کیا ویسٹ انڈیز میں کوئی وزیر داخلہ نہیں؟

کولمبو میں کالی آندھی نے لنکا ڈھائی اور ٹی ٹوئنٹی کا ورلڈ کپ لے اُڑی۔

ایک بار پھر کرکٹ میں وہ ہوا جس کا گمان بھی نہ تھا۔ سارے اندازے غلط ثابت ہوئے اور ویسٹ انڈیز کی ٹیم سیمی فائنل میں آسٹریلیا کو عبرت ناک شکست سے دوچار کرنے کے بعد میزبان سری لنکا کو بھی گھاس ڈالنے کے لیے تیار نہیں ہوئی۔ جس ٹیم کو لوگ کِسی کھاتے میں رکھنے کو تیار نہ تھے وہ آئی اور ایسی چھائی کہ پھر سب کو گھر کی راہ نظر آئی!

برصغیر کے لوگوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ کرکٹ کا ہر اعزاز اِنہی کے لیے بنا ہے۔ کھیل کا معیار بلند کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں۔ اور پھر کھیل کا معیار اگر کِسی طرح بلند کر بھی لیں تو ڈیلنگ کا معیار کِس طور بلند کر پائیں گے!

وہ زمانے ہوا ہوئے جب کرکٹ صرف میدان میں کھیلی جاتی تھی۔ ہمیں تو اب بھی حیرت ہوتی ہے کہ کبھی کرکٹ شرفاءکا کھیل ہوا کرتا تھا۔ جب سے ہوش سنبھالا ہے، ہم نے کرکٹ میں ایسی عجیب و غریب حرکتیں اور سرگرمیاں دیکھی ہیں کہ دِل مانتا ہی نہیں کہ کبھی یہ شرفاءکا کھیل رہا ہوگا!

کرکٹ کے مقابلوں کا دورانیہ سُکڑتا جارہا ہے اور کھیل کی ہمہ گیری کا دائرہ وسیع ہوتا جارہا ہے۔ ایک مقابلے میں میں خدا جانے کتنے کھیل کھیلے جارہے ہوتے ہیں۔ سَٹّے باز بھی ”لگے رہو مُنّا بھائی“ کی طرح مصروف رہتے ہیں اور دوسری طرف حکومتیں بھی سارے کام چھوڑ کر اپنے معاملات کو کرکٹ کی میز پر یعنی کھیل کے میدان میں نمٹانے پر کمر بستہ ہو جاتی ہیں!

کولمبو کے پریماداسا اسٹیڈیم میں ویسٹ انڈیز کی ٹیم کالی آندھی کی طرح میزبان ٹیم پر چھاگئی۔ سری لنکن ٹیم کے لیے جو ہدف بظاہر بہت آسان تھا وہ اِتنے پیار سے پہلے مشکل ہوا اور پھر مشکل تر ہوتا چلا گیا کہ ہم تو بس دانتوں تلے انگلی دباکر رہ گئے! جب اچھی خاصی کرکٹ میں سب کچھ اِس قدر عجیب انداز سے ہو رہا ہو تو حواس قابو میں نہیں رہتے اور کچھ بھی سمجھ میں آنے کے لیے تیار نہیں ہوتا!

کرس گیل نے آسٹریلوی بولرز کی جس طرح پٹائی کی اُسے دیکھ کر ویسٹ انڈینز کا وہ زمانہ یاد آگیا جب وہ واقعی کرکٹ کی دُنیا پر حکمرانی کرتی تھی۔ کرکٹ کو آرٹ اور ٹیکنالوجی کا درجہ دینے والی کرکٹ ٹیم نے ویسٹ انڈیز کے سامنے کچھ اِس طرح ہتھیار ڈالے کہ دُنیا کو یقین ہی نہیں آیا۔

اور پھر یہ ہوا کہ ایک زمانے کے بعد کرکٹ میں کوئی بڑا ٹائٹل ویسٹ انڈیز کے نام ہوا۔ کیا بات ہے! یادیں تازہ ہوگئیں۔ کئی زمانے دوبارہ آنکھوں کے سامنے پھر گئے۔ ہم سوچنے لگے کہ کہیں ویسٹ انڈیز کا سنہرا دور واپس تو نہیں آ رہا! زمانہ اِتنا تیز ہے کہ جہاں ذرا سی کوئی تبدیلی رُونما ہوتی ہے، دِل طرح طرح کی اُمیدیں پالنے لگتا ہے یا پھر وسوسوں میں گھر جاتا ہے!

ویسٹ انڈیز کی ٹیم جب سری لنکا کے خلاف تیزی سے فتح کی طرف بڑھ رہی تھی تب اچانک، بہت تیزی سے ہمیں خیال آیا کہ یہ ٹیم تو ایسے جیت رہی ہے جیسے راہ میں کوئی رکاوٹ ہے ہی نہیں۔ کیا ویسٹ انڈیز میں کوئی وزیر داخلہ نہیں؟ آپ اِس سوال کو ہماری سادگی سمجھ کر نظر انداز نہ کریں۔ ہمارا تجربہ یہ ہے کہ جب کبھی ٹیم جیتنے لگتی ہے، اچانک کچھ ایسا ہونے لگتا ہے جو پہلے بہت عجیب سا لگتا ہے مگر پھر ذہن کے سامنے سے دُھند چھٹنے لگتی ہے اور سب کچھ سمجھ میں آنے لگتا ہے۔ اور پھر حکومتی مشینری کے چند پُرزے ہلتے ہیں، چند وزرا اِدھر سے اُدھر جاتے ہیں، حکومتوں کے درمیان کچھ طے پانے لگتا ہے اور بس۔ اچھی خاصی، آسان سی فتح انتہائی دُشوار ہوکر شکست میں تبدیل ہو جاتی ہے اور ہم منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں! کل تک تو ہم سَٹّے بازوں کو کوسا کرتے تھے مگر اب ایسا لگتا ہے کہ سَٹّے باز تو بے چارے مفت میں بدنامی سے دوچار ہوئے! کرکٹ کے نام پر اِتنے کھیل کھیلے جارہے ہیں کہ شمار کرنا بھی دُشوار ہوگیا ہے!

ویسٹ انڈیز نے اچانک سینہ تان کر اعلان کیا ہے کہ ابھی اُس کی کرکٹ کے تن نازک میں کچھ جان باقی ہے۔ یہ جان کب تک باقی رہتی ہے اِس کا مدار اِس بات پر ہے کہ اُس کا وزیر داخلہ (اگر کوئی ہے!) کب تک غیر فعال رہتا ہے! ویسٹ انڈیز کی فتح کے ساتھ ہی ایک بار پھر ”نظریہ سازش“ کا رونا رونے والے بیدار ہوگئے ہیں۔ تبصروں اور تجزیوں میں جو کچھ بیان کیا جارہا ہے اُس میں ویسٹ انڈین ٹیلنٹ کو اور بہت سے اُمور سے ضرب دینے یا پھر حاصل ضرب قرار دینے کی کوشش کی جارہی ہے! آپ کا جو معاملہ ہے وہ آپ جانیں، اِس ٹائپ کی خبریں اور تجزیے پڑھ کر ہمارا ذہن تو اچھا خاصا مضروب ہو جاتا ہے!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 524431 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More