علامہ مفتی محمد اخترؔ رضا قادری
برکاتی ازہری بریلوی عالمِ اسلام کی عظیم روحانی شخصیت ہیں ۔ علم و عمل ،زہد
و تقوا،استقامت علیٰ الدین ،خشیتِ الٰہی، اور عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم
میں آپ بلند مرتبہ پر فائز ہیں۔ آپ کی دینی و علمی،تبلیغی و تدریسی اور
تعلیمی و اصلاحی خدمات عالم گیر شہرت و وسعت رکھتی ہیں۔ آپ کی ولادت عشقِ
رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں طرۂ امتیاز رکھنے والے ’’خانوادۂ رضا‘‘میں۲۵؍
فروری ۱۹۴۲ء کو ہوئی ۔ امام احمد رضا بریلوی ، علامہ حسن رضا بریلوی،علامہ
حامد رضا بریلوی،علامہ مصطفی رضا نوریؔ بریلوی کی پُر نور امانتوں کے آپ
ایک سچے وارث و امیٖن اور جانشین ہیں۔ بریلی شریف سے ابتدائی تعلیم و تربیت
سے فارغ ہونے کے بعدآپ نے جامعہ ازہر ،مصر میں اعلا تعلیم سے فراغت پائی
اور گولڈ میڈلسٹ بھی رہے۔ علاوہ ازیں جامعہ ازہر کے سب سے ممتاز اعزاز
’’فخرِ ازہر ایوارڈ‘‘ سے بھی آپ کو نوازا گیا۔
علامہ اخترؔرضا ازہری بریلوی بیک وقت عظیم محدث وفقیہ،مفکر و مدبر،ادیب و
خطیب،تصوف و ولایت کے دُرِّ نایاب،دعوت و تبلیغ کے آفتاب و ماہ تاب، رشد و
ہدایت کے گلِ خوش رنگ،اور بافیض معلم و مصلح ہونے کے ساتھ ساتھ مقبولِ
زمانہ نعتیہ کلام کے عمدہ اور مشہور و معروف نعت گو شاعر بھی ہیں۔ آپ کا
اشہبِ قلم نثر و نظم میں یکساں رواں دواں ہے۔ اردو کے علاوہ آپ کو عربی و
فارسی پر بھی عالمانہ و فاضلانہ دسترس حاصل ہے۔ آپ کی عربی دانی کو دیکھ
کر اہلِ زبان عش عش کر اُٹھتے ہیں ۔آپ کے علمی اثاثے میں ایک معتد بہٖ حصہ
عربی نثر و نظم پر مشتمل ہے۔آ پ کو اپنے اسلافِ کرام سے علوم و فنون اور
شریعت وطریقت کے ساتھ عشقِ نبوی علیہ الصلاۃ والتسلیم کی دولتِ عظمیٰ بھی
ملی۔عشقِ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم آ پ کو گھٹی میں پِلایا گیا۔ اسی
عشق کے اظہار کے لیے آپ نے نعتیہ شاعری کو وسیلہ بنایا اور اپنے
اجدادِعظام کی طرح دنیائے علم و ادب کو ’’سفینۂ بخشش‘‘ کے نام سے ایک گراں
قدر تحفہ عنایت کیا۔آپ کا مجموعۂ کلام’’سفینۂ بخشش‘‘ عشقِ رسولِ مقبول
صلی اللہ علیہ وسلم میں ڈوبی ہوئی نعتوں کا ایک حسیٖن و جمیل اور روح پرور
گل دستہ ہے۔جس میں مدحتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا عقیدت مندانہ بیان ہے
۔علامہ اخترؔرضا بریلوی کی نعت گوئی کو بھی دبستانِ بریلی کے دیگر شعر ا کی
