افغان قبیلے کی خوبی یہ ہے کہ وہ غاصب طبقے
کو دھونس اور جبر کے زور پر ان پر حکومت کر نے یازیر اثر لانے کے کسی بھی
طریقے کو قبول نہیں کرتے اوراپنے عقیدے اور رسم و رواج پر سمجھو تہ نہیں
کرتے۔جو اصول ان کے نزدیک درست ہیں ان میں رد وبدل کرنے پرتیار نہیں ہوتے ۔بنیادی
طور پر تو حید پرست دیندار اور سادہ رہن سہن کے عادی باپرد باحیاء نڈر
بہادراور پرعزم بے خوف موت کو زندگی کی ضمانت سمجھنے والے،اور فطری طور پر
کسی قوت کے سامنے نہ جھکنے والے۔قبائلی نظامِ زندگی کے عادی اور حصول انصاف
کے لئے جرگے کے فیصلو ں کو قبول کرنے اوران پر عمل کرنے کے پابند۔افغانو ں
کی جہادی ثقافت اور اسلحے کو اپنا زیور سمجھنا اور اس سے پیار رکھنا ان کے
دبدبے کو چار چاند لگا دیتا ہے۔یہ الگ بات ہے کہ قبائلی نظام میں کچھ
خرابیاں بھی ہوتی ہیں اور انسانی معاشرے میں خامیوں کا ہونا فطری ہوتا ہے
لیکن بحیثیت مجموعی افغانیوں کی صفات قابل رشک ہیں۔مہمان نوازی میں اپنی
مثال آپ ہیں اگر کسی سے کوئی معاہدہ کیا گیا ہو تو جب تک فریق ثانی معاہدے
کی خلاف ورزی نہ کر ے تو جان کی قیمت پر بھی معاہدے کی پابندی کی جاتی
ہے۔اگر کوئی پناہ میں آجائے تو گھر اور علاقہ تباہ بھی ہوجائے پناہ گزیں کو
پناہ سے نہیں نکالا جاتا۔ افغانیوں کا دینی کلچر اور جہادی مزاج یہود و
نصاریٰ کی آنکھوں کا کانٹا بن چکا ہے چونکہ افغانستان میں روس کے خلاف جہاد
میں بنیادی کر دارافغانیوں کاہے امریکا اور ناٹوپیکٹ نے عملی مشاہدہ کیا
ہوا ہے ۔جہاں یہود ونصاریٰ با لعموم مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگ میں مصروف
ہیں وہاں بالخصوص افغانوں کی نسل کشی کو ترجیح دے رہے ہیں تاکہ توحید پرستی
اور جہادی کلچر کو ختم کیا جائے۔یاد رہے کہ جب افغانستان سے روس پسپا ہوا
تو نیٹو کے سر براہ نے میٹنگ میں کہا تھاکہ ہم نے روس سے چھٹکارا حاصل کر
لیا ہے لیکن اب ہما را مقابلہ سب سے بڑے دشمن اسلام سے ہے جس کو بڑی حکمت
عملی سے ختم کرنا ہے۔جب نیوورلڈ آرڈر جاری ہوا اس کے تین نکات بہت اہم ہیں
جس میں مسلمان ممالک کے بارے میں حکمت عملی طے کی گئی ۔(۱) مسلمان مما لک
جن کی آبادی دو کروڑ تک ہو اس کو تقسیم کر دیا جائے اور اس کے لئے اندرونی
خلفشار پیدا کیا جائے اور ان ممالک سے کچھ لوگوں کو تلاش کرکے علحٰد گی کی
تربیت و تحریک دی جائے۔(۲) اندرونی خلفشار پیدا کرانے کے لئے علاقائی اور
فرقہ وارانہ تعصب کو پھیلا کر فسادات کو فروغ دینے کے لئے مدد فراہم کی
جائے(۳)ان مقاصد کے حصول کے لئے ان ممالک میں حکومتوں کا قیام اس انداز سے
کیا جائے جو مقاصد کی تکمیل کو آسان بنا پائیں اس کے لئے مسلما ن ممالک میں
مغربی کلچر کو پھیلا یا جائے اور اس کے لئے وہاں سے ہی آزاد منش سیکو لر
اور ضمیر فروش لوگوں کو خرید کر بے حیاء کلچر کو اتنا عام کیا جائے کہ
مسلمان اپنی شناخت بھول جائیں۔ اسی طرح دینی اور جہادی جزبے کو بزور طاقت
کچلا جائے۔انہی تین نکات پر عمل پیرا ہوکر تمام مسلم ممالک میں خلفشار پیدا
کیا ہوا ہے بے حیائی کا طوفان، فرقہ وارانہ فسادات علیحدگی پسندی کی
تحریکات کو پیدا کرکے مالی امداد فراہم کی جا رہی ہے مسلم ممالک میں مداخلت
