میں اپنی ماں کو ہفتے میں ایک
بار فون کر کے اپنی اور ان کی خیرو عافیت دریافت کر لیا کرتا تھا ،چونکہ
میں اپنی ماں کا چار بچوں میں سے اکلوتا بیٹا ہوں ،جبکہ تین بہنوں میں سے
دو مجھ سے بڑی اور ایک چھوٹی ہے ، میرے والد میرے بچپن میں ہی مرحوم ہو گئے
تھے، اس لیے ابتداءمیں ہی محنت مزدوری کر کے ماں ہی ہم سب کی کفالت کرتی
رہی اور جب میں نے ذرا سا ہوش سنبھالا ،کچھ توانا ہوا تو محلے کے بچوں سے
الگ ہو کرتمام ذمہ داری میں نے اپنے کندھوں پر لے لی ،بیکری کا سامان بنانے
والے کارخانے میں محنت سے چار سال تک کام کیا ،ایک خدا ترس سے ملاقات ہوئی
اس نے پاسپورٹ کی عمر پورا ہونے پر کچھ اپنے خرچے اور کچھ میرے قرض ادھار
پر دیار غیر بلا دیا اور یہاں مجھے اسی کام میں لگوا دیا جو میں وہاں
پاکستان میں کرتا تھا ،اب مجھے پردیس میں آئے تیسرا سال ہونے کو ہے جس ملک
میں ہوں یہاں میرا پاسپورٹ مالکان کے پاس ہے ،باہر شہر تک بھی پاسپورٹ کے
بنا ءنہیں جا سکتے ،لیکن اللہ پاک کا احسان ہے کے مہینہ گزرنے کے بعد ایک
معقول رقم حوالے ہو جاتی ہے جس میں سے 80فیصد اپنے گھر والوں کیلئے بنک کے
ذریعے بھیج دیتا ہوں باقی بیس فیصد سے اپنا یہاں کا نان نفقہ پورا کر لیتا
ہوں ،اس ڈھائی، تین سالہ محنت سے ایک بہن کی شادی کروا چکا ہوں جبکہ دوسری
بہن کی شادی کیلئے گاﺅں میں انتظامات کو حتمی شکل دی جا رہی ہے ، تھوڑی سی
جو زمین ہے اس پر بھی ان دنوں علاقے کے با اثر لوگ قبضہ کرنے پر تلے ہوئے
ہیں،میں ابتداً ہی گھریلو حالات کی وجہ سے فضول خرچ واقع نہیں ہوا، لیکن اس
کے باوجود بھی ہفتہ میں ایک بار اپنی ماں سے بات نہ کروں تو دل کو سکون
نہیں ہوتا ویسے بھی ان دنوں بہن کی شادی کے انتظامات اوپر سے زمین کے
تنازعہ نے ذہنی اذیت میں مبتلاءکیے رکھاہے ،ابھی جو سب سے زیادہ اذیت پہنچی
ہے وہ کال ٹیکسز میں بھاری اضافے سے پہنچی ہے جن پیسوں میں ہم 250منٹ بات
کر لیتے تھے اب انہی پیسوں میں صرف 60منٹ بات ہوپاتی ہے ۔یہ باتیں تھیں
دیار غیر میں مقیم ایک پاکستانی کی جس نے اپنا نام 'احمد 'اور تعلق پنجاب
سے بتایا نے گزشتہ روز مجھے انٹر نیٹ سے 5منٹ کی کال کر کہ حکومت پاکستان
سے ٹیکسز میں اس اضافے کو ختم کرنے کی التجا کرنے کوکہا ۔'احمد 'کی آواز
میں ایک تڑپ ،بے بسی سی تھی اور کچھ حد تک نا امید سی بھی ،کہنے لگا کہ ہم
یہاں سے پاکستان کے ٹی وی چینلز دیکھتے ہیں،آن لائن اخبارات پڑھتے ہیں،
شعبہ صحافت سے تعلق رکھنے والے آپ لوگ اگر ان کالز پر ٹیکسز میں اس نئے
اضافے کو واپس کروا دیں تو ہم دیار غیرمیں محنت و مزدوری کرنے والوں کا حق
بھی ادا کریں گے اور ہماری دعاﺅں کے مستحق بھی ہونگے ۔یہ تو تھی صرف ایک 'احمد
' کی مختصر سی کہانی، ابھی دیار غیر میں رہنے والے لاکھوں پاکستانیوں کی
ایسی کہانیاں منتظر ہیں کہ جنہیں اگر کوئی سننے والا ہو تو سن کر دل خون کے
آنسو روئے۔
حکومت پاکستان(پی ٹی اے) نے یکم اکتوبر سے بیرون ملک سے آنے والی تمام کالز
بشمول انٹرنیٹ کے 500فیصد سے 800فیصد تک اضافہ کر دی ،جہاں ایک طرف حکومت
پاکستان(زرداری) نے دیار غیر میں اپنوں کیلئے محنت مزدوری کرنے والوں کی
گردنوں پر چھری رکھ کے پیسے نکالنے شروع کر دیئے وہاں اپنے لیے نفرت کا ایک
