مفکرِ اسلام علامہ قمرالزماں خاں
اعظمی دام ظلہ العالی دنیاے اسلام کے فعال اور متحرک مبلغ و داعی ہیں ۔
جنہیں اپنے کردار وعمل ، علم و یقین ، تدبر و تفکر، تقویٰ و طہارت ، سادگی
و متانت، تواضع و انکساری ، بصیرت و بصارت، حسنِ گفتار اور دل کش ودل آویز
طرزِ خطابت کے سبب پوری دنیا میں ہر دل عزیز اور مقبول و محبوب ہستیوں میں
شمار کیا جاتا ہے۔ آپ کی علمی، تبلیغی، اصلاحی خدمات اور ادبی قدر ومنزلت
سے انکار ممکن نہیں۔ موصوف نے برطانیہ کی سرزمین پر اسلامی تعلیمات کو جس
مستحکم انداز میں روشناس کرانے کی سعیِ بلیغ فرمائی ہے اور جس خوب صورتی سے
تبلیغِ دین کا کام انجام دے رہے ہیں وہ ہر اعتبار سے لائقِ ستایش اور قابلِ
تقلید ہے۔
علامہ قمرالزماں اعظمی صاحب کا تعلق ہندوستان کے تاریخی شہر اعظم گڑھ سے ہے
؛ جو علمی و ادبی اعتبار سے بڑا زرخیز ہے یہاں کی مٹی میں یہ خصوصیات رچی
بسی ہیں کہ ہر زمانے میں اس دھرتی میں دین و ملت کی قابلِ احترام شخصیات نے
جنم لیا ہے۔علامہ قمرالزماںاعظمی صاحب قبلہ ضلع اعظم گڑھ کے قصبہ خالص پور
میں ۲۳؍ مارچ ۱۹۴۶ء کو پیدا ہوئے ۔ والدین نے مکمل اسلامی طرز پر تربیت کا
فریضۂ خیر انجام دیا ۔ ابتدائی تعلیم کے بعد اعلا تعلیم جامعہ اشرفیہ
مبارک پور میں حاصل کی۔ جلالۃ العلم حضور حافظِ ملت علیہ الرحمہ کی فیض بخش
آغوشِ تربیت میں رہ کر علومِ دینیہ کی تکمیل کی ۔شہزادۂ اعلا حضرت حضور
مفتیِ اعظم علامہ مصطفی رضا نوریؔ بریلوی علیہ الرحمہ سے شرفِ بیعت حاصل
کیا۔ اور فیضانِ عزیزی و نوری کے زیرِ سایا آپ نے اپنا رہِ وارِ فکر تبلیغِ
دین ، تزکیۂ نفس اور طہارتِ قلبی کی طرف موڑا؛ اپنے مواعظِ حسنہ اور
ملفوظاتِ عظیمہ کے ذریعہ پوری دنیا میں آپ بے پناہ مقبول ہیں ۔ علامہ
قمرالزماںاعظمی صاحب کی ذات گوناگوں خصوصیات کا عطر مجموعہ ہے۔ آپ صاحبِ
قلم بھی ہیں اور شعلہ بیان مقرر بھی۔ مفکر و مدبر بھی اور بافیض معلم و
ادیب بھی ۔ ساتھ ہی ساتھ بلند پایہ شاعر بھی……
آپ کی شاعری کا مجموعہ ’’خیابانِ مدحت‘‘ کے نام سے مکتبۂ طیبہ ، سنی دعوتِ
اسلامی ممبئی کے زیراہتمام ۲۰۰۷ء میں طبع ہوکر منصہ شہود پر جلوہ گر ہوچکا
ہے ۔ اس مجموعۂ کلام میں حمد و مناجات، نعت و سلام اور مناقب و منظومات
شامل ہیں ۔ ۱۰۴؍ صفحات پر مشتمل یہ مجموعۂ کلام علامہ قمرالزماںاعظمی صاحب
کی وارداتِ قلبی کا اظہاریہ ہے ۔ اس میں شامل کلام میں شعر کی تینوں
خصوصیات سادگی، اصلیت اور جوش بہ درجۂ اتم موجود ہیں ۔ جو اس امر پر دلالت
