”کتاب بینی“ ایک مشغلہ ہے
اور کوئی برا مشغلہ نہیں۔ بشرطیکہ یہی مشغلہ انسان کے حواس پر مسلط نہ
ہوجائے‘ اسے یادِ الہی اور فکرِ آخرت سے غافل نہ کر دے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ
نماز میں کھڑا ہوکر بھی کتابوں کی گتھیاں سلجھاتا رہے‘ اس کے قلب کی یکسوئی
پریشاں خیالی میںنہ بدل جائے او رانسان ”اللہ کے رنگ“ میں رنگنے کی بجائے
”کتابوں کے رنگ “ میں ہی نہ رنگتا چلا جائے۔ حیرت کی ضرورت نہیں‘ ایسا ہو
ہی جاتا ہے۔ انسان جس چیز کو اپنا اوڑھنا بچھونا بناتا ہے‘ اسی کے رنگ میں
رنگتا چلا جاتا ہے۔ اللہ کا رنگ یہ ہے کہ انسان کے دل کی کیفیات بدل جائیں‘
اب وہ نماز پڑھتے ہوئے کتابوں کو سوچنے کی بجائے کتابیں پڑھتے ہوئے نماز کے
شوق او رانتظار میں رہے گا‘ اس کا دل اللہ کے گھر اور اللہ کی یاد میں اٹکا
ہوا ہوگا‘ سجدہ کرے گا تو سر اٹھانے کو جی نہیں چاہے گا۔ آخرت کی فکر ہر
وقت اس پر مسلط ہوگی اور ہر دوسری فکر اس فکر کے آگے ہیچ ہوگی‘ جنت میں
یقینی گھر بنوانے کے لیے دن رات غلطاں وپیچاں رہے گااو راسی کے خواب دیکھے
گا۔ کھڑے ہوئے‘ بیٹھے ہوئے اور لیٹے ہوئے ہر حال میں یادِ الہی ا س کا
اوڑھنا بچھونا ہوگی۔ اسی میں اسے دل کا قرار ملے گا‘ قرآن کے آگے اسے ہر
کتاب کم تر نظر آئے گی‘ اسی کو پڑھنا سننا اس کی زندگی کا حاصل اور خلاصہ
بن جائے گا۔ معاف کیجئے‘ یہ تمہید میری مجبوری تھی۔ اس کے بغیر شاید میرے
ضمیر پر بوجھ رہ جاتا۔ کتابوں کے تعارف وتبصرہ سے زیادہ ضروری میری نظرمیں
یہ تمہید ہے او رجب بھی موقع ملے اس کو بیان کرنے سے نہیں چوکتا۔ اس کے لیے
معذرت خواہ ہوں۔ جب انسان کتابوں میں حد سے زیادہ منہمک ہوجائے تو ”اللہ کے
رنگ“ کی بجائے ”کتابوں کا رنگ“ اس پہ چڑھنے لگتا ہے او ر”روحانی عارضہ “
میں مبتلا ہوجاتا ہے۔چنانچہ بہت سے لوگ اس ”عارضہ ‘ ‘ میں مبتلا ہیں۔ یہ
میں نہیں کہہ رہا‘بڑے بڑے علماءنے کہا ہے جن میں ایک نام امام غزالی کا بھی
ہے۔ دیکھئے ان کی کتاب: احیاءعلوم الدین۔
بہرحال جو لوگ اس عارضہ میں مبتلا نہ ہوں او ر” کتاب بینی “ کا ذوق رکھتے
ہوں‘ ان کے لیے یہاں دو کتابوں کا تعارف پیش کرنا مقصود ہے۔ یہ کتابیں مجھے
کراچی سے جناب ملک نواز احمد اعوان نے ارسال کی ہیں‘ جن کے ساتھ آج تک میری
کوئی بالمشافہ ملاقات نہیں ہے۔ 2009ءمیں جب انہوں نے ناشر کے کہنے پر‘ میری
تحقیق وتعلیق کے ساتھ چھپنے والی شیخ عبدالحق محدث دہلوی کی کتاب
”الدرالفرید“ پر تبصرہ لکھا تو اس وقت سے ان کے ساتھ ٹیلیفونک تعلق قائم
ہوا جو اب تک قائم ہے۔وہ جب بھی میری کسی تحریر کو پسند کرتے ہیں تو فون
کرکے داد دیتے اور حوصلہ بڑھاتے ہیں۔ ان کی طرف سے اکثروبیشتر کچھ نہ کچھ
تحقیقی رسائل موصول ہوتے رہتے ہیں اور اب یہ ضخیم تحقیقی‘ معلوماتی اور فکر
انگیز کتابیں موصول ہوئی ہیں۔
ایک کتاب جس کا نام ”سیکولرزم۔مباحث اور مغالطے“ ہے ‘ یہ طارق جان کی تصنیف