طرح محض عشقِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے اظہار کا مرقع نہیں کہا
جاسکتا بل کہ آپ کا کلام فکر و فن،جذبہ و تخیل،زبان و بیان،فنی گیرائی و
گہرائی، جدتِ ادا،زورِ بیان ،حُسنِ کلام،تشبیہات و استعارات اور صنائع لفظی
و معنوی جیسے شعری و فنی محاسن کا آئینہ دار بھی ہے۔’’سفینۂ بخشش‘‘ سے
چیدہ چیدہ اشعار نشانِ خاطر ہوں ؎
عفو و عظمتِ خاکِ مدینہ کیا کہیے
اسی تراب کے صدقے ہے اعتداے فلک
اک اشارے سے کیا شق ماہِ تاباں آپ نے
مرحبا صد مرحبا صلِ علا شانِ جمال
گرمیِ محشر گنہ گارو ہے بس کچھ دیر کی
ابر بن کر چھائیں گے گیسوے سلطانِ جمال
جو تُو اے طائرِ جاں کام لیتا کچھ بھی ہمت سے
نظر بن کر پہنچ جاتے تجلی گاہِ سرور میں
خاکِ طیبہ کی طلب میں خاک ہو یہ زندگی
خاکِ طیبہ اچھی اپنی زندگی اچھی نہیں
زبان و بیان کی پختگی،ندرتِ خیال،جدتِ اظہار،اختصار و جامعیت،معانی
آفرینی،سنجیدگی و شگفتگی،اور برجستگی وغیرہ عناصر ایک اچھے اور خوب صورت
کلام کی خوبیاں ہیںجوکہ ’’سفینۂ بخشش‘‘کے اشعار میں بدرجۂ اتم موجود
ہیں۔یہ شعری خصوصیات ’’سفینۂ بخشش‘‘ کی نعتوں کو تاثیر کے جوہر سے آراستہ
و مزین کرتی ہیں۔حضرت اخترؔ رضا بریلوی نے حمدیہ و نعتیہ شاعری کے جملہ
لوازمات کی پاس داری کا مکمل اہتمام کیا ہے۔اسی طرح پاکیزہ اوصاف کے حامل
’’دبستانِ بریلی‘‘ کے جید شعراے کرام کے کلامِ بلاغت نظام کے گہرے مطالعہ
کی وجہ سے آپ کے کلام کی زیریں رَو میںفصاحت و بلاغت،حلاوت و ملاحت،حزم و
احتیاط،حُسنِ معنیٰ اورقادرالکلامی کا جو لہریں لیتا دریا موجزن ہے اُس میں
آپ اپنے اسلاف کے پر تَو نظر آتے ہیں ۔ ’’سفینۂ بخشش‘‘ کے نعتیہ کلام
میں جو گہرا فنی رچاو ہے وہ قاری و سامع کو دیر تک مسحور کیے رہتا ہے اور
انھیں ایک کیف آگیں لطف و مسرت سے سرشار کردیتا ہے ؎
جہاں بانی عطا کردیں بھری جنت ہبہ کردیں
نبی مختارِ کل ہیں جس کو جو چاہیں عطا کردیں
تبسم سے گماں گزرے شبِ تاریک پر دن کا
ضیاے رُخ سے دیواروں کو روشن آئینہ کردیں
دامنِ دل جو سوے یار کھنچا جاتا ہے
ہو نہ اس نے مجھے آج بُلایا ہوگا
سرفرازیِ ازال اُن کو مِلا کرتی ہے
نخوتِ سر جو ترے در پہ جھکا جاتے ہیں
اپنے در پر جو بُلائو تو بہت اچھا ہو
میری بگڑی جو بناؤ تو بہت اچھا ہو
گردشِ دَور نے پامال کیا مجھ کو حضور
اپنے قدموں میں سلاؤ تو بہت اچھا ہو
جہاں کی بگڑی اسی آستاں پہ بنتی ہے
