اسلامی غیرت و اقدار کا محافظ! امام احمد رضا محدث بریلوی علیہ الرحمة

19ویں صدی عیسوی کا نصف آخر اور 20ویں صدی کا ابتدائی دور مسلمانانِ عالم بالخصوص ہندی مسلمانوں کے لیے بے شمار افکار و تحریکات اور حادثات و چیلنجیزکا دور تھا۔پے در پے اسلام اورمسلمانوں پر فکری و اعتقادی اور نظرےاتی حملوں نے انتشار و افتراق کو جنم دیا۔نئے نئے نظرےات ، فلاسفہ کے مزعومات اور اہلِ بدعات کے اختراعات نے سادہ لوح مسلمانوں کو اپنے دین سے بے گانہ کردینے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی تھی۔اس پر فتن دورمیں مشیتِ ایزدی نے دینِ اسلام کے احیا اور تجدید کی خاطراپنی سنتِ کریمہ کے مطابق امام احمد رضا محدث بریلوی(1272ء۔ 1921ئ) کوپیداکیااور مقامِ مجددیت سے سرفراز فرمایا۔

اعلیٰ حضرت امام احمد رضاکی کتابِ حیات کا لفظ لفظ فروغِ اسلام اور عشقِ رسول سے عبارت ہے۔ان کے افکار و خیالات اسلامی تعلیمات اور احکام ہی کے گرد گردش کرتے تھے۔نظامِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی سوچ کا محور تھا۔انہوں نے ہمیشہ اللہ عزوجل کی باتےں کیں،مصطفی جانِ رحمت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے گُن گائے۔جو کہا،جولکھااورجو کیااس کے پیچھے محض رضاے الہٰی و رضاے مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا جذبہ صالح کارفرماتھا....اس بات کا مشاہدہ کرنا ہے تو ان کی کتابوں،فتاویٰ اور اشعار نیز دینی وعلمی،ادبی و سماجی کارناموں کا مطالعہ چشم کشا او رحقیقت افزاہوگا۔

فلاسفہ نے حرکتِ زمین کا نظریہ پیش کیا جو قرآن و حدیث سے متصادم ہے۔اس کے رد میں امام احمد رضا نے دو کتابیں لکھیں(۱)نزول آیات فرقان۔جس میں آیاتِ قرآنی ،احادیثِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور اقوالِ ائمہ و فقہا سے حرکتِ زمین کے نظریہ کاباطل ہونا ثابت کیا۔(۲)فوزِمبین در ردِحرکتِ زمین۔جس میں جدیدفلسفہ اور علومِ عقلیہ سے ثابت کیا کہ زمین ساکن ہے۔اس کتاب میں اعلیٰ حضرت نے نیوٹن، کوپرنیکس، کپلر، ہرشل، طوسی،ابن سینا،بطلیموس،گیلی لیو،آئن اسٹائن جیسے فلاسفہ و سائنس دانوں کے باطل نظرےات کو تارِ عنکبوت کی طرح بکھیر کر رکھ دیا،اور ان کا تعاقب صرف اس لیے کیا کہ ان کے نظریات سے اسلامی نظریہ کی مخالفت ہوتی ہے....کتاب الکلمةالملہمة میں فلسفہ قدیمہ کا رد کیا اور اسلامی موقف کو واضح کیا....پانی کی رنگت کے بارے میں اسلامی تحقیق پیش کی اور حدیثِ پاک سے رنگ ثابت کیا....اس کے علاوہ مسلمانوں میں پھیلے غلط نظریات کا قلع قمع کیا۔بدعات کی بیخ کنی کی۔سنتوں کو زندہ کیا۔اعراس،شادی بیاہ میں رائج غیرشرعی حرکتوںپرقدغن لگائے۔تعلیم اور طریقہ تعلیم سے متعلق مسلمانوں کی رہ نمائی کی۔سیاسی تحریکات اور ان کے مخالف اسلام نظرےات سے اہلِ ہند کو آگاہ کیا۔تحریکِ خلافت،ترکِ موالات،ہجرت،ندوہ اور گاؤ کشی سے وابستہ مفاد پرست لیڈران اور ان کے عاقبت نااندیشانہ اور جذباتی نعروں سے کی مخالفت کی۔اورپھر چشمِ فلک نے وہ دن بھی دیکھا جب مذکورہ تحریکوں کے نقصانات اہلِ ہند پر ظاہر ہوئے توامام احمدرضا کی سیاسی بصیرت کا اعتراف دنیا نے کیا۔

