ملک میں جہاں ایک طرف قتل و غارت
گری کا بازار گرم ہے وہیں ریاستی دہشت گردی بھی عروج پر ہے۔مہنگائی نے عوام
کا جینا مشکل کردیا ۔ساتھ ہی آئے دن بڑھتا ہوا بین الاقوامی دباﺅ نہ صرف اس
ملک میں سرمایہ کاری کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن رہا ہے بلکہ ےہ پاکستان
کے اندر اور پاکستان سے دور پاکستانیوں کی عزت و آبرو کے لیے بھی کئی مسائل
پیدا کر رہاہے۔پاکستان کے اندر رہنے والوں کے لیے ڈرون حملوں کی صورت میں
ایک ایسی سوغات موجود ہے جو نہ جانے کب سے اس ملک کے لوگوں کا مقدر بن چکی
ہے۔مشرف دور میں شروع ہونے والا یہ سلسلہ اس وقت بھی جاری تھا جب پاکستان
کی موجودہ حکومت اس ملک میں ہی اس ملک کی فوج سے ہی مشرف صاحب کو گارڈ آف
آنر دلوا رہی تھی ۔بعد ازاں حالات تبدیل ہوگئے۔ لوگوں کو لارے لگا کر ووٹ
لیے گئے تھے اور وہ لارے اپنے تو پی پی پی کافی حد تک پو رے کرنا چاہتی تھی
مگر اس میں کامیاب نہ ہوسکی۔پھر بی بی کے قتل کا الزام لگایا ۔مگر کیس وہیں
کا وہیں رہ گیا۔کیسے ہی ایسے مقدمے ہیں جو نہ جانے کب سے نظر کرم کے محتاج
ہیں ۔مگر حکومت کی نا اہلی ےا پھر کام نہ کرنے کی پالیسی ان کا کوئی واضح
حل نکلنے ہی نہیں دیتی۔ایک طرف ملک کے وزیر داخلہ کہتے ہیں کہ اس ملک میں
کوئی ڈرون حملہ نہیں ہوگا مگر دوسرے ہی لمحے اسی ملک کی سر زمین خون آلود
کر دی جاتی ہے۔مگر حکومت چپ رہتی ہے۔بعض دفعہ احتجاج جیسے الفاظ سننے کو
ملتے ہیں۔مگر مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آتی کہ اپنی ہی اسمبلی میں واک آﺅٹ
کرنے سے یا پھر شور مچانے سے کیا ہوگا۔جب آپ کے ملک کے اکثر وزیر مشیر
امریکہ اور برطانیہ میں ہرماہ ایک ہفتہ گزارنے نہ جائیں تو ان کے کھانے ہضم
نہیں ہوتے۔آپ ان سے مانگ کر کھا رہے ہیں۔آپ کے ملک کے بیشتر فیصلے ان کے
دفتروں سے آنے والی فون کالز پر ہوتے ہیں۔آپ اسلحہ اور ہر قسم کی ٹیکنالوجی
کے لیے ان سے رجوع کرتے ہیں۔ایسے میں آپ ان سے دشمنی کیسے مول لیں گے۔جب کہ
آپ نہ جانے کیا کیا معاہدے ان کے ساتھ طے کر چکے ہیں۔ذکوٰة صدقات اور قرض
نہ جانے کیا اور کتنا کتنا آپ ان سے کھا رہے ہیں ایسے میں ان سے بغاوت ممکن
ہی نہیں۔مگر میڈیا میں بھی محض چند ایسے لوگ ہیں جو اس بات کو عوام کے
سامنے رکھ رہے ہیں مگر بیشتر اس پر نہ جانے کیوں پردہ ڈال رہے ہیں۔اور غیر
ضروری معاملات کو ذیادہ سے ذیادہ کوریج دی جا رہی ہے۔ملک کا بچہ بچہ اس بات
سے واقف ہے کہ اگر امریکہ کو افغانستان میں کامیاب ہونا ہے تو انہوں نے اس
ملک میں اپنی پسند کی پالیسیاں بھی بنوانی ہوں گی اور ان پر عمل بھی کروانا
ہوگا۔مگر ان کی بقاءمحض نیٹو سپلائی سے جڑی ہوئی ہے۔اگر واقعی میں تحریک
