اس ملک کی تاریخ انتہائی تلخ
حقیقتوں سے بھری پڑی ہے۔ابتداءسے لیکر آج تک اس ملک میں بہت بڑے بڑے واقعات
رونماءہوئے ۔حادثات جو کچھ لوگوں کے مطابق ہوئے اور کچھ کے مطابق کرائے گئے
اس ملک کی تقدیر کا دھارا موڑنے میں پیش پیش رہے۔بانی پاکستان کی وفات اور
پاکستان کے پہلے وزیراعظم کے قتل سے لیکر آج تک اس ملک میں کئی بڑے بڑے
سیاسی بھونچال آئے ۔اوراس کے رد عمل میں بلند وبام دعوے بھی دیکھتے میں
آئے۔کبھی گورنر راج کبھی جمہوریت کبھی آمریت اور کبھی مارشل لائ۔ہر دور ہی
اس ملک کی مختصر سی تاریخ نے بخوبی دیکھے ہیں۔مگر افسو س ہم اس سے سبق
سیکھنے میں ناکام ہیں۔یہاں کی سیاست کا سب سے کامیاب فارمولا یہی تصور کیا
جاتا ہے کہ اگراس ملک میں کسی بحران کی وجہ اس ملک کے لیڈر ہوں جو کہ اکثر
ہی ہوتے ہیں۔تو اس سے بچنے کے لیے ایک نیا ڈرامہ کھڑا کر دیا جاتاتا کہ ان
کی جان اس سے چھوٹ جائے ۔ایسا اکثر ان اوقات دیکھنے کو ملتا ہے جب عوام
حکومت سے اپنے دشمن او ر حکومت کے محسنوں کے خلاف بات کرنے کی ڈیمانڈ
کرے۔مگر کبھی بھی اس پر واضح جواب نہ آیا جوکہ ایک حیران کن بات ہے۔چاہے وہ
پہلے وزیر اعظم کا قتل ہو۔پہلی جمہوریت کا قتل ہو۔بھٹو کی پھانسی ہو۔1971کا
افسوس کن واقعہ ہو۔جرنیلوں کی پر اسرار حادثاتی اموات ہوں۔کارگل کا محاذ
ہو۔مارشل لاءہوں۔جوبھی ہوجائے اس ملک کے عوام کو اس کی اصل وجوہات سے بے
خبر رکھا جاتا ہے۔ایک وقت تھا جب اس ملک میںصرف سرکاری ٹی وی دیکھاجاتا
تھا۔تب سب اچھا کا راگ گایا جاتا تھا۔اور سب کے سب اس پر خوش ہو جایا کرتے
تھے۔کہیں سے اگر حقیقت عوام کے کانوں پر پڑ بھی جاتی تو اس کی آنکھوں پر
پٹی باندھ دی جاتی تھی۔ےا کسی اور کے ذمے ڈال دیاجا تا تھا۔کبھی حکومت فوج
کے ذمے ڈال دیتی تھی تو کبھی اپنے گذشتہ حکمرانوں کو اس کی ذد میں آنا پڑتا
تھا۔مگر اب دور تبدیل ہوگیا۔دنیا بھر میں آنے والی ٹیکنالوجی نے پاکستان کے
اندر ذرائع ابلاغ کے شعبے کو بھی کافی متاثر کیا۔اور اس میں بھی جدت آگئی ۔بعد
ازاں جب اسے آزادی دے دی گئی تو حکومت سمیت کئی لوگ تو سمجھو کے قید ہی
ہوگئے۔جو بھی کہتے ہیں ےا کرتے ہیں۔اس کا حساب مانگ لیا جاتا ہے۔ایسے میں
بہانے بنانے سے ےا کسی اور پر ڈال دینے سے کام نہیں چلتا۔مگر آج بھی اس ملک
میں ایسی مجبوریاں ہیں جن کی بنا پر کافی باتوں کی اصل وجہ سے اس عوام کو
لاعلم رکھنا اس ملک کی انتظامیہ اور اس کے حساس اداروں کی مجبوری
ہے۔پاکستان کی حیثت ایک عام ملک کی نہیں۔دنیا کی بحری تجارت کا مرکزی کردار
پاکستان ہے۔افغانستان میں بھارت کی جنگ جو کہ بظاہر امریکہ کی جنگ ہے اس
میں بھی کلیدی کردار اسی ملک خداداد کا ہے۔مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ اگر