کے ذریعے بے ضمیر اور سیکو لرز حکومتوں کا بنانا بگاڑنا ، اور اپنے مقاصد
کے حصول کے لئے ان حکومتوں کو استعمال کرنا اور انہیں کے ذریعے ملکوں کے
ٹکڑے کرا ئے جارہے ہیں ۔ بے حیائی کو انجیؤز کے ذریعے اور ثقافتی یلغار سے
مسلم تشخص کو ملیامیٹ کرکے رکھ دیا گیا ہے اس کے فروغ میں سیکو لر سیاسی
جماعتیں بے ضمیر پٹھو سیکو لر حکومتیں اور غیر ملکی ایجنسیاں ملوث ہیں۔جہاں
بے ضمیر حکومتوں نے یہود و نصاریٰ کا ساتھ دیا وہاں ملکوں کو ٹکڑوں میں
تقسیم کر دیا گیا ہے لیکن افغانستان میں حامد کار زئی جیسے غدار کی معاونت
کے باوجود نیٹو فورسز نہ تو افغا ن کلچر کو ختم کر سکیں اور نہ فتحیاب ہو
سکیں اس کی وجہ یہ ہے کہ جن لوگوں سے ان فورسز کامقابلہ ہے وہ اپنے اللہ پر
پورا بھروسہ کرنے والے عیش و تعیش میں پلنے والے یہود ہنود کی فورسز کے
مقابلے میں سوکھی روٹی پانی میں بھگو کر کھانے والے رات کو سادہ چادر زمین
پر بچھا کر آرام کی پر سکون نیند کرنے والے راتوں کو(یبیتون لربھم سجداً و
قیاماً)اپنے رب کے لئے سجدوں اور قیام میں گزار نے والے اور دنوں میں
مجاھدین فی سبیل اللہ والی زندگی جیسی حیثیت رکھتے ہیں۔نیو ورلڈآرڈر کے
تیسرے نکتے کے مطابق جہاں مجاھدین اپنے دفاع میں اٹھ کھڑے ہوتے ہیں وہاں کی
اینٹ سے اینٹ بجا دی جاتی ہے اور طرفہ تماشہ یہ ہے کہ خود انہیں کے ملکو ں
میں مزاحمت پر انہیں دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے اور بے ضمیر اور بکے ہوئے
حکمران اپنے ہی ملک کے باشندوں پر غیر ملکی ایجنڈے کی تکمیل کے لئے جنگ
مسلط کر دیتے ہیں۔چونکہ افغانستان میں افغانوں کو سر نگوں نہ کر سکنے کی
ناکامی کے بعد نیو وڑلڈ آرڈر کے تیسرے نکتے کے آخری حصّے پر عمل کرتے ہوئے
تحریک مزاحمت میں شریک افغانیوں کی نسل کشی کی ٹھان لی ہے اور اب افغانستان
سے اس مہم کو پاکستان کے افغانی علاقوں تک یہ کہ کر پھیلا دیا ہے کہ یہاں
دہشت گر دچھپے ہوئے ہیں اور پاکستانی حکمران مغربی آقاؤں کی خوشنودی اور
ڈالروں کے لئے اپنی دفاعی حصار افغان محب وطن لوگوں پر بمباری کر بھی رہے
ہیں اور ڈرون حملوں کے ذریعے نسل کشی کرار ہے ہیں جو یہودیوں کے پروگرام
کاحصّہ ہے۔ انگریزوں کو پتا ہے کہ بر صغیر میں دوسو سال حکومت کرنے کے
باوجود افغانوں کو اپنا مطیع نہ کر سکے بلکہ انہوں نے اپنے علاقوں سے راستہ
تک نہ دیا۔یہی وجہ ہے ان سے وہ بدلہ اب نئے انداز سے لیا جا رہا ہے لیکن یہ
ان کی بھول ہے جب تک ایک افغانی بھی زندہ ہے نہ تو اپنے د ینی کلچر پر
کمپرو مائز کر سکتا ہے اور نہ جھک سکتا ہے ۔پاکستانی حکومت کو اپنے ان
بھائیوں کی نسل کشی مہم سے نکلنا چاہئے اورمذاکرات کے ذریعے ان کے تحفظات
کو دور کرکے بلا تنخواہ رضاکار فوج کو بچانا چاہئے اور غیر ملکی ایجنڈے کی
تکمیل کی بجائے ملکی سلامتی پر توجہ دینی چاہئے۔افغان بھائی بھی افغان نسل
کشی کی غیر ملکی سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے مذاکرات کاراستہ اختیار کرتے
ہوئے اپنے آپ کو بھی اور ملک کو بھی بچائیں۔اللہ تعالیٰ دشمنوں کی سازشوں
سے پاکستان اور پاکستانیوں کو محفوظ فرمائے۔ |