ڈاکٹر ایک مقدس پیشہ ہے جس کی
مثال چند روز پہلے میں نے دیکھی اورجس نے مجھے یہ کالم لکھنے پر مجبور کیا۔
چند روز پہلے میری والدہ کی طبیعت کچھ ناساز تھی میں ان کو اپنے فیملی
ڈاکٹر کے کلینک پر لے کر گیاتو معلوم ہوا کے ڈاکٹر صاحب ہسپتال میں موجود
نہیں ہیں وہ اس وقت سرکاری ہسپتال میں ہیں۔میں اپنی والدہ کو کسی اور ڈاکٹر
کے پاس لے کر نہیں جا سکتا تھااس لیے میں ان کو تحصیل ہیڈ کواٹر پتوکی لے
گیا تا کہ ڈاکٹر دلدار محبوب سے چیک اپ کروایا جا سکے۔میں زندگی میں پہلی
بار سرکاری ہسپتال گیا اور ایک روپے میں پرچی بنوائی اوراس کے بعد ڈاکٹر
دلدار محبوب کے کمرے کا پوچھا تو بتایا گیا کہ وہ کمرہ نمبر دو میں ہیں۔ جب
میں والدہ کو لے کر کمرہ نمبر دو میں پہنچا تو کمرہ خالی تھا اور حاضری
رجسٹر میز پر پڑا تھا۔ میں نے حاضری رجسٹر کو دیکھنا شروع کر دیا۔ تمام
ڈاکٹرز کی حاضریاں لگی تھیں مگر کوئی بھی ڈاکٹر اپنے کمرے میں موجود نہیں
تھا جبکہ ابھی صبح کے ساڑھے نوبجے تھے۔ مجھے لوگوں کو دیکھ کربڑی حیرت ہوئی
کہ وہ کس طرح مارے مارے پھر رہے ہیں کہ ڈاکٹرز مل جائیں اور اپنے مریضوں کو
چیک کروا سکیں۔ میں بھی ڈاکٹر دلدار محبوب کو تلاش کرتے کرتے ایک کمرے میں
پہنچ گیااور ڈاکٹر صاحب کو کہا کہ مریض چیک کروانا ہے تو انہوں نے کہا میں
پانچ منٹ میں آرہا ہوں۔ میں باہر آگیااور انتظار میں بیٹھ گیا۔ پانچ منٹ
پھر دس منٹ اور پھر پندرہ سے بیس منٹ بھی گزر گئے لیکن ڈاکٹر صاحب باہر نہ
نکلے۔ میری والدہ کی حالت بگڑ رہی تھی تو وہ خود اٹھیں اور کمرے میں داخل
ہو گئیں اور ساتھ ساتھ میں بھی داخل ہو گیا تو ایک بڑی کرسی پر بیٹھے ہوئے
ڈاکٹرنے بدتمیزی شروع کر دی اور کہا کہ تم لوگ اندر کیوں آئے ہو ؟تمہاری
اتنی جرات۔ مجھ سے برداشت نہ ہوا میں ڈاکٹر کے قریب چلا گیا اور کہا کہ
تمیز سے بات کرو اور چلانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے بعد میں نے اپنا تعارف
کروایا۔ میں نے کہاکہ تم تمیز کے دائرے میں رہ کربات کرو تووہ کہنے لگا کہ
ہم میٹنگ کر رہے ہیں۔ میں نے کہا کہ اگر تم لوگ میٹنگ کر رہے ہو تو باہر
ڈسپلے کرو کہ میٹنگ ہو رہی ہے۔ اور تم لوگوں کو شرم آنی چاہیے کہ صبح کا
وقت ہے اور غریب عوام دور دراز سے اپنے مریضوں کو لے کر آئی ہے جو باہر
مارے مارے ادھر ادھر پھر رہے ہیں اور تم لوگ ادھر خوش گپیاں اورچائے پی رہے
ہو ۔ خیر ڈاکٹر دلدار محبوب اٹھے اور میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے کمرے سے باہر
لے گئے اور والدہ کا چیک اپ کیا اور نسخہ لکھ دیا اور کہا کہ ایمرجنسی سے