کرتی ہیں کہ شاعرِ محترم کی فکر و نظر میں وسعت اور بانکپن ہے، اور یہ بھی
واضح ہو تا ہے کہ علامہ قمرالزماںاعظمی صاحب نے عشقِ رسول صلی اللہ علیہ
وسلم کے اظہار و بیان کے لیے اپنی شاعری کو محض عقیدت و محبت کا آئینہ دار
نہیں بنا یا ہے بل کہ آپ کے کلام میں شعری و فنی محاسن کی تہہ داریت ہے
جوکہ بڑی پُر کشش اور دل آویز ہے۔آپ کے شعروں میں داخلیت کا حسن اور
خارجیت کا پھیلا و دونوں موجود ہے۔ لفظیات میں تنوع اور بلا کی گہرائی و
گیرائی ہے ، آپ کا سلیقۂ بیان عمدہ اور دل نشین ہے جو قاری کو اپنی گرفت
میں لیتا ہوا نظر آتا ہے۔ عقیدت و محبت کے ساتھ شعریت اور فنی محاسن کی
سطح پر بھی آپ کے کلام میں ایک سچی اور باکمال شاعری کی جو خوب صورت
پرچھائیاں ابھرتی ہیں وہ متاثر کن اور بصیرت نواز ہیں ۔ ’’خیابانِ مدحت‘‘
سے چند اشعار نشانِ خاطر فرمائیں ؎
میں اڑ کے آؤں طوافِ حرمِ ناز کروں
بہ نامِ اذن ملیں مجھ کو با ل و پر آقا
تمہارے حسن کی خیرات مل گئی ورنہ
وجودِ ذرّہ کہاں اور آفتاب کہاں
قدم رنجہ جو فرمائیں تو گلشن میں بہار آئے
اگائے ہیں شجر امید کے مژگاں کی شبنم
تمہارے در سے نہ ملتی یقین کی دولت
گماں کے دشت میں پھرتا میں بے خبر تنہا
عروجِ آدمیت جن کی تعلیمات کا حاصل
ہے وجہِ افتخارِ دائمی اس در کی دربانی
یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ عشقِ رسول ﷺ ایمان کی شرطِ اولین بل کہ جانِ
ایمان ہے ؛ اور نعت گوئی اسی عشق کا اظہاریہ ہے اور یہ اظہاریہ جتنا زیادہ
پُرخلوص اور والہیت سے پُر ہوگا اتنا ہی اثر پذیر اور متاثر کن ہوگا ۔ لیکن
یہ بھی شرط ہے کہ نعت گوئی میں عشق رسول ﷺ کے اظہار و ابلاغ کے لیے صداقت و
سچائی اور حزم و احتیاط کا دامن ہاتھوں سے نہ چھوٹنے دیا جائے۔ من گھڑت اور
موضوع روایتوں ،بے باکانہ اندازِ بیان، غیر محتاط رویوں اور خیالات کی بے
راہ روی کا اس میں ذرا بھی دخل ہوگیا تو یہ شاعر کے لیے باعثِ نقصان ہے۔
’’خیابانِ مدحت‘‘ کے مطالعہ کے بعد یہ بات بڑے وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے
کہ علامہ قمرالزماں اعظمی صاحب کے یہاں نعت گوئی کی جملہ شرطیں بہ درجۂ
احسن پائی جاتی ہیں ، آپ نے جوکہا ہے ، وہی آپ کا روز و شب ہے۔ آپ نے
شاعرانہ حسن کے لیے لفظ و بیان کے جادو نہیںجگائے ہیں بل کہ ان کا حال اور
قال دونوں یک ساں ہے ۔ آپ کی شاعرانہ ریاضتیں اور فنی مشقتیں سلامِ عقیدت
پیش کرنے کی متقاضی ہیں ۔ ’’خیابانِ مدحت‘‘ کی شاعری دماغ کی شاعری نہیں بل
