عطا الحق قاسمی کی تین روزہ ادبی
و ثقافتی کانفرنس بالآخر ناہید صدیقی کے کلاسیکی رقص کے ساتھ ہی اپنے
اختتام کو پہنچ گئی۔یہ وہ رقص تھا جسے دیکھنے کے لیے عطا الحق قاسمی صاحب
نے خصوصی طور پر مجیب الرحمن شامی صاحب کو دعوت دی اور یہ بھی بتایا کہ اسے
اوریا مقبول جان کی خواہش پر بلایا گیا ہے ۔ ویسے تو قاسمی صاحب کی جانب سے
رقص دیکھنے کے لیے دعوت عام تھی لیکن میں اپنے چند سازشی دوستوں کی وجہ سے
پھر بھی یہ رقص دیکھنے سے محروم رہا ۔ امید ہے کہ اگر اگلے سال عطا الحق
قاسمی صاحب زندہ رہے اور شہباز شریف صاحب اپنی اسی پوزیشن پر برقرار رہے تو
ایک مرتبہ پھر ایسی ہی بلکہ اس سے بھی کہیں بہتر کانفرنس دیکھنے کو ملے گی۔
اگر یہ دونوں ہستیاں اپنی اپنی جگہ سے تھوڑی سی بھی کھسک گئیں تو پھر یقینا
ہم جیسے ناکام ادیب اوربے ضررصحافی اگلے سال انہی دنوں اجڑی ہوئی ادبی
بیٹھک میں بیٹھے ایسی کانفرنس کی یاد میں ٹھنڈی آہیں بھرتے ہوئے ادھار چائے
اور مفت سگریٹ پھونک رہے ہوں گے۔ یہ کانفرنس اپنے پیچھے بہت سی یادیں چھوڑ
گئی جبکہ اس کے آگے ابھی تک قاسمی صاحب نے امیدیں لٹکا رکھی ہیں ۔دراصل
قاسمی صاحب یہ چاہتے ہیں کہ ادیب ، صحافی اور اب فنون لطیفہ سے منسلک لوگ
ان کی درازی عمر کی دعا کرتے رہیں اور تب تک یاسر پیر زادہ اپنے ابا جی کی
گدی پر بیٹھنے کے قابل ہو جائے ۔ اس عظیم الشان کانفرنس کے انعقاد پر میں
بھی سلیم صافی کی طرح عطاالحق قاسمی صاحب کا اتنا ہی شکر گزار ہوں جتنا عطا
الحق قاسمی صاحب وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف صاحب کے شکر گزار ہیں اور سلیم
صافی کی ہی طرح میں بھی ان ہی الفاظ میں عطا الحق قاسمی صاحب کو خراج تحسین
پیش کرنا چاہتا ہوں جن الفاظ میں انہوں نے اس کانفرنس کے افتتاہی خطبہ میں
میاں شہباز شریف صاحب کو خراج تحسین پیش کیا۔ اس کانفرنس میں کئی ایسی
باتیں تھیں جو اب کئی روز تک ہم ادبی بیٹھک میں بیٹھ کر یاد کرتے رہیں گے
اور مال روڈ پر ٹہلتے ٹہلتے ان پر اسی طرح تبصرہ کرتے رہیں گے جس طرح اوریا
مقبول جان نے میڈیا پر کیا تھا۔ اس لیے اس کانفرنس کی باتیں آہستہ آہستہ
مختلف ادیبوں اور صحافیوں کے کالموں میں آتی رہیں گی البتہ ایک بات ایسی
ضرور ہے جس نے ہمیں سوچنے پر مجبور کر دیا اور ہمیں لگا کہ اسکا ذکر کیے
بنا کالم ختم کرنا اسی کانفرنس میں حسن نثار کی آمد کی مانند ہو جائے گا ۔
حسن نثار صاحب نے ہم جاہلوں سے خطاب کرنا تھا لیکن غالبا وہ کسی بات پر
انتظامیہ سے خفا ہو گئے اور وزیروں کی طرح واک آﺅٹ کر گئے ۔ جس بات کی بنا
پر میں نے یہ سب لکھا وہ بہت ہی مختصر سی ہے ۔ہوا کچھ یوں کہ کانفرنس کے
ایک سیشن کے بعد جب معزز مہمانان گرامی ہال سے باہر آئے تو کچھ جاہل نوجوان
ان کے گرد اس طرح اکھٹے ہو گئے جیسے قاسمی صاحب نے چڑیا گھر کھول رکھا ہو
اور اس میں نیا اضافہ کیا ہو ۔ بات یہاں تک رہتی تو بھی ٹھیک تھا لیکن کچھ
لوگوں نے واقعی چڑیا گھر سمجھ کر تصاویر کھنچوانی شروع کر دی۔ اب عرفان
صدیقی، عطا الحق قاسمی ، اوریا مقبول جان اور ایسے ہی کچھ شریف النفس