ان کے یہاں جھوٹے نگوں کی ریزہ کاریاں نہیں تھیں بلکہ صداقت و امانت کا بول بالا تھا۔جوعقائد تھے انہیں قرآن و حدیث اور اسلاف و اکابر سے ثابت کیا۔دین میں کسی بھی طرح کی مداہنت انہیںمنظور نہیں تھی۔یہ اہلِ ایمان کی خصوصیت رہی ہے کہ حق کہنے میں کسی قسم کی جانب داری نہیں برتتے۔ان کے پیر خانے میں کسی بزرگ نے سونے انگوٹھی پہنی تھی اعلیٰ حضرت نے حکمت سے انہیں اس کام سے منع کیا....وہ اپنانے کا جذبہ رکھتے تھے۔ان کی زندگی الحب للّٰہ و البغض للّٰہ کی عملی تصویر تھی۔وہ ہر بات کو اسلامی نگاہ سے دیکھتے تھے بلکہ وہ ہر چیز کو اسلامی رنگ میں رنگناچاہتے تھے اور مسلمان کرنا اوردیکھناچاہتے تھے۔

شاعرِ مشرق ڈاکٹر اقبال کے دوست پروفیسر حاکم علی مرحوم نے امام احمد رضا کو ایک مکتوب میں سائنسی نظریات سے اتفاق کی دعوت دی اورلکھاکہ ”غریب نواز!کرم فرماکر میرے ساتھ متفق ہوجاؤ تو پھر ان شاءاللہ العزیز سائنس کواور سائنس دانوں کومسلمان کیا ہوا پائیں گے۔“(نزولِ آیاتِ فرقان)....اس کے جواب میں اعلیٰ حضرت نے کتاب نزولِ آیات فرقان لکھی اور پروفیسر صاحب اور سائنسی نظریہ کی تردید کی۔آخرمیں یوں رقم طرازہیں:”محب فقیر!سائنس یوں مسلمان نہ ہوگی کہ اسلامی مسائل کو آیات و نصوص میں تاویلات دور از کار کرکے سائنس کے مطابق کرلیا جائے۔یوں تو معاذاللہ اسلام نے سائنس قبول کی نہ کہ سائنس نے اسلام۔وہ مسلمان ہوگی تو یوں کہ جتنے اسلامی مسائل سے اسے اختلاف ہے سب میں مسئلہ اسلامی کو روشن کیا جائے۔دلائل سائنس کو پامال و مردود کردیاجائے۔جابجا سائنس ہی کے اقوال سے اسلامی مسئلہ کا اثبات ہو۔سائنس کا ابطال و اسکات ہو۔یوں قابو میں آئے گی اور یہ آپ جیسے فہیم سائنس داں کو باذنہ تعالیٰ دشوارنہیں۔آپ اسے بچشم پسند دیکھتے ہیں۔“(حوالہ سابق)

اسلامی نظریات اورتہذیب و تمدن سے جو بھی باتیں ٹکرائیں ان کا مدلل و مسکت جواب امام احمد رضا کے قلمِ حق رقم نے بروقت دیااور ہر پلیٹ فارم پر مسلمانوں کی دینی رہ نمائی کی۔دورِحاضر میں مغرب سے مرعوبیت کی ایسی آندھی چلی ہے کہ مغربیت کے فریب خوردہ ”خودساختہ مبلغینِ اسلام “اسلام اور سائنس و فلسفہ پر عقلِ ناقص اور فکرِ خام کے گھوڑے دوڑارہے ہیں اور جدید دنیا کے سامنے اسلام اور اسلامی تعلیمات کومعذرت خواہانہ انداز میں پیش کررہے ہیں۔یہ طرزِ تبلیغ اسلام کے لیے ہرگزفائدہ مند نہیں ہے بلکہ مہلک تر ہے۔ ایسے دور میں اسلام کی تبلیغ مثبت اور موثر انداز میں کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ اسلام کی اصل چہرہ اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ جلوہ گر ہو،اسلامی غیرت و شناخت کی حفاظت ہو۔اس سلسلے میں فکرِ رضا ہماری رہ نمائی آج بھی کرتی ہے،اس لیے کہ تعلیمات و افکارِ امام احمد رضاآج کے دور میں اسلامی غیرت و حمیت اور روایات و اقدار کی پاس بانی و نگہ بانی کا فریضہ انجام دینے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں۔بلاشبہہ آج کے دور میں فکرِ رضا اسلامی غیرت ، اقدار اور تشخص کی محافظ ہے۔
Waseem Ahmad Razvi
About the Author: Waseem Ahmad Razvi Read More Articles by Waseem Ahmad Razvi: 86 Articles with 134720 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.