کچھ بھی پیغام محمد کا تمہیں پاس نہیں

روشن آنکھوں والی ملالہ وکیل بننا چاہتی ہے۔ وہ زندہ ہے اور زندہ رہے گی۔ ہم اللہ رب العزت سے ملالہ یوسف زئی کی زندگی کے لئے بھیک مانگ رہے ہیں۔ جوان اولاد کی جدائی ویسے ہی والدین کو زندہ درگور کر دیتی ہے جبکہ ملالہ علم کی مجاہدہ ہے، پاکستان کا بیش بہا سرمایہ ہے۔ ملالہ یوسف زئی پاکستان کی بہادر اور قابلِ فخر بیٹی ہے۔معزز اور باوقار قوم اپنی بیٹیوں کی جان اور ان کی عزت و ناموس کی محافظ ہوتی ہےجنہوں نے ملالہ پر حملہ کر کے اس کی جان لینے کی کوشش کی ان کا نہ تو اسلام سے کوئی واسطہ ہے اور نہ اس قوم سے تعلق ہے جس کی بیٹی پر انہوں نے بزدلانہ حملہ کیا۔ہماری نگاہ میںیہ فعل اس لیے برا نہیں ہے کہ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور امریکہ کے صدر نے اس کی مذمت کی ہے، بلکہ یہ اس لیے برا ہے کہ یہ اسلام کی تعلیمات کی رو سے برا ہے۔

ملالہ یوسف زئی کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ جرات مند ی،تعلیم سے محبت اور جبر و تشدد اور دہشت گردی سے نفرت کی علامت بن گئی ہے۔ وہ جہالت کی تاریکیوں سے لڑ کر اپنے علاقے کی ساری بچیوں کو زیورِ علم سے آراستہ دیکھنے کی متمنی ہے۔وہ اپنے ماحول میں رائج اس دقیانوسی سوچ کو بدلنا چاہتی ہے کہ عورتوں کے لیے تعلیم ضروری نہیں ہے۔اس سوچ کا پرچار کرنے والے جس طرح جہاد کی حقیقت سے نا آشنا ہیں اسی طرح وہ علم پر صرف مردوں کی اجارہ داری کا تصور منوا کر اپنی ناقص فکر کو غالب رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ ملالہ کو اپنی روایات کی باغی سمجھ کر اس کی جان کے دشمن بن گئے ہیں۔جو لوگ اس سوچ کو صرف مولویوں سے منسوب کر کے دینِ اسلام پر طعنہ زنی کے مواقع تلاش کرتے ہیں وہ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس علاقے میں پڑھے لکھے سیاست دان بھی اسی سوچ کے حامل ہیں۔یہی وجہ ہے کہ انتخابات کے موقع پر سیاست کے میدان میں ایک دوسرے کے حریف ایک نکتے پر متفق ہوتے ہیں کہ عورتوں کو ووٹ ڈالنے کے لیے پولنگ اسٹیشنوں پر نہیں جانے دیا جائے گا۔ اس علاقے کی جاہلانہ قبائلی روایات کو اسلام کے ساتھ اس طرح گڈ مڈ کر دیا گیا ہے کہ جو چیز یں قرآن و سنت سے ثابت نہیں مگر قبائل روایات میں راسخ ہیں ان کو اسلامی روایات باور کرایا جاتا ہے۔یوں گویا علمِ حقیقی سے نابلد، تعلیمِ نسواں کے مخالف اور مقامی روایات کے علمبردار عناصر ملالہ کے خون کے پیاسے ہو گئے۔لیکن ایک اور حقیقت جو زبردست پروپیگنڈے کے غبار میں چھپی ہوئی ہے وہ ملالہ یوسف زئی کے ایک اور دشمن کا چہرا سامنے نہیں آنے دے رہی ہے۔ہمارے ملک میں سرگرم امریکہ اور مغربی ممالک کی وظیفہ خوار این جی اوز ، لِبرل فاشسٹ طبقہ، تجدد پرست اور مغرب زدہ دانشور ، صحافی اور اینکر پرسنز بھی ملالہ کے دشمن ہیں ۔وہ ملالہ کو ایک ایسی حیثیت میں اپنے طور پر متعارف کرانے کی مکروہ کوشش کر رہے ہیں جس کا ملالہ نے یا اس کے خاندان نے کبھی دعوی نہیں کیا ہے۔وہ ملالہ کو اسلامی روایات اور اصول کے مقابلے میں بے لگام آزادی اور مغربیت کی نمائندہ کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔وہ یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ ملالہ کی علم و تعلیم سے محبت گویامغربیت سے محبت کے مترادف ہے۔ملالہ دہشت گردی کا نشانہ بننے والی پہلی بچی نہیں ہے۔ اسی دیر اور سوات کے علاقے میں مسمار کیے جانے والے متعدد اسکولوں کی حیا دار اور اسلامی اقدار کی پابند استانیاں بھی اس ظلم کا ہدف بن چکی ہیں۔بہت سی معصوم اور کم عمر بچیاں دہشت گردانہ کارروائیوں کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔ ڈرون حملوں میں اسی عمر کی پھول سی بچیوں بچوں اور خواتین کے جسموں کے پرخچے اڑ جاتے ہیں۔خود پاکستانی فورسز جب دہشت گردوں کے خلاف کوئی اقدام کرتی ہیں تو اس میں بھی خواتین اور بچوں کی جانیں جاتی ہیں۔لیکن ان این جی اوز، سول سوسائٹی کی ماڈرن کرتا دھرتا عورتوں ، دانشوروں،کالم نگاروں اور ٹی وی اینکرز نے کبھی کوئی صدائے احتجاج بلند نہیں کی۔ملالہ کو چونکہ ایک خاص سوچ اور ایک خاص کلچر کی نمائندہ ثابت کرنا مقصود ہے اس لیے اس پر ہونے والے بزدلانہ حملے پر شور مچا کر لبرل قوتیں در اصل اپنے مقاصد پورا کرنا چاہتی ہیں۔یہ قوتیں ملالہ کی خیر خواہ ہر گز نہیں ہیں۔یہ اس کی اتنی ہی بڑی دشمن ہیں جتنے بڑے دشمن وہ دہشت گرد ہیں جنہوں نے ملالہ پر حملہ کر کے اس کی جان لینے کی کوشش کی۔

