ہمیشہ کی طرح اس بار بھی ملالہ
پر حملے کے بعد طالبان کی جانب سے حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا بیان ایک
غیرملکی نیوز چینل بی بی سی سے نشر ہوا۔پاکستانی طالبان ہوں یا افغانی ۔۔دونوں
میں ایک بات یکساں ہے کہ یہ اپنی حیوانیت ،اذیت رسانی کی فطرت کو جدید
ٹیکنالوجی(امریکی ساختہ) کے ذریعے فلمبند کرتے ہیں اور پھر ہمیشہ عالمی
ذرائع ابلاغ کے توسط سے اپنی کمینگی اور بزدلی کی تشہیر کرتے ہیں۔ ننانوے
فیصد طالبان اور القاعدہ کی خبریں غیر مسلم عالمی میڈیاکی جانب سے نشر یا
پرنٹ ہوتیں ہیں، جس سے ان فتنہ پروروں کی مغرب نوازی اور تعلق کا مکمل یقین
ہوتا ہے۔جبکہ دوسری طرف ہمارا کمرشل میڈیا پوری (دیانتداری)کے ساتھ ان
ویڈیوز کو اپنی عوام کو دیکھا کر انہیں شعوری طور پر خوفزدہ کرنے میں کوئی
کسر نہیں چھوڑتا ۔ایسا پہلی بار نہیں ہورہا۔آج سے قبل ایک لڑکی کو مارنے کی
ویڈیو بھی ہمارے سطحی سمجھ بوجھ رکھنے والے میڈیا نے اس تواتر سے چلائی تھی
کہ وہ جھوٹ سچ بن گیا۔کچھ عرصہ قبل تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو
تحریک طالبان کے سربراہ کی جانب سے دھمکی کی خبر جسے (عالمی خبر رساں
ایجنسی اے پی) نے شائع کی ، اس سے مجھے لامحالہ ایک دانشور صحافی کی وہ بات
یاد آگئی۔ وہ لکھتے ہیں کہ ”خواہ معاشرتی ہو یا سیاسی ،دنیا میں رہنے والی
ہر قوم نے عروج و زوال دیکھا ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ علمیت کا مقابلہ جب بھی
سطحیت سے ہوا ،فتح ہمیشہ سطحیت کی ہوئی۔یہ ایک کائناتی سچ ہے کہ معاشرے میں
رہنے والے افراد کا سطحی علم زیادہ خطرناک ہوتا ہے کیونکہ ایسے معاشرے میں
جھوٹ اور پروپیگنڈا بہت جلد جڑ پکڑتے ہیں جب کہ سچ کو ذلت اور سخت ترین
مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔“یہ خیالات ہیں ایک آسٹروی مسلمان صحافی کے
جس نے ہندوستان اور پاکستان کے معاشرتی وسیاسی حالات کے مشاہدے میں اپنی
زندگی کے پچیس قیمتی برس نذر کئے۔مغرب اور اسلام کے درمیان کشمکش کی جتنی
حقیقی تصویر انہوں نے پیش کی، کوئی دوسرا شاید ہی کرسکے۔دوسری جانب مقامی
صحافی براوین جان کو عالمی سطح پر ایک بے لاگ تجزیہ نگار کی حیثیت سے
پہنچانا جاتا ہے، وہ لکھتے ہیںکہ ایک غیر ملکی ٹی وی چینل کی خاتون اینکرنے
دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے موضوع پر ہونےو الے ایک تحقیقی ٹاک
شومیںمجھے لائیو کال پر مدعو کیا ہوا تھا۔دیگر مہمانوں اور تجزیہ نگاروں کے
ساتھ میں نے انسداد دہشت گردی جنگ پر اپنا نقطہ نظر بیان کیا جسے سن کر
میزبان خاتون نے حیرانگی اور تجسس کے ملے جلے جذبات کے ساتھ مجھے کہا کہ ”
طالبان اور القاعدہ کے حوالے سے آپکے خیالات انفرادیت کی انتہاہیں “۔جس پر
