ملالہ میری بھی بیٹی ہے

ظہور اسلام سے قبل ایک وقت تھا جب عرب کے جاہل اور ظالم لوگ اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کردیا کرتے تھے اور پھر جب محمد عربی ﷺ کی نبوت کا جھنڈا لہرایا تو آنحضور ﷺ نے نہ صرف بچیوں کے قتل سے منع فرمایا بلکہ شریعت مطہرہ نے بیٹیوں کو وراثت کا حق بھی دیا۔ علم حاصل کرنا مسلمان عورتوں اور مردوں پر لازم ٹھہرایا گیا۔ خاتون چاہے وہ بیٹی ہو، بہن ہو، بیوی ہو یا ماں ہو، شریعت محمدی ﷺ میں اس کے حقوق مسلمہ ہیں۔ تقریباً ہم سب کی مائیں بھی ہیں، بہنیں بھی، بیویاں بھی اور بیٹیاں بھی۔ ماں کے قدموں تلے جنت رکھ کر اللہ نے اسے ایک الگ ہی سرفراز مقام دیدیا ، بیوی کے اپنے خاوند پر حقوق کا تحفظ اسلام نے بہت زور دے کر کیا اور رہ گئی بات بہن اور بیٹی کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے حقوق کے ساتھ ساتھ مردوں میں ان کی محبت بھی کوٹ کوٹ کر بھردی۔ بہن یا بیٹی، بات ایک ہی ہے، صرف سوچ کا فرق ہے۔ ہم میں سے اکثر لوگ اسی سوچ کے تحت اپنی بڑی بہنوں کو بھی بیٹی کہہ کر بلاتے ہیں۔ ایک باپ کو اپنی بیٹی سے بیٹے کی نسبت زیادہ محبت ہوتی ہے اور اکثر بیٹیاں اپنی جوابی محبت، خلوص اور ریا سے پاک خدمت کی وجہ سے باپ کی لاڈلی اور آنکھوں کی روشنی ہوتی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ”ملالہ“بھی ہماری بیٹی ہے، اس ملک کی بیٹی ہے، دختر پاکستان ہے، اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ وہ ہمیں بہت لاڈلی ہے، پیاری ہے، ملالہ اور اس کے ساتھ محو سفر بچیوں پر جس کسی نے بھی ظلم کا پہاڑ ڈھایا ، روز قیامت بھی وہ اللہ تعالیٰ سے سزا کا حق دار ٹھہرے گا اور انشاءاللہ اس دنیا میں بھی اس کو عبرتناک سزا ضرور ملے گی۔ پوری قوم کی دعائیں، ہمدردیاں اور محبتیں اپنی زخمی بیٹیوں کے لئے ہیں اور پوری قوم ان کے ساتھ کھڑی ہے، دکھ کی اس گھڑی میں ان کے والدین کے ساتھ شانہ بشانہ ہے۔ پاکستان کا شائد ہی کوئی ایسا فرد ہو جس نے ملالہ اور دیگر دو بچیوں کے ساتھ اس وحشیانہ سلوک کی مذمت نہ کی ہو اور جس نے اپنے دل میں اس کا درد محسوس نہ کیا ہو، میں بذات خود جب بھی ملالہ کی ہنستی مسکراتی تصویر ٹی وی چینلز پر یا اخبارات پر دیکھتا ہوں ، اس کے ساتھ ہونے والے ظلم کے بارے میں سوچتا ہوں تو مجھے اپنی بیٹیوں فاطمہ اور زینب کا خیال آتا ہے کہ جس طرح میرے لئے فاطمہ اور زینب ہیں اسی طرح ملالہ اور دوسری دو بچیوں کے والدین کے لئے ان کی بیٹیاں عزیز ہیں اور اسی طرح وہ بیٹیاں بھی ان والدین کوبہت عزیز ہوتی ہیں جو حکومت پاکستان اور افواج پاکستان کی مرضی و منشاءسے ہونےوالے ڈرون حملوں میں شہید کر دی جاتی ہیں، جن کی تدفین بھی اس لئے نہیں ہو پاتی کے ان کے جسمانی اعضاءہی نہیں ملتے، صرف لوتھڑے ملتے ہیں۔ مجھے وہ بیٹیاں بھی عزیز ہیں جو روزانہ کی بنیاد پر اس نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کا لقمہ بن جاتی ہیں، مجھے وہ بیٹیاں بھی عزیز ہیں جو الطاف حسین کے قبضے والے شہر میں روزانہ بے موت ماری جاتی ہیں یا یتیم کردی جاتی ہیں اور پھر ساری عمر ایک روگ کو اپنے سینے کے ساتھ لگائے، آنسوﺅں کی رم جھم میں بسر کرتی ہیں۔ وہ بھی میری ہی بیٹیاں ہیں، اس ملک اور قوم کی دختران ہیں، جن کے نہ تو کوئی آنسو پونچھتا ہے، نہ کوئی ان کے زخموں پر پھاہے رکھتا ہے اور نہ کوئی ان کا پرسان حال ہوتا ہے۔

