پچھلے دنوں سے جو خبر سب سے
زیادہ سنائی دے رہی ہے وہ ملالہ پر قاتلانہ حملے کے حوالے سے ہے نا صرف
پاکستان بلکہ عالمی سظح پراس واقعے کی بھرپور مذمت کی گئی اور ہونی بھی
چاہئے۔پاکستان کے صدر وزیرآعظم سمیت تمام اہم سیاسی رہنماؤں نےحسب معمول
مذمتی بیانات دے کر اپنا فرض ادا کر دیا۔ملالہ کی صحتیابی کے لیے پوری قوم
کی طرح ہم بھی دعا گو ہیں۔اصل بات یہ ہے کے یہ واقعہ کیوں پیش آیا کس نے
ملالہ پر قاتلانہ حملہ کیا اور اس قاتلانہ حملے کے لئے اس معصوم بچی کا
انتخاب کیوں کیا گیا۔یہ ایک انتہائی اہم سوال ہے۔ہمارے حکمرانوں کو سوچنا
چاہئے کہ اس واقعے سے ہمیں کیا پیغام دیا گیا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ
واقعہ انتائی افسوسناک اور قابل مذمت ہے لیکن میرے خیال میں ملالہ کے اس
حالت میں پہنچنے کے ذمہ دار ہم سب ہیں ہماری دوغلی حکومت ہماری بےلگام
میڈیا ہماری فوج عوام غرض پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام ہم سب اس واقعے کے
ذمہ دار ہیں اس لیے کے ملالہ کوئی پہلی بچی نہیں جس کے ساتھ یہ واقعہ ہوا
اس پہلے پچھلے چند سالوں میں ہمارے ملک کے سینکڑوں کی تعداد میں ایسے معصوم
بچے دہشت گردی کےشکار ہوئے لیکن چونکہ وہ صرف بچے تھے ان کی کوئی عالمی
پہچان نہیں تھی اس لیئے ان بچوں کو نہ میڈیا نے کوئی کوریج دی نہ حکومت کو
کوئی فرق پڑا کیونکہ وہ صرف بچے تھے اگر حکومت ان بچوں کی حفاظت کا انتظام
کرتی ہماری میڈیا کو ان بچوں سے اتنی ہمداردی ہوتی کہ وہ ان واقعات کو بھی
اتنی اہمیت دیتی جتنی ملالہ کو دی گئی تو شاید آج ملالہ کی یہ حالت نہ
ہوتی۔مجھے حیرت ہوتی ہے کہ اگر ہم صرف ایک بچی کے ساتھ ہونے والے واقعے کو
اتنی اہمیت دے سکتے ہیں تو ان سینکڑوں بچوں کے قتل کو صرف ایک خبر کے طور
پر پڑھ کر کیوں بھول جاتے ہیں کیا وہ ان کے والدین کو کسی نے پوچھا کسی نے
کوئی تسلی تشفی کرائی اور کرتے بھی کیوں جب ان کے قتل کے زمہ دار ہی ہماری
قوم حکمران اور فوج ہو۔وزیرستان میں ٢٠٠٤ سے سینکڑوں ڈرون اٹیک ہوئے جن میں
ہزاروں خواتین اور معصوم بچے جن میں شیر خوار بچے بھی شامل ہیں لقمہ اجل بن
چکے ہیں اور بن رہے ہیں پاکستان پر ڈرون اٹیک ہماری حکومت کی مرضی سے ہورہے
ہیں تو ان بچوں کے قتل کی ذمہ دار بھی حکومت ہے ہماری میڈیا نے کبھی بھی اس
مسئلے کو سنجیدگی سے پیش نھیں کیا میڈیا بھی اس لحاظ سے مایوس کن ہے اور
ہماری فوج کے ہاتھوں سے بھی بےگناہ بچے اور خواتین قتل ہوئیں ہیں ۔آپ خود
اندازہ لگا لیں کہ اس باپ کی کیا حالت ہوگی جو اپنے اکلوتےبچے کےمستقبل کو
سنوارنے کے لئے دیار غیر میں محنت مزدوری کر رہا ہو اور اسے خبر ملے کے اس
کے اکلوتے ٨ سالہ بچے کو پاکستانی اپنے ملک اپنے وطن کی فوج نے گولیاں مار
کر شہید کر دیا اس کی ماں اس صدمے سے کومہ کی حالت میں ہے۔ایک دوسرے خاندان
نے اپنے جوان بیٹے کو وزیرستان سے بھیج کر پشاور میں یونورسٹی میں داخل
کرایا کے وہ وہاں اپنی تعلیم مکمل کرےوہ بد قسمت نوجوان چھٹیوں میں گھر
والوں سے ملنے آیا لیکن یہ ان کی اپنے والدین سے آکری ملاقات تھی وہ بھی
اپنے وظن کے محافظوں کے ھاتھوں سے محفوظ نہ رہ سکا۔ین جیسے ہزاروں واقعات
ہوچکے ہیں اور شاید کتنے ہونے ہیں ملالہ کو بھرپور کوریج دینے والی میڈیا
کیا ان بچوں کے بارے میں حقایئق تک جاننے کی کوشش نھی کر سکتی۔شاید ملالہ
پر حملہ پاکستانی قوم حکمرانوں فوج اور میڈیا کے لیے ایک پیغام ھو۔اللہ
تعالیٰ ملالہ اور پاکستان کے تمام معصوم بچوں کو اپنی حفظ و امان میں
رکھے،آمین |