میرا جواب تھا، ” ایسا اس لئے ہے کہ آپ اور پوری دنیا کے لوگوں کے ذہن میں
یہ بات راسخ ہو چکی ہے کہ دنیا کو القاعدہ اور طالبان کی صورت میں ایک ایسے
خطرے کا سامنا ہے جس سے نمٹنے کے لئے ہمیں عالمی سطح پر ایک نہایت طاقتور
ریاست کی مدد کی ضرورت ہے۔اس پروپیگنڈے کو دنیا کی ہر قوم کے ذہن میں
بٹھانے کے لئے جدید معلوماتی ذرائع اور میڈیا کا بے دریغ استعمال کیا
گیا۔اس مقصد کے لئے تقریباََ پچیس برس قبل طویل المدتی منصوبہ بندی کی گئی
تھی جس کی رو سے ہماری دنیا کو ایک نفسیاتی پناہ گاہ اور اس میں بسنے والے
لوگوں کو(شیزو افیکٹو) نفسیاتی مریض قرار دیا گیا تھا۔اس پناہ گاہ میں
امریکی ماہرین نفسیات(عالمی امور پر دخیل امریکی ادارے) کے ذریعے اور
ایلومیناتی آ رڈرکے تحت لوگوں کے علاج کے نام پر انہیں جس( دوا) کو دینے کا
آغاز کیا گیا تھا اس کے اثر کے تحت دنیا کی کل آبادی کے تحت الشعور میں یہ
بات مکمل طورپر اور آسانی سے راسخ کی جاسکتی تھی کہ طالبان اور القاعدہ ہی
وہ خفیہ تنظیمیں ہیں جن کا مقصد شیطانی طرز زندگی کو دنیا پر مسلط کرنا ہے۔
یعنی ایک من گھڑت دشمن کا خیالی واہمہ پیدا کر کے دنیا کے خلاف اصل عالمی
سازش اور اس کے شیطان صفت سامراجی، سرمایہ کار آلہ کاروں کے کرتوتوں سے
توجہ منتشر کرنا تھا۔اس مقصد کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے مغربی فلم
ساز اداروں، نیوز کارپوریشنز، عالمی جرائد و رسائل میں ایک ہی پروپیگنڈے کو
اتنے تواتر کے ساتھ پیش کیا گیا کہ جھوٹ سچ نظر آنے لگا۔مسلم ممالک جو پہلے
ہی کئی نسلوں سے مغربی ترقی اوراس کی عمل داری سے مرعوب تھے،ان کے ذہنوں
میں یہ بات آسانی سے راسخ ہوگئی کہ طالبان اور القاعدہ کا دنیا میں وجود ہے
اور یہ دہشت گرد تنظیمیں دنیا پر بزورطاقت اسلام نافذ کرنا چاہتیں ہیں نیز
امریکہ اور مغربی ممالک سمیت پوری دنیا کو ان سے خطرہ لاحق ہے “۔گزشتہ دس
برسوں قبل جو بات میں نے سو فیصد یقین کے ساتھ کی تھی میں آج بھی اس پر
قائم ہوں اور رہوں گا کہ ۔۔۔ہماری دنیا میں نہ تو القاعدہ کا اور نہ ہی
طالبان کا وجود ہے۔صرف یہی نہیں بلکہ دنیا میں مسلمانوں کا ایک ہی دین ہے
جسے اسلام کہتے ہیں اس لئے انتہا پسند اسلام یا دہشت گرد اسلام کا بھی کوئی
وجود نہیں،یہ اصطلاحات سراسرمغربی میڈیا کا جھوٹ اور پروپیگنڈہ ہیں۔ ماضی
کی طرح ہمیشہ اس نظریئے کی تضحیک اڑائی گئی ، آئندہ بھی اسے مضحکہ خیز اور
دیوانے کی بڑھک سے زیادہ اہمیت نہیں دی جائے گی۔ آج بھی جب مجھ سے استفسار
کیا جاتا ہے کہ اگر طالبان کا وجود نہیں ہے تو پھر کون ہے جو دنیا میں دہشت
گردی کی وارداتوں میں ملوث ہیں؟ میرا جواب ہوتا ہے کہ کیا لوگ بتا سکتے ہیں
کہ حقانی گروپ،کوئٹہ شوریٰ سمیت ملا عمر ، افغانی ، پاکستانی ، بامیان، اور
ازبک گروہوں میں سے کونساگروہ دراصل طالبان ہے جو دہشت گردی کی کارروائیوں