صحافیوں اور اینکروں نے تو لوگوں کی خواہش پوری کر دی لیکن جیسے ہی ایک
ناہنجار نے قبلہ آفتاب اقبال صاحب سے تصویر کی درخواست کی تو قبلہ غصے میں
آگئے اور انہوں نے اسے بد تمیز کا خطاب دیتے ہوئے اچھا خاصہ ”لتار“ دیا
اورغالبا ایک آدھ جملے میں اپنا سٹیٹس بھی سمجھا دیا ۔ وہ غریب تو اس کے
بعد دبک گیا لیکن تھوڑی دیر بعد ایک اور جیالے نے یہی کوشش کی اور منہ کی
کھائی اس کے بعد پھر مزید کسی کی جرات نہ ہوئی کہ وہ قبلہ کو تصویر جیسے
حرام کام کی طرف مائل کر سکے البتہ ان کے والد صاحب وضع دار انسان دوست
بزرگ ہیں اس لیے وہ ایسے”حرام“ کاموں میں کسی قسم کی عار محسوس نہیں کرتے ۔بظاہر
تو یہ معاملہ پیر و مرشد قبلہ آفتاب صاحب کی اس ناہنجار بے ادب اور گستاخ
نوجوان کی جھاڑ کے بعد اپنے انجام کو پہنچ گیا لیکن میں سوچنے لگا کہ قبلہ
نے ایسا کیوں کیا ۔ اس سے قبل میں نے سن رکھا تھا کہ فلمی اداکارائیں بغیر
میک اپ کے تصویر نہیں بنواتیں تو کیا آفتاب صاحب نے بھی اسی لیے تصویر
کھنچوانے سے انکار کر دیا تھا کہ اس وقت وہ میک اپ میں نہیں تھے؟ یا پھر ان
کا چہرہ فوٹو جینٹک نہیں ہے اور وہ حساب کتاب سے تصویر کھنچواتے ہیں ؟ایک
خیال یہ بھی تھا کہ کہیں ان کے ذہن میں یہ خیال نہ آ گیا ہو کہ جو نوجوان
ان کے ساتھ تصویر کھنچوانے پر پضد تھا وہ بعد میں یہی تصویر اپنے ڈرائینگ
روم میں آویزاں کر لے گا اور پھر روز اپنے دوستوں کے ساتھ اس تصویر کو دیکھ
دیکھ کر ہنسا کر گا ؟ اگر ایسا کوئی خیال آفتاب صاحب کے ذہن میں واقعی ہے
تو میں انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ وہم کا علاج حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں
تھا البتہ یہ ممکن ہے کہ اس کے ابا جی کے پاس موجود ہو ۔اس حوالے سے میرے
ذہن میں جو سب سے خطرناک خیال آیا وہ یہ تھا کہ کہیں یہ اسی طرح آفتاب
اقبال کی ڈمی نہ ہو جیسے چند سال قبل حسب حال کے نام سے وہ ایک ڈمی رسالہ
نکالتے تھے اور بعد میں اسی نام سے ٹی وی چینل کے پروگرام کیا کرتے تھے۔۔
ادبی بیٹھک کی یادیں شاید وقت کے ساتھ ساتھ مدہم ہوتی جائیں لیکن اس ادبی
کانفرنس میں آفتاب اقبال صاحب کی جھاڑ اور اس نوجوان کی” بد تمیزی“ ابھی
طویل عرصہ تک یاد رہے گی ۔ مجھے پورا یقین ہے کہ اس نوجوان کی تربیت میں
کمی ہو گی اور اسے اسے کے گھر والوں نے بتایا نہیں ہو گا کہ جب اینکر خدا
بن جائے تو کافر ہو جانا بہت بڑی نیکی ہے۔یا وہ بد بخت سمجھتا ہو گا کہ چند
سال قبل نوائے وقت سے ”بھاری“ معاوضہ لینے والے قبلہ ابھی تک اسی پوزیشن پر
ہیں ۔ اگر وہ نوجوان اوریا مقبول ، سلیم صافی ، سہیل وڑائچ ، عرفان صدیقی ،
مجیب الرحمن شامی، حافظ مظفر محسن ، گل نوخیز ، وغیرہ کے ساتھ تصویر
کھنچوانے کی ضد کرتا تو یقینا اس کی یہ خواہش پوری ہو جاتی لیکن اب تو میں
اس بد تمیز کے لیے یہی پرانا مگر معروف شعرلکھ سکتا ہوں کہ
دن میں جگنو پرکھنے کی خواہش کریں
بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے
لیکن کوئی اس بد تمیزبچے کو یہ بھی بتا د ے کہ ایسی چالاکی اس وقت کسی کام
نہیں آتی جب جگنو ، اینکر بن جائے۔ |