میں کیوں نہ وقفِ درِ آں جناب ہوجاؤں
اختر رضا بریلوی کی شاعری تصوفانہ آہنگ کی عکاسی اور حالِ دل کی ترجمانی
کرنے میں جمالیاتی طرزِ اظہار لیے ہوئے ہے۔غزلیہ انداز میں تقدیسی شاعری
کرتے ہوئے آپ نے بڑی ادیبانہ مہارت اور عالمانہ ہنر مندی کا مظاہرہ کیا
ہے؛کہیں بھی لب و لہجہ بوجھل محسوس نہیں ہوتا اور نہ ہی شریعت ِ مطہرہ کے
تقاضوں کے بر عکس کوئی مضمون آپ کے کلام میں نظر آتا ہے۔داخلیت یعنی عشقِ
رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں والہانہ وارفتگی کے ساتھ ساتھ بے ساختگی ،جذب
و کیف،نغمگی و موسیقیت ،سلاست و صفائی ،ترکیب سازی،پیکریت،اور سوز و گداز
جیسے اعلا ترین جوہر کلامِ اختر بریلوی میں پنہاں ہیں۔ جسے پڑھ کر اہلِ نقد
و نظر یقینا داد و تحسیٖن کے لیے مجبور ہوجائیں گے ؎
جس کی تنہائی میں وہ شمعِ شبستانی ہے
رشکِ صد بزم ہے اُس رندِ خرابات کی رات
پینے والے دیکھ پی کر آج اُن کی آنکھ سے
پھر یہ عالم ہوگا کہ خود کا پتا ملتا نہیں
مہرِ خاور پہ جمائے نہیں جمتی نظریں
وہ اگر جلوہ کریں کون تماشائی ہو
میری خلوت میں مزے انجمن آرائی کے
صدقے جاوں میں انیسِ شبِ تنہائی کے
دشتِ طیبہ میں گمادے مجھے اے جوشِ جنوں
خوب لینے دے مزے بادیہ پیمائی کے
شامِ تنہائی بنے رشکِ ہزاراں انجمن
یادِ جاناں دل میں یوں دھومیں مچائے خیر سے
چھوٹی بحور میں نعت گوئی کرتے ہوئے مؤثر پیرایۂ اظہار میں معانی آفرینی
، تراکیب، پیکریت، روانی اور نغمگی جیسے عناصر کے جوہر دکھانا آسان نہیں
۔مگر علامہ اخترؔ رضا بریلوی کو اس وصف میں بھی یدِ طولیٰ حاصل ہے ۔آپ کے
چھوٹی بحور پر مشتمل اشعار نہایت معنی خیز ہیں ۔ان میں پوشیدہ غنائیت قاری
وسامع کے قلب و ذہن کو براہِ راست متاثر کرتی ہے ؎
اے مکینِ گنبدِ خضرا سلام
اے شکیبِ ہر دلِ شیدا سلام
مصطفاے ذاتِ یکتا آپ ہیں
یک نے جس کو یک بنایا آپ ہیں
جانِ گلشن سے ہم نے منہ موڑا
اب کہاں وہ بہار کا عالم
ہر گھڑی وجد میں رہے اخترؔ
کیجیے اُس دیار کی باتیں
ہر گلِ گلسِتاں معطر ہے
جانِ گل زار کے پسینے سے
روے انور کے سامنے سورج
جیسے اک شمعِ صبح گاہی ہے
ہر عاشقِ رسول(ﷺ)یہ چاہتا ہے کہ اُسے دربارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم
کی زیارت سے شاد کامی حاصل ہوجائے اور وہ اپنی نظروں میں جمالِ جہاں آرائے
گنبدِ خضرا بسالے؛اخترؔ رضابریلوی نے کس درجہ حُسن و خوبی اور والہانہ
