اولیاے اسلام ڈائریکٹری ۔۔نقد و نظر

ڈاکٹر اشفاق انجم کی شخصیت علمی و ادبی دنیا میں محتاجِ تعارف نہیں ۔ آپ شاعر ، ادیب ، ناقد، محقق ، استاذ، مؤرخ اور صوفی کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ ایم ایس جی کالج ، مالیگاؤں میں شعبۂ اردو کی صدارت پر فائز رہتے ہوئے آپ نے طلبہ کی تعلیمی ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا اسی طرح پونہ یونی ورسٹی کے ریسرچ گائیڈ کے طور پر کئی طلبہ کو پی ایچ ڈی کے لیے رہِ نمائی کا فریضہ انجام دیا ۔فی الحال اے آے ٹی سینئر نائٹ کالج میں پرنسپل کے عہدے پر متمکن ہیں۔ اپنے دوستوں اور طلبہ میں جہاں آپ کی ذات پسندیدہ ہے وہیں آپ کو بیش ترحضرات ناپسندیدگی کی نگاہ سے بھی دیکھتے ہیں ، آپ نے اس کے جو بھی اسباب محسوس کیے ان پرزیرِ تبصرہ کتاب کے ’’احوالِ گفتنی‘‘ میں قدرے روشنی ڈالی ہے ۔

آپ کو بچپن ہی سے کتب و رسائل کے مطالعہ کا ذوق و شوق رہا ۔آپ کی شخصیت سازی میں خاندانی عوامل کارفرما رہے ۔ جس کی وجہ سے دین و مذہب ، شعر و ادب ، تحقیق و تنقید اور سلوک و طریقت آپ کے محبوب و مرغوب موضوعات بن گئے۔شاعری میں نعت گوئی ، غزل گوئی اور نظم نگاری کی طرف رجحان غالب ہے ،بیش تر آل انڈیا مشاعروں میں آپ نے شہر مالیگاؤں کی کام یاب نمایندگی کی ہے ۔ مطالعہ و مشاہدہ کی کثرت نے تحقیق وتنقید کی طرف بھی مائل کیا اور علمی و ادبی ، تعلیمی وسماجی اور سلوک و طریقت پر مبنی مضامین و مقالات تحریر کیے جو مختلف اخبارات و رسائل کی زینت بنتے رہے ۔ ڈاکٹر انجم کے دامنِ حیات میں اب تک پانچ مطبوعہ تصانیف ’’صلوا علیہ واآلہٖ‘‘ ( نعتیہ مجموعہ) ، مالیگاؤں اور راجا ناروشنکر دانی(تاریخ) ، چراغِ معرفت صوفی نورالہدیٰ( سوانح و ملفوظاتِ مرشد) ، فصیل بے چراغ ہے( شعری مجموعہ ) ، سایہ سایہ دھوپ (شعری مجموعہ) جگمگا رہی تھیں۔حال ہی میں آپ نے اپنی تازہ ترین کتاب ’’اولیاے اسلام ‘‘ (ڈائریکٹری) تصوف و معرفت کے شیدائیوں کے لیے پیش کی ہے ۔ اس ڈائریکٹری کومحترم ڈاکٹر اشفاق انجم صاحب کی ایک شاہ کار تحقیقی تالیف قرار دی جاسکتی ہے ۔ اس کی تیاری میں موصوف کوکن دشوار گزار مراحل سے گذرنا پڑا ہوگا اس کو وہی بہ خوبی جان سکتے ہیں ۔ ڈاکٹر اشفاق انجم نے اس کتاب میںسمندر کو کوزے میں بند کرنے کے لیے بڑی عرق ریزی کا مظاہرہ کیا ہے۔260صفحات کی اس کتاب میں آپ نے 218کتب سے استفادہ کیا ہے ، جس سے اس ڈائریکٹری کا تحقیقی معیار ظاہر ہوتا ہے ۔

زیرِ تذکرہ کتاب میں مؤلف نے اپنی بساط بھر جہاں مشہور و معروف اولیائے اسلام کا ذکر کیا ہے وہی تصوف و معرفت کے جملہ سلاسل کے پیرانِ طریقت کا ذکر بھی کیا ہے ۔ نیز یہ کوشش کی ہے کہ تصوف کے تمام ہی سلاسل کے شجروں اور تذکروں میں درج شدہ بزرگوں کے کوائف اس ڈائریکٹری میں یک جا ہوجائیں ۔ڈاکٹر موصوف نے مختلف سلاسل سے خلافت یافتگان کی معلومات بھی شاملِ کتاب کی ہے۔

یہ ڈائریکٹری بزرگانِ طریقت اور اولیاے کرام کے عقیدت مندوں کے لیے بے حد مفید اورنہایت کار آمد ہے۔ اس میں دنیائے اسلام کے تقریباً ساڑھے چار ہزار بزرگانِ طریقت کے اسمائے گرامی ، ولادت و وفات کے سنوات، مرشد، سلسلہ اور مدفن کی معلومات ، شہر، ریاست اور ملک کے اعتبار سے درج کی گئی ہیں ۔ مجاذیب اور خواتین اولیاو مجاذیب کے تذکرے سے بھی یہ کتاب سجی ہوئی ہے۔ہاں! بعض بزرگوں کے ذکر میں ولادت و وفات کے سنوات نہیں ہیں اس کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ ان بزرگوں کے تذکروں اور سوانح پر مبنی کتب بھی اس ضمن میں خاموش ہوں گے۔ اسی طرح بعض بزرگوں کے صرف نام اور مدفن کا ذکر ہے ، لیکن یہ بھی اہلِ محبت کی معلومات کے لیے منافع سے خالی نہیں۔