ہے۔ڈاکٹر صفدر محمود ‘ ہارون الرشید اور اوریا مقبول جان جیسے معروف دانش
وروںنے اس پہ تبصرے لکھے ہیں۔ اس کتاب کی قدروقیمت کا اندازہ کرنے کے لیے
اوریا مقبول جان کے یہ الفاظ ملاحظہ کیجئے: ” اس قدر عرق ریزی او رجانفشانی
کا کام طارق جان نے کیا ہے کہ مجھ پر حیرت کا ایک جہان کھل گیا....“ساڑھے
چھ سو صفحات پر پھیلی یہ شان دار کتاب ( جہاں تک میں سمجھا ہوں ) ایک مستقل
کتاب کم او ردرحقیقت ان کے مختلف اوقات میں لکھے گئے مضامین اور مقالات کا
مجموعہ ہے۔ اصل میں یہ سب تحریریں انگلش میں تھیں۔ اردو کے قالب میں ڈھالنے
والے محب الحق صاحب زادہ نے اتنے کمال اور ہنرمند ی کا مظاہرہ کیا ہے کہ
کہیں بھی ترجمہ کا گمان نہیں ہوتا۔ سلاست ‘ لطافت ‘ روانی اور ادبی نکھار
اتنا کہ آدمی کھو کر رہ جائے۔ کاٹ دار لہجہ کے ساتھ ساتھ دلائل کی بہتات
ہے۔ کتاب ایک زندہ او ر”حاضر سروس“ موضوع پر لکھی گئی ہے۔ اسے ۶۲ ابواب میں
تقسیم کیا گیا ہے جن میں سے چند کے عنوانات یہ ہیں:
۱۔ بت پرستی کا نیا روپ سیکولرزم
۲۔ قرار دادِ مقاصد اور سیکولر مغالطے
۳۔سیکولر لابی‘ تاریخ اور اورنگ زیب عالمگیر
۴۔ سیکولر حلقے او راقبال
۵۔ محمد علی جناح کی سیکولر صورت گری
۶۔ قراردادِ مقاصد او رہمار ی صحافت
۷۔ میڈیا کو کتنا آزاد ہونا چاہئے
۸۔ انصاف کا طالب کشمیر ا و رپتھر دل اقوام متحدہ
۹۔ دعا او رسجدہ سے چڑ
آخری عنوان کے تحت جس طرح کے قلندرانہ مواد کی توقع تھی ‘ و ہ زیادہ نہ
ملا۔ تاہم ”مکھی مار تحقیقات“کے اس دور میں محنت سے لکھی گئی یہ کتاب دیکھ
کر اچھا لگا۔ طباعت کا معیار بہت اعلی ہے۔ امید ہے کہ” کتاب سرائے“ اور”
فضلی بک اسٹور“جیسے اداروں پہ دستیاب ہوگی۔
دوسری کتاب ”دہشت گردی۔ سیاست ومعیشت“ ہے جو ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کی کاوش
ہے۔ سعید الزمان صدیقی (سابق چیف جسٹس آف پاکستان) او روائس ایڈمرل (ر)
فیاض الرحمن ( سابق چیف آف اسٹاف پاکستان نیوی‘ سابق ریکٹر بحریہ یونیورسٹی
‘ اسلام آباد) نے اس پر تبصرہ لکھا ہے۔ مصنف کے ساتھ میرا پہلا تعارف ”جنگ“
میں چھپنے والے ان کے مضامین کے ذریعہ سے ہواتھا جو عموماً معیشت پر ان کے
ماہرانہ تجزیے ہوتے ہیں‘ مگر ان میں وہ اکثرو بیشتر دہشت گردی کے حوالہ سے
بھی اپنے نسبتاً معتدل افکار کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ چار سو صفحات کی اس
کتاب کو چار حصوں میں تقسم کیا گیا ہے۔ تیسرے حصہ میں ”جنگ“ کے اندر چھپنے
والے مضامین سے اہم نکات جمع کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ منتخب مضامین
بھی اس حصہ میں دیے گئے ہیں۔کتاب میں اعداد وشمار کے ساتھ جابجا بتایا گیا
ہے کہ کس طر ح ”وار آن ٹیرر“ کی شراکت نے پاکستانی معیشت کا بٹھا بٹھا دیا
ہے۔ موضوع سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے یہ ایک اچھی پیشکش ہے۔ رائل بک
کمپنی کراچی نے اسے عمدہ کاغذ پر شائع کیا ہے۔ |