انداز میں اپنے سوزِ دروں کو پیش کیا ہے۔نشانِ خاطر ہو شہ پارہ ؎
داغِ فرقتِ طیبہ قلبِ مضمحل جاتا
کاش گنبدِ خضرا دیکھنے کو مِل جاتا
سبحان اللہ ! مصرعۂ ثانی ع
’’کاش گنبدِ خضرا دیکھنے کو مِل جاتا‘‘
کی بار بار تکرار کرنے کو جی چاہتا ہے ؛ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یہ صرف
اخترؔ رضا بریلوی کی آواز نہیں بل کہ ’’میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی
میرے دل میں ہے ‘‘کے مصداق ہر عاشق کی آوازہے۔
اور جب بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی حاضری کا مژدۂ جاں فزا
حاصل ہوگیا توقسمت کو گویا معراج مل گئی؛فرشِ گیتی سے اُٹھ کر عاشق فرازِ
عرش پر پہنچ گیا ۔دل کی بے قراریوں اور اضطراب کو ڈھارس بندھاتے ہوئے چشمِ
شوق کو آنسو نہیں؛بل کہ موتی لُٹانے کا پیغام دیتے ہوئے حضرت اخترؔ بریلوی
راقم ہیں ؎
سنبھل جا اے دلِ مضطر مدینہ آنے والاہے
لُٹا اے چشمِ تر گوہر مدینہ آنے والاہے
اور جب جمالِ سبز گنبد پیشِ نظر ہوگیا تو عاشق کا اندازِ والہانہ یو ں نکھر
کرسامنے آتا ہے ۔منظر کشی اور تصویریت کا حُسن متاثر کن ہے ؎
وہ چمکا گنبدِ خضرا وہ شہرِ پُرضیا آیا
ڈھلے اب نور میں پیکر مدینہ آنے والا ہے
مدینہ آگیا اب دیر کیا ہے صرف اتنی سی
تُو خالی کر یہ دل کا گھر مدینہ آنے والاہے
اخترؔ رضا بریلوی نے اپنی نعتوں کے ذریعہ عقیدہ و عقیدت ،فضائل و شمائلِ
نبوی اور محبت و اُلفتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاکیزہ اظہار کے ساتھ
سیرتِ طیبہ کے اہم گوشوں کو اجاگر کرنے کی سعی فرمائی ہے۔سنت و شریعت سے
دوری کی وجہ سے جو تباہی و بربادی ہمارا مقدر بنتے جارہی ہے اس کی طرف
اشارا کرتے ہوئے الحاد و بے دینی اور مغربی کلچر کی یلغار سے اُمتِ مسلمہ
کو دور رہنے کی تلقین بھی کی ہے۔ اور یہ بتایا ہے کہ نبیِ رحمت صلی اللہ
علیہ وسلم کی پاکیزہ زندگی پر عمل کرنا ،آپ کی تعظیم و توقیر اور آپ کے
اسوۂ حسنہ سے والہانہ ورافتگی ہی ہماری دنیوی اور اُخروی نجات کا وسیلۂ
عظمیٰ ہے۔کلامِ اخترؔ رضا بریلوی کے مطالعہ کے بعد ماننا پڑتا ہے کہ آپ کے
یہاں عصری حسّیت بھی نمایاں ہے جو ایک سچی شاعری کا توصیفی پہلو ہے؛اس لحاظ
سے ’’سفینۂ بخشش‘‘ کے شاعرِ محترم ہر اعتبار سے لائقِ تحسین و آفرین ہیں
؎
ریٖت آقا کی چھوڑ دی ہم نے
اپنی مہمان اب تباہی ہے
طوقِ تہذیبِ فرنگی توڑ ڈالو مومنو!