بزرگانِ طریقت کا ذکر کرتے ہوئے مدفن میں ڈاکٹر انجم صاحب نے شہروں کے نام کے ساتھ ساتھ محلوں کے نام بھی درج کردئیے ہیںتاکہ اہلِ عقیدت و محبت جب اُن شہروں کا رخ کریں تواس ڈائریکٹری کی مدد سے جملہ مزارات کی زیارت سے بہ آسانی مشرف ہوسکیں، ڈاکٹرانجم نے اس کے لیے جو محنت صرف کی ہے وہ بلا شبہ سراہے جانے کے قابل ہے، لیکن کہیں کہیں آپ نے مدفن میں صرف شہروں کے نام لکھے ہیں جن سے زائرین کو دشواری لاحق ہوسکتی ہے مثلاً: احمدآباد، دہلی، ٹونک ، الور ، ردولی، سورت وغیرہ شہروں کے کس محلے میں مزارِ پاک ہے؟ صرف شہروں کے ذکر کی وجہ سے ادھورا پن نظر آتا ہے ۔ آیندہ ایڈیشن میں کوشش کر کے شہروں کے نام کے ساتھ محلوں کے نام بھی درج کردیئے جائیں تو یہ سونے پر سہاگہ ہوجائے گا۔

علاوہ ازیں چند اصلاح طلب امور پر توجہ مرکوز کرانے کی طالب علمانہ جسارت کرتے ہوئے عرض ہے کہ ڈائریکٹری کے صفحہ نمبر 36 پر اندراج نمبر 467میں مولانا حامد رضا خاں صاحب بریلوی کے ذکر میں بیعت کے کالم میں آپ کے مرشدِ گرامی کا نام ’’ شاہ ابوالحسین نوری‘‘ کی بجاے کمپوزنگ کی خامی سے ’’شاہ ابولحسن نوری‘‘ ہوگیا ہے ۔ اسی طرح صفحہ 109کے اندراج نمبر 1988میں اسماے گرامی کے کالم میں مولاناشاہ سید محمد بشیر‘‘کی بجاے ’’شاہ محمد شبیر‘‘ درج ہے ، سنہ وصال اور مدفن درست ہے ۔ نیز صفحہ 188کے اندراج نمبر 3460میں ’’مولانا شاہ عبدالعزیز محدث‘‘ لکھا ہوا ہے یہاں قارئین کو یہ شبہ ہوسکتا ہے کہ یہ ’’شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی ‘‘ کا نام تو نہیں ۔ لہٰذا ڈاکٹر موصوف کو چاہیے کہ آیندہ ایڈیشن میں اس میں درستگی کرکے مکمل نام ’’شاہ عبدالعزیز محدث مرادآبادی(حافظِ ملّت) ‘‘ لکھیں تاکہ قارئین احتمال سے بچ سکیں۔ علاوہ ازیں صفحہ 200کے اندراج نمبر 3672ماسٹر احمد علی بن حافظ محمد کے ذکر میں بیعت کے کالم میں ’’سید سلطان ضمیر الحق‘‘ اور’’ سید محمد فاروقی‘‘ دو بزرگانِ طریقت کے نام درج ہیں ۔ راقم نے اس ضمن میں ماسٹر صاحب مرحوم کے سلسلہ کی جان کار شخصیت محب گرامی ڈاکٹر جاوید احمد چشتی سے رجوع کیا تو موصوف نے بتایا کہ ماسٹر احمد علی بن حافظ محمد ’’سید محمد فاروق میاں چشتی‘‘ سے بیعت تھے نہ کہ ’’سید سلطان ضمیر الحق‘‘ڈائریکٹری میں ’’سید محمد فاروق میاں چشتی‘‘کی بجاے ’’سید میاں فاروقی ‘‘ لکھا ہوا ہے ۔ڈاکٹر اشفاق انجم صاحب سے امید ہی نہیں بل کہ یقین ہے کہ آیندہ ایڈیشن میں ان باتوں کی اصلاح کی طرف توجہ فرمائیں گے۔

المختصر یہ کہ ڈاکٹر اشفاق انجم صاحب نے اس ڈائریکٹری کے ذریعہ ایک بڑا کارنامہ انجام دیا ہے، بزرگانِ طریقت سے متعلق اس نہج کی اردو زبان کی کوئی کتاب اب تک میری نظروں سے تو نہیں گذری ہے ہوسکتا ہے کہ کسی نے اس جانب توجہ کی ہو۔ لیکن ڈاکٹر موصوف نے جس جاں فشانی ،جوش و لگن اور عرق ریزی سے یہ ڈائریکٹری مرتب کی ہے وہ ہر اعتبار سے لائقِ تحسین و آفرین ہے ، ناچیزمحترم کو ہدیۂ تبریک پیش کرتا ہے ۔

صوری اعتبار سے کتاب عمدہ اور نفیس ہے ،کتاب کی کمپوزنگ اور سیٹنگ بہت خوب ہے، پروف ریڈنگ کی طرف سے بھی بے اعتنائی کا مظاہرہ نہیں ہوا ہے۔ بزرگانِ دین سے عقیدت رکھنے والے حضرات اس کتاب کو ضرور حاصل کریں ۔ دیدہ زیب سرورق اور ڈیمی سائز کی 260صفحات کی یہ ضخیم کتاب 200روپئے میں مہنگی نہیں بل کہ بے حد سستی ہے ۔ براہِ راست مؤلف یامالیگاؤں کے جملہ مشہور بک اسٹالس سے اس کتاب کا حصول بہ آسانی ممکن ہے۔
Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi
About the Author: Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi Read More Articles by Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi: 409 Articles with 597697 views

Dr.Muhammed Husain Mushahid Razvi

Date of Birth 01/06/1979
Diploma in Education M.A. UGC-NET + Ph.D. Topic of Ph.D
"Mufti e A
.. View More