میں اس قوم کی ہونہار بیٹی ملالہ یوسف زئی اور اس کی ساتھی طالبات پرہونے والی بربریت کی بھرپور مذمت کرتا ہوں، اس لئے نہیں کہ یہ لندن والے بزرگ کا حکم ہے اور نہ ہی میں کوئی عالم دین ہوں، بلکہ میں اپنے دل میں اس کا درد محسوس کرتے ہوئے مذمت کرتا ہوں ۔ آج اسی سلسلے میں لندن سے ایک حکم آیا بلکہ ”تڑی“ آئی ہے کہ علمائے کرام اور مفتیان عظام ملالہ پر حملے کی مذمت کریں ورنہ لندن والے مجبور ہوجائیں گے کہ علمائے کرام کے بارے میں ”شیریں بیانی“کریں، بھائی صاحب! جب سارا ملک اس کی مذمت کررہا ہے، اپنی بیٹیوں کے لئے دعائیں کررہا ہے، میڈیا میں ہر لمحے ہماری بیٹی ملالہ کی خبریں آرہی ہیںتو ایسی دھمکی کی کیا ضرورت تھی؟کیا ہی اچھا ہوتا کہ آپ ساتھ ہی ان علمائے کرام اور مفتیان سے اس بابت بھی فتویٰ مانگ لیتے کہ ہماری حکومت ،فوج ، ایم کیو ایم سمیت تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کی کھلے عام اور درون خانہ مرضی سے ہونے والے ڈرون حملوں میں جب لوگ اور جو اس ملک کی بیٹیاں شہید ہوتی ہیں تو اس کا اسلام میں کیا مقام ہے، کیا ان ڈرون حملوں کی اجازت دینا حلال ہے یا حرام؟ اگر حرام ہے تو ہماری حکومت، فوج اور سیاسی جماعتیں جو امریکہ کے سامنے سجدہ ریز ہیں ، ایسی صورت حال میں ان کے ایمانوں کا کیا حال ہوگا؟ روز قیامت وہ کس منہ سے اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہوں گے؟

میں ہرگز ملالہ کے ساتھ ہونے والے ظلم اور ڈرون حملوں میں شہید ہونے والوں کا تقابل نہیں کررہا اور نہ ہی کوئی مقابلہ بنتا ہے لیکن کیا کروں کہ جب بھی ملالہ کا سوچتا ہوں تو میری وہ بیٹیاں بھی آنکھوں کے سامنے آجاتی ہیں جن کے نہ تو کوئی ناموں سے واقف ہے، نہ کوئی ان کے ٹکڑے گن پایا اور نہ ان کا جرم بتایا جاتا ہے....ملالہ میری بھی بیٹی ہے لیکن وہ بھی تو میری بیٹیاں ہیں، ان کو مرنے کی اتنی آزادی کیوں؟ ان کے لئے کیوں فتوے نہیں مانگے جاتے؟ کیوں ان کی موت پر کسی کی آنکھ پرنم نہیں ہوتی؟ کیوں ان کو مارنے والوں کو سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے؟ کیا اگر امریکہ کے کسی علاقے میں دہشت گردوں کا پتہ چلے تو وہاں بم مارا جاسکتا ہے؟ یا صرف پاکستان کے علاوہ کونسا ایسا ملک ہے جہاں ایسی بربریت کی اجازت دی جاتی ہے؟ یقینا ایسا ملک آپ کو دنیا کے نقشے پر نظر نہیں آئے گا، رہی بات ”طالبان“ یا ”ظالمان“ کی تو یہ کارروائی یقینا ”ظالمان“ کی طرف سے کئی گئی ہے، یہ وہی لوگ ہیں جو ریمنڈ ڈیوس اور اس جیسے امریکی ایجنٹوں نے بھرتی کئے تھے، کوئی مسلمان کسی نہتے پر ہتھیار نہیں اٹھاتا اور پھر بچیوں پر، ایسا ممکن ہی نہیں کہ یہ کام ان لوگوں کا ہو جو امریکہ سے برسرپیکار ہیں، یہ کام یقینا ان لوگوں کا ہے جو اسلام کو بدنام کرنا چاہتے ہیں اوریہ کام یقینا ان ایجنٹوں کا ہے جو یہودیوں سے تنخواہیں وصول کرتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ اصل طالبان یا وہ لوگ جو افغانستان میں امریکہ سے جنگ لڑ رہے ہیں، ان کا میڈیا نے مکمل بائیکاٹ کررکھا ہے کیونکہ امریکہ بہادر نے اس کا حکم دیا ہوا ہے، ہمارا میڈیا اللہ کا حکم تو ماننے سے انکار کرسکتا ہے لیکن امریکہ کا نہیں.... ہرگز نہیں!

اللہ تعالیٰ کی ذات ملالہ اور باقی دونوں بچیوں کو مکمل صحت یاب کرے اور ان کو پاکستان کے لئے اثاثہ بنا دے، ساتھ یہ دعا بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری ان بیٹیوں کو بھی جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے جو ڈرون حملوں میں ناحق شہید کردی گئیں، اللہ تعالیٰ یا تو ہمارے حکمرانوں ، جرنیلوںاور سیاسی و مذہبی زعماءکو ہدائت نصیب فرمائے کہ وہ حق بات کہہ سکیں اور اس کے لئے لڑ سکیں یا ان کو نشان عبرت بنا دے کہ جو اللہ کی نہیں مانتے اور جو اپنے بھائیوں کا گلا کاٹنے میں مددگار و معاون بن رہے ہیں، ان کو نشان عبرت بننا ہی چاہئے.... (آمین)
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 206711 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.