نیا سماں بھی مہیا کر دیا ہے ،بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے دلوں میں جہاں
پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اس طرح حکومت پاکستان اور پی پی پی کیلئے
نفرت پیدا ہوئی وہاں انہوں نے اپنی اس نفرت کا انتقام لینے کیلئے پاکستان
میں کالز کرنا بھی انتہائی کم دی ہیں، وہاں محنت سے کمائی ہوئی رقوم کو غیر
قانونی (ہنڈی)طریقے پر اپنے خاندانوں تک بھیجنے کا بھی انتظام بھی کر رہے
ہیں،تارکین وطن نے پاکستانی بنکوں کا مکمل بائیکاٹ کرنے کا بھی اعلان کر
دیا ہے (کچھ نے تو بھارتی بنکوں کے ذریعے رقوم بھیجنے کا بندوبست کر دیا ہے
)جو حکومت پاکستان کیلئے سنجیدگی سے سوچنے کا مقام ہے ،تارکین وطن نے 10دن
کی دی گئی ڈیڈ لائین مکمل ہونے پر تما م ملکوں میں موجودپاکستانی سفارت
خانوں کے سامنے پر امن احتجاجی مظاہرے کرنے کا اعلان بھی کر رکھا ہے ،سوشل
میڈیا کے ذریعے سینکڑوں تارکین وطن نے مجھ سمیت دیگر بہت سے قلم کاروں سے
رابطے کیے اور حکومت پاکستان سے اس ٹیکس میں اضافہ کو واپس لینے کیلئے دباﺅ
ڈالنے کو کہا ہے ، اور اپیل کی کہ چیف جسٹس کو کہیں کہ وہ اس معاملے پر بھی
سوموٹو ایکشن لیں،تارکین وطن نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار اس طرح اپنی
بے بسی ظاہر کرتے ہوئے بتایاکہ ہم یہاں آرام و سکون میں تھے اور اس غلط
فہمی میں تھے کہ بے شک پاکستان میں چوروں اور لوٹیروں کی حکومتیں آتی رہیں
ہم ان کے شر سے محفوظ رہیں گے محنت مزدوری کر کہ اپنوں کی مدد کرتے رہیں گے
لیکن اس بار ایسا نہ ہوا مسٹر 10پرسنٹ نے ہمارے اوپر ایسا شکنجا کس دیا کہ
ہمیں سبنھلنے کی فرصت تک نہ رہی۔بیرون ممالک کشمیریوں کی ایک بہت بڑی تعداد
محنت مزدوری کر کہ اپنے خاندانوں کو سپورٹ کر رہی ہے،کشمیر ی کمیونٹی نے
کالز پر حالیہ ٹیکسز میں اضافے کو مسترد کرتے ہوئے اس کے خلاف احتجاجی
تحریک چلانے کا عندیہ دے دیا ہے ۔
حکومت پاکستان نے پی ٹی اے کے توسط سے دیار غیر میں رہنے والے اچھے اچھوں
کویاد کروا دیا کہ اس وقت پاکستان میں پیپلز پارٹی و زردراری کی حکومت قائم
ودائم ہے جو پاکستان کے عوام کا تو خون تک نچوڑ چکی ہے اب بیرون ممالک مقیم
پاکستانیوں کے خون کی باری ہے ، جب تک اس حکومت کا اختتام نہیںہوتا یہ
غریبوں کے خون اسی طرح نچوڑتے ہی رہیں گے ،ایک طرف تو تارکین وطن جنہوں نے
ہر مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے موجودہ حکومت سے یہ مطالبہ کر تے
نہیں تھک رہے کہ کالز پر حالیہ اضافی ٹیکس کے فیصلے کو واپس لیا جائے دوسری
طرف تارکین وطن کا پاکستانی میڈیا سے جائز شکوہ بھی ہے کہ اس اہم ترین
مسئلے کو کیوں پس پشت ڈالا جا رہا ہے ۔تیسری طرف پاکستان کے عدالتی نظام پر
انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں کہ عدالتیں ابھی تک کیوں خاموش ہیں ،اس اہم ترین
عوامی ایشو پر سوموٹو ایکشن کیوں نہیں لیا جا رہا ۔۔!ویسے تو موجودہ عدلیہ
نے اس عوام کو ایک حد تک سہارا ضرور دیا ہے کہ حکومت کے خلاف جیسے تیسے کر
کہ کچھ ایکشن تو لیے اور ان پر عمل بھی کسی حد تک کروا ہی دیا، ورنہ ان