آکسیجن لگوا لو تا کہ سانس ٹھیک ہو جائے اتنے میں مریضوں کو ہجوم امڈآیا
اور ڈاکٹر صاحب سے فریاد کرنے لگے کہ ہمارے مریض کو بھی چیک کریں۔ لیکن
ڈاکٹر صاحب واپس اپنے کمرے میں تشریف لے گئے۔ میں والدہ کو لے کر ایمرجنسی
میں پہنچا تو کوئی نرس یا عملہ موجود نہیں تھا ۔ اچانک کو ئی جاننے والا مل
گیا اس نے آکسیجن لگوائی اور میں ہسپتال کے میڈیکل سٹور پر چلا گیا تو یہ
جان کر بھی حیرت ہوئی کہ اوردوائی تو بڑی دور کی بات ہے یہاں تو ایک
پیناڈول کی گولی بھی موجود نہیں، کوئی کف سیرپ تک بھی نہیں ہے۔ مجھے ایک
گولی کی ڈبی دے دی اور کہا کہ باقی کی دوائی آپ باہر سے خرید لیں۔ خیر میں
والدہ کو گھر چھوڑکر دوائی لینے کے لیے میڈیکل سٹور پر چلا گیا اور دوائی
لے لی ۔جو گولی کی ڈبی مجھے سرکاری ہسپتال کے میڈیکل سٹور سے ملی وہ بھی
غلط دوائی تھی جو کہ پین کلر تھی جبکہ ڈاکٹر نے الرجی کے لیے دوائی لکھی
تھی۔یہ سب کچھ دیکھ کر میں حیران ہوا کہ یہ سب کچھ ہم جیسے کالمسٹ کے ساتھ
ہو رہا ہے تو دوسرے اور غریب لوگوں کا کیا حشر ہوتا ہو گا۔ مجھے یہ سب کچھ
جاننے کے بعد سکون نہ ملا تو میں نے پتا کروایا کہ ہسپتال کی انتظامیاں
کہاں ہے اور مریضوں کو کیوں دوائی نہیں دیتیں اور اگر دیتی ہیں تو غلط کیوں
دیتی ہیں۔ تو پتا چلا کہ ہسپتال میں ہر قسم کی دوائی آتی ہے مگر وہ
انتظامیہ کی ملی بھگت کے ساتھ باہر سٹوروں پر چلی جاتی ہے۔ کوئی ڈاکٹر
ہسپتال نہیں آتا مگر حاضری لگ جاتی ہے اور اگر کوئی آبھی جائے تو وہ مریضوں
کو اپنے پرائیویٹ کلینک پر آنے کو کہتے ہیں۔ یہاں ایک اور بات بتاتا چلوں
کہ پرائیویٹ کلینک پر بھی کوئی علاج نہیں ہوتا صرف پیسے بٹورے جاتے ہیں ۔ان
ڈاکٹروں کو میڈیکل کمپنیز کی جانب سے مختلف پرکشش گفٹ پیک دیے جاتے ہیں کہ
ہماری دوائی لکھ کر دو گے تو ہم آپ کو فلاں فلاں گفٹ اور بمع فیملی ائیر
ٹکٹ بھی دیں گئے۔ لیکن اب تو نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ مختلف میڈیکل
کمپنیز ڈاکٹرز کے ساتھ معاہدہ کر لیتی ہیں کے اگر آپ ہماری دوائی لیکھ کر
دو گے تو ہم آپ کو چیک دیں گئے۔ اب ڈاکٹرز اپنے مفاد کے لیے اور چیک کے
لالچ میں مریضوں کو بلاوجہ دوائیاں لکھ کر دیتے ہیں۔ ہماری غریب عوام یہ
مہنگی دوائیاں خریدنے پر مجبورہوتے ہیں۔میری حکومت پاکستان سے درخواست ہے
کہ وہ ایسے ڈاکٹرز کے خلاف ایکشن لے اور ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے
کہ اے اللہ ان ڈاکٹرز کو نیک ہدایت دے جو کہتے ہیں کہ ڈاکٹر ایک مقدس پیشہ
ہے اور عبادت بھی ۔ |