میں ملوث ہے یا پھر وہ واقعی اسلام کے دفاع پر مامور ہے۔اگر یہ کہا جائے کہ
یہ سب ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں تو پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ افغانستان
پر امریکی حملے سے قبل یہ سب کہاں تھے، ان کی کارروائیاں کہاں جاری تھیں
اور ان کے مقاصد کیا تھے اور امریکی حملے کے بعد ان سب کا اچانک ہدف امریکہ
کے بجائے پاکستان کیوں بن گیا؟دراصل ان تمام طالبان میں سے کسی کا اسلام سے
ادنیٰ سا بھی تعلق نہیں ہے اور ہو بھی کیسے سکتا ہے کہ جبکہ ان کا کنٹرول ،
سی آئی اے، موساد، را، خاد، کے جی بی سمیت کم سن مغربی خفیہ ایجنسیوں کے
ہاتھوں میں ہے، جنہوں نے ان سب تنظیموں کی مختلف ادوار میں تاسیس کی اور
اپنے جیکلز کو آج سے پچیس برس قبل افغانستا ن میں اتارا، انہیں اسلام قبول
کرنے کی ہدایت کے ساتھ، عیسائیوں اور مغرب کے خلاف مسلمانوں کا ساتھ دینے
کی بھرپور ترغیب دی گئی ۔نائن الیون اور امریکی حملے سے تقریباََ نو برس
قبل افغانستان میں حنفی اسکول آف تھاٹ کے سیاہ پوش اسلام پسندوں کا نام
طالبان رکھا گیا جن کی اکثریت دیوبند اور بریلوی مسلک سے تھی اور جو خود
وہاں آپس میں ایک دوسرے سے گتھم گتھا تھے اور اقتدار کی خاطرایک دوسرے کی
گردنیں مارنے پر تلے ہوئے تھے۔ اس دوران ان کی مکمل خبر گیری رکھی گئی پھر
ایک خاص وقت پر نائن الیون برپا کر کے ان فسادی سیاہ پوش نام نہاد اسلام
پسندوں کے خلاف مغربی اتحادنے یلغار کردی۔دیگر جتھوں کو بھاری رشوت اور
ہتھیار فراہم کرکے ایک بڑا گروپ تشکیل دیا گیا جسے شمالی اتحاد کا نام دیا
گیا اور بعد ازاں مغرب کی جانب سے طالبان سمیت کوئٹہ شوریٰ اور ایسی دیگر
نئی اصطلاحات وقت کے ساتھ ساتھ متعارف کروائیں گئیں جن کی موجودگی کا ہر آن
جاری غلغلہ سنا کر پاکستان کے خلاف گھیرا تنگ کیا جاتا رہا ہے۔اسامہ بن
لادن افغان فسادی سیاہ پوشوں کی سازشوں سے، عدم تعاون کے باعث مایوس ہو کر
گوشہ گمنامی اختیار کر چکے تھے اور وہ نہ صرف اپنے عزم سے دستبردار ہو چکے
تھے بلکہ ان کارروائیوں سے بھی الگ ہو چکے تھے جو مغرب کی اسلام کے خلاف
جاری درپردہ سازشوں کے دفاع میں کی جانی تھیں تاہم اس کے باوجود انہیں
افغانستان پر امریکی حملے سے لے کر ایبٹ آباد واقعے تک قصداََ زندہ رکھا
گیا جس کے لئے میڈیا اور فلم ساز اداروں کا بھرپور استعمال کیا گیا اور آج
تک اس کا استعمال جاری ہے۔ستر فیصد حصے پر کنٹرول رکھنے والے طالبان جو
افغانستان پر حکومت کے بعد اب حجاز مقدس کی تحویل اور سلفیوں پر غلبہ پانے
کی ڈینگیں مار رہے تھے، ان کی جگہ مکمل طور سے مغربی خفیہ ایجنسیوں کے
کنٹرولڈ تربیت یافتہ طالبان نے لے لی جو بظاہر خود کو اسلام کا رکھوالا