جہاں قاتل نامعلوم رکھنا مقصود ہو وہاں واقعہ کی ذمہ داری طالبان قبول کر لیتے ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کی ذمہ داری بھی طالبان نے قبول کر لی تھی وگرنہ رحمان ملک قاتلوں کو بے نقاب کر کے انہیں کیفر کردار تک پہنچا کر دم لیتے۔ مینگورہ کی چودہ سالہ معصوم ذہین بہادر بچی ملالہ پر قاتلانہ حملے کی ذمہ داری بھی طالبان نے قبول کر لی ورنہ رحمان ملک قاتلوں کی دہلیز تک پہنچ چکے تھے۔ طالبان سنگین جرائم کی ذمہ داری قبول کرنے میں ایک لمحہ نہیں لگاتے مگر سوال یہ پید اہوتا ہے کہ اس جدید دور میں صرف طالبان کی کال ہی ٹریس کیوں نہیں کی جا سکتی؟ پاکستان کا میڈیا بھی مادر پدر آزاد ہے پھر طالبان ہمیشہ فرنگی میڈیا بی بی سی کو ہی فون کر کے کیوں ذمہ داری قبول کرتے ہیں؟ اور دنیا کا شاطر میڈیا کیسے یقین کر لیتا ہے کہ کال طالبان کی طرف سے آئی ہے؟

میں ملالہ کیلئے روتا رہا ہوں مگر میرے آنسوں کو شرمندگی نہ بنا۔ اسے نئی زندگی بنا؟ یہ تو اس بہادر بچی پر حملے کو اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کرنے والی بات ہے۔ صدر اوباما نے ریمنڈ ڈیوس اپنے جاسوس ڈاکٹر شکیل اور اب ملالہ کیلئے ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔ بین الاقوامی طور پر میڈیا کو اور اداروں کو اسی کام پر لگا دیا گیا ہے۔ سارے پاکستان کو تم نے زخم زخم کر دیا ہے۔ ملالہ کو بہانہ بنا کے تم جتنا شور مچا رہے ہو۔ یہ ملالہ بھی نہ چاہے گی۔ اسے ہوش میں آنے دو۔ پھر تمہارے ہوش ٹھکانے لگ جائیں گے۔ کئی بچیاں امریکہ نے خود یہاں قتل کی ہیں تو صرف ملالہ کیلئے امریکی گلوکارہ اپنے ننگے وجود پر اس کا نام لکھ کے ڈانس کیوں کرتی ہے۔

پرویز اشرف کہتے ہیں کہ ہم طالبان کا ایجنڈا قبول نہیں کریں گے۔ امریکہ کا ورلڈ آرڈر کیا ہے؟ یہ ایجنڈا تو وہ قبول کر سکتے ہیں۔ تقریبا سارے سیاستدان امریکہ اور بھارت کے ایجنڈے پر پاکستان میں ایک ہیں۔ اتنا شور تو بینظیر بھٹو کی شہادت پر نہیں مچایا گیا تھا۔ ہمارا میڈیا پاکستان پر رحم کرے اور پاکستانی میڈیا بنے۔ امریکی اور بھارتی میڈیا نہ بن جائے۔ رحمان ملک کو کون بتائے کہ امریکہ اور نیٹو فورسز اس سے یہ بھی کہلوائیں گے کہ بلوچستان دہشت گردوں کا گڑھ ہے جہاں بھارتی مداخلت کا خود وہ اعتراف کر چکے ہیں۔ مغرب، امریکہ اور بھارت پاکستان کو دہشت گردی کا گڑھ کہتے ہیں۔ یہاں کون آپریشن کرے گا؟ پوری دنیا اب ایسی ہے کہ کسی کو نہیں کہا جا سکتا کہ وہ صادق اور امین ہے؟
Nasir Abbas
About the Author: Nasir Abbas Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.