انتخابی بگل بجتے ہی سیاسی
شخصیات میدان میں اتر آتی ہیں اور بڑی ہی معصومیت سے انداز گفتگو اپناتے
ہیں جیسے فی الواقع ہی ان سے زیادہ معصوم ،نیک ،دیانت دار،اور کوئی نہیں
عوام کو سبز باغ دیکھا دیکھا کر خیالاتی دنیا میں ایسا گم کر دیتے ہیں جیسے
کبھی نہ کبھی کوئی کرشمہ سازی ہو جائے عوامی اجتماعات میں ایسے بلند و بانگ
دعوائے کرتے ہیں ان کے الفاظ کے گروگھ دھندئے سے لگتا ہے واقعی یہ اب ضرور
بہ ضرور نیلم کی تقدیر بدلنے پہ آہی گئے ہیں۔مگر نہ ہی آج تک نیلم کی تقدیر
بدلی اور نہ ہی حکمرانوں کی تجوریاں،حقائق کو تسلیم کرنا ہم گناہ کبیرہ
سمجھتے ہیں ایک تو ہم نے سچ بولنا ہی چھوڑ دیا ہے اس پہ ستم ظریفی سچ نہ
سننے کی بھی قسم اٹھا رکھی ہے ۔سب سے بڑا مسئلہ جو تھا وہ پاکستان بننے کے
بعد آج تک حل نہیں ہو سکا کشمیر جنت اراضی کا ایک حصہ بھارت کے زیر تسلط ہے
اس کو بھارت سے چھوڑ وانے کی زمہ داری پاکستان نے اٹھا رکھی تھی مگر
پاکستان نے اپنی زمہ داری پوری نہ کر سکی جس کا احساس ہر کشمیر ی کو ہو چکا
ہے کشمیر کا یہ مسئلہ پاکستان کے بس سے باہر ہے اس بات کا ادراک اس وقت
کشمیریوں کو ہوا جب عوامی منتخب نمائندئے اسمبلی میں پہنچ کر صرف اقتدار کی
ہرس و ہوس اور ایک دوسروں پہ کیچڑ اچھالنے کے سوا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا
کشمیر تو یہ فتح ان سے ہو سکتا نہیں البتہ ہر دفعہ اسلام آباد فتح کرنے کی
ہر ممکن کوشش ضرور ہوئی اور کبھی یہ اپنی اس جنگ میں ایک کامیاب فاتح ضرور
کہلائے کشمیریوں نے اپنے زور بازو سے بھارت کو ناکوں جو چنے چبھوائے تھے
اور قریب تھا بارہا بھارت مجبور ہو چکا اس مسئلہ کو سنجیدگی سے لیا جائے
مگر پاکستانی حکمران اس کو مذاکرات کی میز پہ جان بوجھ کر ہار جاتے رہے اگر
یہ مسئلہ حل ہو گیا تو ان کے پاس اپنی سیاست چمکانے کے لیے اور کوئی ایشو
نہیں ۔لہذا پاکستان سے ہمیں اس بات کی توقع نہیں رکھنی چاہیے چونکہ جو آزاد
خطہ پاکستان کے زیر قبضہ ہے اس کو اہمیت نہ دینا اس بات کی غمازی کرتا ہے
پاکستان کشمیر کے معاملہ میں مخلص نہیں اس وقت مسئلہ کشمیر سرد خانوں میں
ڈال دیا گیا جبکہ آزاد خطہ کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک نا قابل مواخذہ
ہے ۔اس کی مثال نیلم ویلی سے لے لیں اس وقت شاہرائے نیلم کی تعمیر میں
غداری شامل ہے اور نیلم کی عوام کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھنا
کشمیریوں کے زخموں پہ نمک پاشی کے مترادف ہے ۔شاہرائے نیلم کو بین الاقوامی
معیار کے مطابق تعمیر کرنا تھا آپ سے میری گزارش ہے ایک لمحہ کے لیے سوچئے
بین الاقوامی سطح پہ کس ملک کے اندر ایسی روڈ ہے ؟دبئی لندن ،پیریس،کنیڈا،انگلینڈ،کوئی