انصاف کی قیادت کوئی مذہبی جماعت ےا مجھ جیسا کوئی بھی صحافی اتنا غیرت مند
ہے کہ وہ ان ڈرون حملوں کے خلاف کوئی کام کرنا چاہتا ہے تو ملک سے گزرنے
والی نیٹو سپلائی بند کروا دی جائے۔اس کے راستے میں رکاوٹیں بنائی
جائیں۔مولانا صاحب جو عمران خان کو منافق کہنے پر کہتے ہیں کہ ان کی زبان
کاٹ دی جائے گی۔شائد وہ اس بات سے لاعلم ہیں کہ ان کا اثر رسوخ جس علاقے
میں ہے اگر وہاںسے نیٹو کی سپلائی کا راستہ بند کر دیا جائے تو اس ملک میں
ڈرون تو کیا خود کش حملے بھی بند کیے جاسکتے ہیں۔مگر حرمت رسول کے وقت بھی
یہ اس کو نہ تو بند کروانا چاہتے تھے نہ ہی اس کے لیے کسی نے کوئی کوشش کی
ہے۔ہم ایک ایسی دلدل میں پھنس چکے ہیں جو کہ ہو بہو مجھے 1865 کے حالات کا
پتہ دیتی ہے۔ایک بار پھر بغاوت کرنا ہوگی۔ پھر جانیں دینا ہوں گی ۔ اس کے
علاوہ جان چھڑا نے کاکوئی بھی طریقہ نہ ہے۔سب اپنا الو سیدھا کر رہے
ہیں۔موچی کہے گا جوتے خراب ہیں احتجاج والوں کے۔ مجھ سے ٹھیک کراﺅ۔ نائی
کہے گا کہ بال کٹواکے جاﺅ۔جس کا جتنا بس چلے گا اپنی دکان داری کرے گا اور
ایسا ہی کیا جا رہاہے۔چاہے وہ کوئی بھی تحریک ہو یا کوئی بھی اتحاد ہو۔اگر
واقعی کوئی اس ملک سے مخلص ہے تو آئے میدان میں اور کہے کہ میں اس ملک میں
ایک ایسا اتحاد بنا تا ہوں جو غیر انتخابی ہوگا جس کا الیکشن سے تعلق نہیں
ہوگا۔کاش ایسا ہوتا۔ملک کے لوگوں کو گمراہ کیا جا رہا ہے۔ایک بند گلی میں
دھکیلا جا رہا ہے اور ان کا مال اور جان انتہائی غیر محفوط ہے۔ضرورت اس امر
کی ہے کہ اس ملک کے لوگوں کو اب سچ بتا کر یہ حکمران اپنے کیے پر معافی
مانگیں اور پھر اس ملک کی بہتری کے لیے کچھ سوچیں۔مگر وہ ایسا کبھی بھی
نہیں کریں گے۔الزام تراشی ہی سب کا پیٹ بھر رہی ہے۔اور سب کی بلائیں بھی
ٹال رہی ہے۔عمران خان کے اقدام میں جو سب سے بڑی خامی تھی وہ یہ یھی کہ اگر
وہ اس مسئلے کو پارٹی سے بڑھ کے ایک بڑی سطح پر دیکھ رہے تھے تو اس مارچ
میں اور پا رٹیوں سے رابطہ کیوں نہ کیا گیا۔اگر بیس ہزار لوگ کوئی چار پانچ
پزار جھنڈے لیکر گئے تو سب کے سب کے پاس پی ٹی آئی کے جھنڈے کیوں تھے؟کوئی
تو پاکستان کا جھنڈا بھی اٹھا لیتا ۔شائد لایا بھی گیا ہو مگر دکھایا نہ
گیا ۔کیونکہ دکھایا تب جائے جب سب کے سب مل کر آئیں جب ایک پارٹی خود جا
رہی تھی تو وہ ملک کا جھنڈا کیونکر لیکر جاتی۔اب عوام اپنی الٹی گنتی گننا
شروع کردیں ورنہ موسم کی تبدیلی اور حالات کی تبدیلی جسطرح سے سیاستدانوں
پر اثر ہو رہی ہے اس کا انتہائی منفی نتیجہ نکلے گا جو کہ ہضم کرنا مشکل
ہوگیا۔لحاظہ علاج سے بہتر ہے کہ ہم احتیاط کر لیں۔باقی تو اللہ ہی حافظ۔ |