تیرگی انجام ہے یہ روشنی اچھی نہیں
عبث جاتا ہے تُو غیروں کی جانب
کہ بابِ رحمتِ رحماں یہیں ہے
فریبِ نفس میں ہمدم نہ آنا
بچے رہنا یہ مارِ آستیں ہے
الغرض علامہ اخترؔ رضا ازہری بریلوی کے موے قلم سے نکلے ہوئے نعتیہ نغمات
عقیدت و محبت کا مرقع ہونے کے ساتھ ساتھ شعریت کے بناؤسنگھار سے سجے سنورے
ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ آج عالمِ اسلام میں آپ کے کلام کی دھوم مچی ہوئی ہے
،دنیا بھر کے اہلِ عقیدت و محبت آپ کے نعتیہ اشعار کو ذوق و شو ق سے
گنگناتے ہیں ؛عالمی شہرت یافتہ نعت خواں حضرات بھی علامہ اخترؔ رضا بریلوی
کے نعتیہ کلام کی نغمگی و موسیقیت اور جذب و کیف سے عاشقانِ رسول کو لطف
اندوز کررہے ہیں ۔تاہم مقامِ حیرت و استعجاب ہے کہ عالمی مقبولیت کے حامل
اس عظیم نعت گو شاعر کا ادبی دنیا میں کہیںتذکرہ نہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا
ہے کہ ناقدینِ ادب کی تحریریں اس عظیم نعت گو شاعر کے ذکر سے عاری کیوں ؟
اس موقع پرپہنچ کر ڈاکٹر محمود حسن الٰہ آبادی کا یہ چشم کشا خیال پیش
کرنا غیر مناسب نہ ہوگا:
’’اسلام پسند شاعروں کی یہ بد نصیبی رہی ہے کہ اپنے بھی انہیں ایک محدود
فکر کا شاعر گردانتے ہیں ۔ادب اور فن کا جو وسیع کینوس ہے اس کی رنگ آمیزی
میں شاعر کی فکر کے عمق پر ان کی نگاہ نہیں جاتی۔ غیر تو ان سے اس لیے صرفِ
نظر کرتے ہیں کہ انہیں ایسی فکر کو ابھرنے سے روکنا ہوتا ہے۔اپنے بھی انہیں
مذہب اور اسلام کی اعلا قدروں کے ترجمان کی حیثیت سے پیش کرکے مطمئن ہوجاتے
ہیں۔ اردو کے دو عظیم شاعر حفیظ ؔمیرٹھی اور شفیقؔ جون پوری اسی تعصب کے
شکار رہے۔‘‘(اردو بک ری ویو جنوری تا مارچ ۲۰۰۹ء ص۴۱)
ڈاکٹر محمود حسن الٰہ آبادی کی یہ بات بالکل درست اور مبنی بر صداقت ہے
۔محض حفیظؔ میرٹھی اور شفیقؔ جون پوری ہی نہیں بلکہ حضرت رضاؔبرریلوی،
حسنؔرضا بریلوی، جمیلؔ بریلوی، نوریؔ بریلوی، اجملؔ سلطان پوری، رازؔالٰہ
آبادی،نظمی مارہروی جیسے کئی اہم شعرا بھی ہمارے ناقدین کے تعصب کا شکار
ہوئے ہیں۔ آخر کب تک اسلام پسند شاعروں اور ادیبوں سے ہمارے ناقدین گریز
کرتے رہیں گے؟ جب کہ فکر وفن ،زبان و بیان کی وسعت اور شعریت کے اعتبار سے
ان شاعروں اور ادیبوں نے زبان و ادب کی جو گراں قدر خدمت انجام دی ہے وہ
آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ٹی۔ایس ۔ایلیٹ کے نظریہ کے مطابق’’ شاعر کا
مقام و مرتبہ فن کے وسیع تناظر میں ہونا چاہیے‘‘۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تو
ہمارے ناقدین کواپنے تنقیدی رویّوں میں وسعت لاتے ہوئے نعتیہ ادب پر بھی
خامہ فرسائی کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ بھی ایک طرح سے
زبان و ادب اور لسانیات کی خدمت ہی ہوگی۔
علامہ اخترؔ رضا بریلوی جیسے عظیم نعت گو شاعر کی شعری کائنات پر اپنی طالب
علمانہ تبصراتی کاوش کو انہیں کے ایک شعر پر روکتا ہوں ؎
گوش بر آواز ہوں قدسی بھی اُس کے گیٖت پر
باغِ طیبہ میں جب اخترؔ گنگناے خیر سے
(ماہ نامہ سنی دنیا ،بریلی شریف جلد نمبر۱ ۳،شمارہ نمبر ۵ ،مئی
۲۰۱۱ئ،صفحہ۲۷/۳۱) |