کہ دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی صداے محبت معلوم ہوتی ہے جو دلوں میں سوز و
ساز، روح میں کیف و سرور اور فکر میں بالیدگی وتازگی پیدا کرتی ہے۔ شاعرانہ
لطافتوں اور فنی دل آویزیوں سے آراستہ و مزین ’’خیابانِ مدحت ‘‘کے یہ
اشعار دیکھیں ؎
چشم محرومِ تماشا ہے مگر دل میں ہیں آپ
محفلِ زیست میں غائب بھی ہیں موجود بھی ہیں
وہ بلا جہت تھا معاینہ بلا کیف و کم تھا مشاہدہ
وہ تعینات سے بھی پرے ہر اک امتحاں سے گذر گئے
بخشا ہے تیرے درد نے اک کیفِ سروری
لذت کشید کرتے ہیں سوزِ نہاں سے ہم
جو پتھروں کو شعور بخشے جو سنگ ریزوں کو نور بخشے
جو تپتے صحراوں کو بھی گلشن بنا رہا ہے مرا نبی ہے
علامہ قمرالزماں اعظمی صاحب کا دل ہر لمحہ امتِ مسلمہ کی رو بہ زوال عظمتوں
اور رفعتوں پر تڑپتا رہتا ہے ۔ آپ کا یہ والہانہ سوزِ دروں اور دردِ جگر
خطبات و مواعظ سے تو جھلکتا ہی ہے ساتھ ہی آپ کے اشعار کی زیریں رَو میں
بھی آپ کا یہ احساس پنہاں نظر آتاہے ۔ آپ کی نعتوں میں عصری حسیت نمایاں
ہے جو اپنے جلو میں کچھ ایسے تجربات اور حقائق لیے ہوئے ہے جن سے صرفِ نظر
کرنا بیدار مغز ناقدین کے لیے ممکن نہیں ۔ انقلابِ امت اور اصلاحِ معاشرہ
کی سچی تڑپ اور لگن سے مملو آپ کاکلام براہِ راست درِ دل پر دستک دیتا ہے
۔ آپ نے امتِ مسلمہ کی ناگفتہ بہ صورتِ حال پر گریہ وزاری کرتے ہوئے اپنا
دردِ دل بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں پیش کیا ہے ۔ استغاثہ و
فریاد میں جو کربیہ آہنگ ہے وہ ہمیں بھی ایک عجیب کسک سے ہم کنار کرتا ہے
۔علامہ قمرالزماںاعظمی صاحب نے ایسے موقع پر بھی زبان و بیان میں شگفتگی
اور نغمگی پیدا کردی ہے جو لائقِ تحسین و آفرین ہے ؎
ہے تار تار قباے شرافتِ انساں
کرم کہ آج مصیبت میں ابنِ آدم ہے
وہ نینوا کی زمیں ہو کہ ساحتِ اقصیٰ
امیدوارِ کرم از رسولِ اکرم ہے
ہمارے اپنے طرزِ زندگی پر کفر خنداں ہے
مرے ہادی مسلماں کو شعورِ زندگی دیدیں
مسلماں منتشر ہے متحد ہے کفر کی دنیا
شہا مسلم کو ربط و اتحادِ باہمی دیدیں
کاش! امت کی قیادت کریں اب ایسے لوگ
آستینوں میں ہوں جن کے یدِ بیضا پنہاں
وہ نظر باعثِ تبدیلیِ قبلہ جو ہوئی
پھر اٹھادیں کہ بدل جائے نظامِ دوراں
علامہ قمرالزماں اعظمی صاحب کی شاعری کا ایک توصیفی پہلو یہ بھی ہے کہ آپ
نے مشکل زمینوں ، قافیوں اور ردیفوں کو شاعرانہ مہارت اور ادیبانہ چابک
دستی کے ساتھ نبھایا ہے۔ صنائع و بدائع، تشبیہات و استعارات ، محاورات و
ضرب الامثال، پیکرات اور تراکیب کے گل بوٹے کھلائے ہیں ۔ آپ کے اسلوبیاتی