گردانتے ہیں مگر۔۔۔۔ان کی کارروائیاں دراصل۔۔۔(خاص وقتوں)میں خاص مقامات پر
محب وطن پاکستانیوں کے خلاف اورپاکستانی سالمیت کو نقصان اور اسے کمزور
کرنے کے لئے ہوتیں ہیں۔اسلامی تاریخ میں مسلم اقوام کی جنگ عیسائیوں سے ہو
یا مسند اقتدار کے حصول کے لئے ۔۔۔غالب مغلوب کا سر ہمیشہ تن سے یک لخت جدا
کرتا تھا۔مگراپنے مخالف کو اذیت دے کر( ذبح) کرنا ، اس کی لاش کی بے حرمتی
کرنا یہاں تک کہ گوشت کو کچا کھا جانا، یہ صلیبی عیسائیوں کا خاص شیوا ہے
جو تاریخ سے ثابت ہے۔ہمیں بیت المقدس پر عیسائیوں کا قبضہ نہیں بھولنا
چاہیے جس میں صلیبیوں نے مسلمانوں کو (ذبح )کیا ، بچوں ، عورتوں اور بوڑھوں
تک کو نہ بخشا گیا اور جن کے خون سے گھوڑوں کے گھٹنے تک ڈوب گئے ۔صلیبیوں
کی سازشوں کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں کیونکہ ان کا طریقہ آج بھی وہی ہے جو
ماضی میں تھا۔(وہ آج بھی (زمین کے مرکز) تک پہنچنا چاہتے ہیں جس کے لئے
انہوں نے اس بارانتہائی گہری سرنگ کھودنے کا کام شروع کررکھا ہے) طالبان کا
صرف مسلمان سپاہیوں،مزدوروں کو اغواءکرکے (ذبح )کرنا اور نہتے عوام کو خود
کش حملوں سے نشانہ بنانا ،اس کی ویڈیو بنا کر چار عالم دانگ میں اس کی
تشہیر کرنا ، دراصل وہی طریقہ واردات ہے جو صلیبیوں کا ہمیشہ سے رہا ہے۔کیا
ہم کیوبن آزادی کے کمیونسٹ ہیرو ’چے گے وارا ‘ کو بھول گئے جسے سی آئی اے
نے گرفتار کر کے اسکے دونوں ہاتھوں اور پاﺅں کو کاٹ کر اپنی سفاکیت کا
مظاہرہ کیا۔کیا ہمیں اسکاٹ لینڈ کی آزادی کا ہیرو یاد نہیں جسے برطانیہ نے
گرفتار کرکے (ذبح )کیا، پھر اس کے جسم کے چار ٹکڑے کر کے اسکاٹ لینڈ کے
چاروں کونوں میں بھجوا دیئے تاکہ کسی دوسرے کو حق کی آواز بلند کرنے کی ہمت
نہ رہے۔مغرب اور اسلام کے درمیان جنگ میں مغربی طالبانی بھروپیئے خود کو
مسلمان اور پاکستان کو دہشت گردی کا مرکز ثابت کرررہے ہیں اور اپنی
کارروائیوں سے اسلام کو بدنام اور جہاد کے نام پر اسلام کو مٹانے کے لئے
اپنے ہی بھائی بندوں(واشنگٹن) کو جواز فراہم کرررہے ہیں۔امریکہ نے کمیونزم
کو خوفناک بلا ثابت کر کے سوویت یونین کے خلاف فتح حاصل کی تھی ،عراق کو
مہلک ہتھیار رکھنے والی ریاست جتا کر ۔۔۔اور اب گزشتہ دو عشروں سے زائد ایک
منصوبے کے تحت جہاد کو ایک بھیانک حقیقت جتلا کر دنیا کو اسلام کے خلاف
اپنا ہم نوا بنا چکا ہے، جس میں مسلم ممالک کی بھی اکثریت شامل ہے۔اگر ان
باتوں کے باوجود بھی اگر کوئی طالبان کے بارے میں تذبذب کا شکار ررہے توپھر
وہ یہ جاننے کی کوشش کرے کہ 2009میں کوئٹہ شوریٰ کے حوالے سے سب سے اولین
خبر کونسی تھی، اسکی بائی لائن کیا تھی اور اس تنظیم کے نام کی خبر کس
عالمی خبر رساں ایجنسی نے سب سے پہلے دی تھی۔اس نقطہ نظر کو سمجھنے کے لئے
یہ معلومات طالبان کو پہنچاننے کا نقطہ آغاز ہوگی- |