کا بیان تھا لیکن ایک موقع پر وقاص شیخ اور چند اور افراد جذباتی ہو گئے اور انہوں نے کہا کہ یہ ہمارے ایمان کا مسئلہ ہے جس پر وزیراعظم نے احتجاج اور عام تعطیل کا فیصلہ کر لیا۔

دوسری طرف پورے ملک میں احتجاج کی کال دی گئی لیکن سیاسی اور مذہبی لیڈروں نے منافقانہ رویہ اختیار کیا۔ پورے ملک میں ایک ہی دن احتجاج اور چھٹی تھی لیکن کوئی بڑا لیڈر منظر عام پر نہ آیا۔ عوام سڑکوں پر تھے لیکن کسی کو یہ معلوم نہ تھا کہ کسی شہر میں کس جگہ سے ریلی کا آغاز ہو گا اور کس مقام تک ریلی کا اختتام ہو گا؟ لوگ اپنے اپنے گلی محلوں کے چکر لگا کر گھر بیٹھ گئے۔ ریلیوں اور جلسوں میں کوئی قابل ذکر لیڈر نہیں تھا جو نظم و ضبط کا خیال رکھتا اور احتجاج کا درست طریقہ بناتا۔ اس طرح ایک منظم سازش کے تحت اس احتجاج کو غیر موثر کردیا گیا۔ اگر تمام لیڈر اس موقع پر ایک ہی سٹیج پر ہوتے اور ایک بڑا جلسہ کرتے تو شاید یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ ہوتا جس کی آواز ایوانوں کو ہلا دیتی اور حکومت کو امریکہ سے اپنے معاملات پر نظر ثانی کرنی پڑتی جو کہ عالمی سطح پر توہین رسالت قانون کے قیام میں مد ر گار ثابت ہوتی لیکن بکی ہوئی حکومت اور ملے ہوئے لیڈروں نے شاید مذہب بیچ دیا تھا۔

حکومت کی منافقانہ پالیسی اسی وقت کھل کر سامنے آگئی جب یہ خبریں گردش کرنے لگیں کہ پاکستان کرکٹ ٹیم ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ میں بازوﺅں پر کالی پٹی باندھ کر میچ کھیلے گی تاکہ پوری دنیا میں احتجاج ریکارڈ کرایا جا سکے لیکن ایک رپورٹ کے مطابق عین وقت پر زرداری حکومت نے اس احتجاج سے منع کر دیا۔ اس حوالے سے نوید اکرم چیمہ کا کہنا ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین ذکا اشرف نے انہیں اس حوالے سے بیان دینے سے منع کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کا ایونٹ ہے اور پاکستان کرکٹ بورڈ عالمی کونسل کو ناراض نہیں کرناچاہتا ۔ یاد رہے کہ اس سے قبل زمبابوے اور آسٹریلیا کے کھلاڑی بازو پر کالی پٹی باندھ کر احتجاج ریکارڈ کروا چکے ہیں۔ اسی طرح غلام احمد بلور نے جب توہین آمیز فلم بنانے والے کے سر کی قیمت ایک لاکھ ڈالر مقرر کی تو ان کی اپنی پارٹی ان کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی اور حکومت کے ساتھ ساتھ الطاف حسین نے بھی اس کی مذمت کرتے ہوئے ان سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کر دیا۔ غلام بلور کا کہنا ہے کہ یہ ان کے مذہب کا معاملہ ہے او ر وہ اپنی بات سے نہیں ہٹیں گے۔

اسی طرح صدر پاکستان کے قریبی ساتھی حسین حقانی نے بھی ایک غیر ملکی اخبار میں لکھا کہ توہینِ رسالت کے نام پر ہونے والا احتجاج غیر ضروری اور تشدد پسند انہ رویے کی عکاسی کرتا ہے اور مسلمانوں کو اس پر احتجاج کی ضرورت نہیں کیونکہ اس فلم سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور احتجاج آزادی اظہار رائے کے خلاف ہے۔

حکمت عملی کیا ہو؟
توہین رسالت الہامی مذاہب پر ایمان رکھنے والے ہر فرد کا بنیادی مسئلہ ہے اسے کسی بھی صورت آزادی اظہار رائے کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ یورپ کے جو ٹھیکیدار توہین رسالت کو آزادی اظہاررائے کا نام دے رہے ہیں وہی ہو لوکاسٹ کے حوالے سے سخت موقف رکھتے ہیں اور یورپ خصوصاً اسرائیل میں ہولو کاسٹ کے حوالے سے بولنا قانون کے تحت سخت ترین سزا ہے۔ حالانکہ ہولو کاسٹ ایک دنیاوی واقعہ ہے جس کے مطابق ہٹلر نے یہودیوں کو گیس چیمبر میں ڈال کر مار دیا تھا ہٹلر نے اس موقع پر کہا تھا کہ میں چند سو یہودیوں کو اس لیے چھوڑ رہا ہوں کہ میرے بعد دنیا جان لے میں نے انہیں کیوں مارا ہے؟ ہٹلر کے اس اقدام کی تعریف کرنا یورپ میں سنگین جرم ہے یہی یورپ کی منافقت کی اعلیٰ مثال ہے کہ وہ انبیاءکرام کی توہین کو آزادی اظہار رائے قرار دیتے ہیں لیکن وہاں ہولوکاسٹ کی تعریف سنگین جرم ہے۔

اب ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم حکومتیں اپنے ملکوں سے امریکی سفیروں کو بے دخل کر دیں اور یورپی ممالک کے ویزے پر آنے والوں کے داخلے پر پابندی لگا دیں۔ امت مسلمہ کو یورپی یونین کی طرز کا ایک اتحاد قائم کرنا ہو گا تاکہ ان عالمی سازشوں کا مقابلہ کیا جا سکے اور عالمی سطح پر انبیاءکی توہین کے خلاف قانون سازی کی جا سکے جس کی کم از کم سزا موت اور خاندانی جائیداد سمیت تمام اکاﺅنٹس کی ضبطی ہو، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ ممکن ہو سکے گا خصوصاً اگر پاکستان میں دیکھیں تو بکے ہوئے لوگ کھل کر سامنے آچکے ہیں جو لیڈر اپنے ملک میں توہین رسالت کے خلاف ایک نہیں ہو سکے وہ عالمی سطح پر کیا کردار ادا کریں گے۔ یہ پوری قوم کے لیے ایک سوالیہ نشان ہے۔ اﷲ اُمت مسلمہ اور پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔( آمین)
Syed Badar Saeed
About the Author: Syed Badar Saeed Read More Articles by Syed Badar Saeed: 49 Articles with 54414 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.