اور لسانی حسن میں عربیت اور فارسیت کا گہرا رچاو چار چاند لگادیتا ہے ،
مشکل ردیفوں میں لکھی گئی چندنعتوں کے مطلعے خاطر نشین ہوں ؎
آپ حامد بھی ہیں حماد بھی محمود بھی ہیں
آپ شاہد بھی شہادت بھی ہیں مشہود بھی ہیں
حضور آپ کے در سے جو اشک بار چلے
سند نجات کی لے کر گناہ گار چلے
تمہارا عالمِ ایجاد میں جواب کہاں
یہ مہر و ماہ کہاں حسنِ لاجواب کہاں
ہر ایک بزم میں بے مثل و لاجواب ہوا
جو بارگاہِ رسالت سے فیض یاب ہوا
یہ میری آبلہ پائی یہ رہِ گذر تنہا
سہارا دے گی مجھے آپ کی نظر تنہا
میرے افکار ہوں محرومِ ضیا ناممکن
وہ سکھائیں نہ مجھے طرزِ ادا ناممکن
کہا جاتا ہے کہ بلیغ اور وسیع مفہوم کے اظہار میں ترکیبیں اہم رول ادا کرتی
ہیں ۔ علامہ قمرالزماںاعظمی صاحب کی لفظیات میں تراکیب اور اضافتوں کا جو
دل کش انداز ہے وہ آپ کی شاعری کو محض عقیدت و محبت کے اظہار کا وسیلہ
نہیں بل کہ ایک ستھری اور شفاف لب و لہجہ کی حامل اور زبان و بیان کے نئے
اور اچھوتے برتاو کا اشاریہ بھی بناتی ہے۔ ’’خیابانِ مدحت‘‘ میں نت نئی اور
عمدہ تراکیب کی جو فصلِ بہاری لہلہا رہی ہے اگر اس کا تجزیاتی محاکمہ کیا
جائے تو صفحات کے صفحات پُر کیے جاسکے ہیں ۔ یہاں چند مثالوں پر اکتفا کرتے
ہوئے ’’خیابانِ مدحت‘‘ کے براہِ راست مطالعہ کی دعوت دی جاتی ہے ؎
جبینِ عشق کے تابندہ گوہر
بساطِ زیست کے شہ کارِ اعظم
وہ نقشِ اولینِ کلکِ قدرت
نبوت اور رسالت کے وہ خاتم
غبارِ راہِ اقدس غازۂ روے تمدن ہے
غسالہ جن کے قدموں کا ہے آبِ روے انسانی
آپ کی جلوہ گری صبحِ سعیدِ انساں
آپ شہ کارِ خدا مطلعِ انوار ہیں آپ
صادق الوعد الامیں ہے ان کی ذات
نازشِ صدق و امانت ہیں حضور
صد کہکشاں غبارِ خرامِ رسول ہیں
سیاحِ لامکاں تو تنہا حضور ہیں
خسروے بزمِ قدسیاں نازش و فخرِ محرماں
آپ کی ذاتِ پاک ہے محرمِ رازِ کائنات
عالمِ قدس کے مکیں بزمِ وفا کے نازنیں
مفتخرِ زمانہ ہے آپ کی ذاتِ پُر صفات
علامہ قمرالزماں اعظمی صاحب کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے ان کے عقیدت
مندوں میں شامل ہوکر آپ کی نعت گوئی پر یہ چند سطریں لکھ کر میں دلی مسرت
محسوس کررہا ہوں ۔دعاہے کہ رب عزوجل رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقہ
و طفیل آپ کے سایۂ علمی کو تادیر سلامت رکھے (آمین بجاہِ الحبیب الامین
صلی اللہ علیہ وسلم)……
۲۹؍ ربیع الاول ۱۴۳۲ھ /۵؍ مارچ ۲۰۱۱ء بروز سنیچر(مشمولہ : تجلیاتِ
قمر:۲۰۱۱ئ، مطبوعہ ممبئی ص) ) |