ایسے ملک کی مثال کوئی دئے دئے اس ملک کی روڈ کے نقشہ کے مطابق نیلم ویلی
روڈ تعمیر کی گی ہے اس میں غداری کے مرتکب افراد مستحق سزا ہیں ،،سوچنے کی
بات یہ ہے ان کو سزا دئے گا کون؟جب دنیا ایک گلوبل ویلج بن چکی ہے نیلم کی
عوام آج بھی اکیسویں صدی میں میں بھی موبائل سروس سے محروم ہے اس کو کیا
جان بوجھ کر محروم رکھا گیا ہے یا اس کی کوئی اور وجہ بھی ہو سکتی ہے جہاں
تک ہماری شنید میں آیا ہے اس کی وجہ یہ بتلائی جا رہی سیکورٹی کے پیش نظر
یہ انتہائی اہم معاملہ التوا کا شکار ہے ،جی؟لیکن اس بات کو ہم نہیں مانتے
ہم دن کو دن ہی مانتے ہیں رات نہیں ،قابض طبقہ ہماری نیتوں پہ شک کر رہا ہے
جو بلا تنخواہ کشمیری خطے کے جان نثار سپاہی ہیں ۔اگر سیکورٹی ریزن ہے تو
آزاد اور مقبوضہ علاقہ کے باڈر پہ تمام موبائل کمپنیوں کے سگنل آرہے جب
باڈر پہ سگنل جا رہے ہیں ہزاروں میل پیچھے آبادی کے اندر کون سا سیکورٹی
مسئلہ ہے ؟اگر نیلم کا کوئی فرد غداری کا مرتکب ہے اس کے لیے ضروی نہیں وہ
نیلم ہی سے بھارت میں فون کرئے گا وہ مظفرآباد و دیگر اضلاح اور پاکستان سے
بھی جا کر ایسا کر سکتا ہے مگر سوچ ،فہم و فراست سے عاری حکمرانوں کو اس سے
کوئی غرض ہی نہیں ان کے بچوں ،بیگمات ،کے پاس جدید سہولیات موجود ہیں ،اگر
کوئی پس رہا ہے تو وہ بچارا کشمیری اور نیلم کا باسی ۔ہم اہل قلم نے مختلف
آرا سے حکمران طبقہ کو نوازہ مگر اس طرف کسی نے توجہ نہیں دی آج بر ملا یہ
کہنے میں حق بجانب ہوں ہمارا جس ملک کے ساتھ اتحاد ہے وہ خود اغیار کے
ہاتھوں گروی ہے سامراج یہ بات پسند ہی نہیں کرتا جب تک ملک کے اندر اسلامی
قانون کا نفاز نہیں ہو جاتا جب محمد بن قاسم حکمران آئے گا تو ملک کے ملک
فتح ہو نگے مگر ہم کس طرح محمد بن قاسم ،صلاح الدین ایوبی ،غوری ،غزنوی کو
ملک کی بھاگ ڈور تھمائیں یہ ناممکن بھی ہے اور انتہائی سہل بھی جب تک پولنگ
سٹیشن ویران نہیں ہونگے تب تک انقلاب نہیں آسکتا ہم بار بار ان ہی لوگوں کو
کیوں منتخب کرتے ہیں جو نہ ملک سے مخلص ہیں اور نہ دین اسلام سے ہم وعدہ
کریں کسی اسلام دشمن کو ہم ووٹ نہیں دیں گئے اس کے بعد ہم دوران الیکشن
ایسے الیکشنوں کا بائیکاٹ کریں جس میں ہمارئے اسلام و ملک کے لیے محمد بن
قاسم نہ ہو تو ایک بار عوام الیکشن کا بائیکاٹ کریں پالنگ سٹیشن ویرانی کا
منظر پیش کریں تو آئیندہ دو الیکشنوں کے دوران ہم میں ایمانی جذبہ رکھنے
والے پیدا ہونگے اس کے بعد آپ کے حقوق پہ کوئی ڈاکہ نہیں ڈال سکے گا ۔سب
برابر ہونگے یہ ابتدا کشمیریوں نے خود کرنی ہے اور اپنے گھر سے کرنی ہے
اپنے اپنے پولنگ سٹیشن سے کرنی ہے ۔ |