خطے کی بقاءاور اس کے امن و امان کے لیے ہم اپنی عزت آبرو اور اس سے کے
عوام کے جذبات داﺅ پر لگا کے بیٹھے ہیں تو اتحادیوں کو بھی اس میں مکمل
تعاون کا اظہارکرناچاہیے۔اور اس کی عملی صورت نظر بھی آنی چاہیے۔اگر اس ملک
کا میڈیا کئی باتیں سیکیورٹی کنسرن کی وجہ سے دبا جاتا ہے تو مغربی میڈیا
کو بھی اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔جس کا ابھی تک تو کوئی عملی مظاہرہ
نہیں ہوا۔اسامہ بن لادن کے کیس میں یورپی میڈیا کے ےہ دعوے کہ اس میں
پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کی معلومات شامل ہیں۔نہ صرف اس ملک کی ساخت کو
کمزور کرنے کی ایک سازش ہے بلکہ وہ جنگ جومشترکہ طور پر لڑی جا رہی ہے۔اس
پر اس کے منفی اثرات پڑیں گے۔پاکستان کے حساس اداروں کو بدنام کرنے کی
امریکی اتحادیوں کی ےہ پہلی کوشش نہیں اس سے پہلے بھی ایسے کئی واقعات
دیکھنے میں آئے مگر اس پر حکومت کا کوئی سخت رد عمل دیکھنے میں نہ آیا۔جس
سے پڑھے لکھے حلقے میںنہ صرف حکومت کی ساخت کمزور ہوئی ساتھ ہی ایسا کرنے
والوں کے حوصلے بھی بلند ہوئے ہیں۔ممبئی حملوں میں انڈین نے آئی ایس آئی
چیف کو بلا لینے کی ناپاک سوچ سوچی مگر اس پر حکومت مکمل چپ رہی۔جس کی وجہ
سے وکی لیک اور نہ جانے کئی ویب سائٹس نے ہمارے خفیہ اداروں کی بدنامی کا
سلسلہ شروع کردیا۔کوئی بھی جامع رد عمل دیکھنے میں نہ آیا۔جس کا نتیجہ اب
اسامہ کے کیس میں بھی ہمارے اداروں کو گھسیٹنے کی کوشش کی جارہی ہے۔اور
ساتھ ہی لاپتہ افراد کے کیس میں غیر ملکی میڈیا پر ان کو ملوث کرنے کی کوش
کی جارہی ۔اگر حکومتی ایوانوں کے مالک آج بھی ایسے ہی ٹی وی شوز پر بیٹھ کر
دھواں دھار تقریروں میں آئی ایس آئی اور دوسری ایجنسیوں کا نام لے لے
کرالزامات لگائیں گے تو نہ صرف ملک میں عوام ان ادواروں پر عدم اعتماد کرے
گی ساتھ ہی اس حکومت کے لیے کافی مشکلات پیدا ہوجائیں گی۔حکومت ایسے اداروں
کے تحفظ کی بجائے ان کوکمزور کرنے کی جو پالیسیاں بنا رہی ہے۔ان سے نہ صرف
ان اداروں کی کارکردگی پر اثر پڑے گا۔ساتھ ہی بہت بڑے بڑے رازوں سے پردہ
بھی اٹھ جائے گا۔آج تو عوام کا اکثر و بیشتر حصہ اس بات سے نا واقف ہے کہ
اس ملک کے تمام بڑے لیڈر بھی اسی فوج اور انہی ایجنسیوں کی بدولت آگے آئے
ہیں۔کرسی کا نشہ اگر اس بات کو بھولنے پر مجبور کردے کے کرسی سہاروں کے بل
پر کھڑی ہے تو جب سہارے ہٹ جائیں تو گرنے سے کرسی پر بیٹھے لوگ اکثر زخمی
ہوجاتے ہیں ۔زخمی ہونے والے سب کھیلوں میں ریٹائر کر دیے جاتے ہیں۔سیاست
بھی کھیل ہے۔مگر یہ ایک مثال تھی ۔اس کا کسی سے کوئی تعلق نہیں ۔ہاں تانے
بانے جوڑ نے میں کوئی نئی بات نہیں۔اللہ ہم سب کو سوچ سمجھ کر فیصلے کرنے
کی توفیق دے۔جو ہمارے حق میں اور اس ملک کے حق میں بہتر ہوں۔آمین۔ |