(پیپلز پارٹی کے) حکمرانو کے بس میں اگر ہو تو جس طرح یہ ملک سے لوٹی ہوئی
دولت جو غیر ملکی بنکوں میں اپنے اکاﺅنٹس میں محفوظ کیے بیٹھے ہیں یہ
لوٹیرے پوری قوم کا ایک بار سودا ہی کر ڈالیں۔ پاکستان کا میڈیا جو کچھ
سنجیدہ لوگوں کے نزدیک ابھی 5,6سال کا بچہ ہے اس کو بچوں کی طرح میچور ہونے
میں ابھی وقت لگنا ہے لیکن میرے خیال میں اس سب کے باوجوداس کاروباری میڈیا
نے کچھ اچھے کام بھی کیے ہیںجو قابل ستائش ہیں ، ابھی پاکستان کے تمام
میڈیا نمائندگان سے یہی درخواست ہے کہ براہ مہربانی اس اہم ترین ایشو پر جس
میں لاکھوں پاکستانی بیک وقت متاثر ہو ئے ہیں،اس کے حقائق کو مد نظر رکھتے
ہوئے جامع رپورٹس بنائی جائیں اور حکومت کی اس نا انصافی کو پوری دنیا کے
سامنے لایا جائے، پاکستان میں موجود بڑے سیاسی ٹھیکیداروں کو جو ابھی وفاقی
یا صوبائی حکومتوں میں ہیں یا مستقبل قریب میں حکومت بنانے کے لیے اپنی
باری کا انتظار کر رہے ہیں سے بھی پوچھا جائے کہ وہ اس اہم مسئلے پر اپنا
کیا کردار ادا کر رہے ہیں ،کیوں خاموش ہیں۔ عمران خان جو ہر اہم ایشو پر
احتجاجی ریلیاں کرتے ہیں اس اہم مسئلے پر بھی غور کریں، اس سے ان کو بھی دو
بڑے فائدے ہوں گے، ایک سیاسی اور دوسرا ان لاکھوں لوگوں کی دعاﺅں کی صورت
میں،جس کی ان دنوں کی خان کو بہت ضرورت ہے کیونکہ وہ بہت سے لوگوں کیلئے
امید کی ایک کرن بن کر ابھرے ہیں جس کی حالیہ مثال وزیرستان تک کامیاب امن
مارچ سرفہرست ہے ،اس وقت پاکستان میں رہنے والے ہر ایک پاکستانی کو دیار
غیر میں بسنے والے اپنوں کا سہارا بننے کی ضرورت ہے کیونکہ یہی دیار غیر
والے ہی مشکلات میں ہمارا دنیاوی سہارا بنتے آئے ہیں،تارکین وطن سے حکومت
وﺅٹ دینے کا حق پہلے ہی چھین چکی ہے ۔ دیار غیر میں بسنے والوں سے اب یہی
التجا ہے کہ خدا راہ اپنے اتحاد کو قائم و دائم رکھیں ،مل کر ایک بڑا اور
ایسا موثرپلیٹ فارم بنائیں کہ جب یہ بہروپیے سیاستدان سیر سپاٹے یا فوٹو
سیشن کیلئے آپ کے پاس جائیں تو ان کے اعزاز میں تقریبات منعقد کروانے کے
بجائے ان کا مکمل بائیکاٹ کریں ،سفارتی سطح پر اس مسئلے کو اٹھائیں تبھی یہ
مسئلہ حل کی جانب جا سکتا ہے ۔دیار غیر میں محنت کرنے والے عزیزو سے ایک
اور درخواست ہے کہ ایک اور اہم چیز ذہین میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ یہاں
حکومتوں نے آنا جانا ہوتا ہے، مشرف کو ہی دیکھ لیں یہاںحالات پانسا پلٹتے
دیر نہیں لگاتے ممکن ہے کل پاکستان کے حالات بھی تبدیل ہو ہی جائیں اس لیے
کوئی ایسا عمل نہ کریں جو ملک و قوم کیلئے مزید شرمندگی کا باعث بنے لیکن
اپنے جائز حق کیلئے خاموش رہنا خود کے ساتھ اور آنے والی نسلوں کیلئے بہت
بڑی نا انصافی بھی ہے اس لیے نا انصافی کے خلاف جہاد سے پیچھے بھی نہ ہٹیے
گا ۔
اب آخر میں چیف جسٹس آف پاکستان سے در خواست ہے کہ اس قومی وعوامی مسئلے پر
ترجیحی بنیادوں پر سوموٹوایکشن لے کر لاکھوں تارکین وطن کے سا تھ انصاف
کریں ۔اس وقت تمام تارکین وطن کی امیدیں صرف اعلیٰ عدلیہ سے وابستہ ہیں جس
کا کنٹرول آپ کے اختیار میں ہے، اس لیے مجھے اور لاکھوں تارکین وطن کو امید
ہے کہ آپ ہم سب کی امیدوں و توقعات کو رائیگاں نہیں جانے دیں گے ۔ |