ہم واقعی کانوں کے کچے ۔لکیر کے
فقیر ،حقیقت سے آنکھیں چرانے والے اورسوچ بچارسے عاری لوگ ہیں۔ہمیں کوئی
بھی ٹرک کی سرخ بتی کے پیچھے لگاسکتا ہے ۔ہمارے ہاںتصویرکاایک رخ دیکھ
کرفوری فیصلہ کرلیا جاتا ہے ۔ہم تصویرکادوسرارخ دیکھنے اور سچائی تک رسائی
کی زحمت تک نہیں اٹھاتے لہٰذا ہمیں بیوقوف بنانا،گمراہ کرنا یاپھرجذباتی
طورپربلیک میل کرناہمارے دشمن کے بائیں ہاتھ کاکھیل ہے ۔ہمارے دشمن ملک ایک
ایجنڈے پرمتحد ہیں ،ان کے درمیان اسلام اورپاکستان دشمنی سمیت کئی قدریں
مشترک ہیںجبکہ ہمارے ہاں مخلص قیادت سمیت عوامی سطح پر اتحاد
اوراعتمادکابھی فقدان ہے ۔سیاستدانوں کاخیال ہے وہ امریکہ کی دشمنی مول لے
کرزندگی بھراقتدارمیں نہیں آسکتے ،ہمارے حکمران اللہ تعالیٰ کوسجدہ کرتے
ہیں مگر بدقسمتی سے ان کے دل میں قادرمطلق سے زیادہ امریکہ کا ڈراورخوف
ہے۔وہ اللہ تعالیٰ کی بجائے امریکہ کواپناہمدرد،روزی رساں اوررازداں سمجھتے
ہیں ۔امریکہ کی حکمت عملی آج بھی شکاری اورخرگوش والی ہے ۔امریکہ اپنے مطلب
کیلئے بت تراشنااوراپنے مفادکیلئے انہیں توڑناجانتا ہے۔ملالہ یوسف زئی
کامومی مجسمہ تیارکرنے اوراس گولی مارنے والے دومختلف ہاتھ نہیں ہیںورنہ
امریکہ کے مطابق جومبینہ طالبا ن دنیا کی واحدسپرپاور سے نہیں ڈرتے انہیں
اس معصوم بچی ملالہ یوسف زئی بچی سے کیاخوف یا خطرہ ہوسکتا ہے۔امریکہ ایک
ایساملک ہے جس کی دوستی اچھی اورنہ دشمنی اچھی ہے ۔امریکہ نہ صرف ہم سے
زیادہ ہماری کمزوریوں ،مجبوریوں اورخامیوں کو سمجھتا ہے بلکہ وہ ان سے
بھرپورفائدہ بھی اٹھاتا ہے۔وہ چال چلتا ہے اورہم باآسانی اس کے جال میں
پھنس جاتے ہیں۔ملالہ یوسف زئی کودہشت گردی نہیں ایک گہری اورگھناﺅنی سازش
کانشانہ بنایا گیا ۔اس پرہونیوالے حملے کے حوالے سے بی بی سی نے مبینہ
طالبان کی طرف سے ذمہ داری قبول کرنے کی خبردی اورہم نے فوراً ما ن لی ،کیونکہ
ہم اپناکان نہیں دیکھتے اورکتے کے پیچھے بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔جس طرح امریکہ
نے عراق کے پاس ممنوعہ ہتھیارہونے کازوردارپروپیگنڈا کیااوردنیااس کی باتوں
میں آگئی مگرعراق کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے باوجودوہاں سے کچھ برآمد نہیں
ہوا۔9/11کا سانحہ رونماہونے کے فوراًبعدامریکہ نے القائدہ کو اپناملزم
نامزدکردیا اوراس بار بھی دنیا نے فوراً مان لیا مگرحقیقت کچھ اورنکلی ،امریکہ
نے ایبٹ آبادآپریشن میں اسامہ بن لادن کوقتل کرنے کادعویٰ کیا اوردنیااس
پراسرارکردارکا جسدخاکی دیکھے بغیر پھرمان گئی مگرایبٹ آبادآپریشن کے حوالے
سے کئی اہم سوالات کے جواب آناابھی باقی ہیں ،اگراسامہ بن لادن واقعی
امریکہ کیلئے سب سے بڑاخطرہ تھاتووہ اس قدرآسانی سے کیوں ماراگیا۔بی بی سی
کی باگ ڈوربھیامریکہ کے ہاتھوں میں ہے اوربی بی سی کاکہنا ہے ملالہ یوسف
زئی پرحملے میں مبینہ طالبان ملوث ہیں ،ٹھوس شواہداورتحقیقات کے بغیر یہ
بات وثوق سے نہیں کی جاسکتی تاہم اس باربھی ہم نے آنکھیں بندکر کے ان کی
بات مان لی ۔ہمارے حکمران اورسکیورٹی ادارے امریکہ پراندھااعتماد کرنے کی
بجائے اپنا دماغ استعمال کیوں نہیں کرتے ۔اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ملالہ
یوسف زئی کوتوہوش آجائے گی مگرہماری مدہوش قوم کب جاگے گی،اللہ کرے ملالہ
یوسف زئی ہوش میں آنے کے بعدواقعی ''ہوش ''میں آجائے اوررچرڈہالبروک
اوربریگیڈئیرمارٹن جونزسمیت امریکہ کے مختلف حکام سے ہونیوالے روزونیازقوم
کوبتادے ۔
ہماراوطن پاکستان پچھلی کئی دہائیوںسے زخمی بلکہ چھلنی ہے ،1971میںاس کاایک
بازو کاٹ دیا گیا مگرپھربھی ہم گہری نیندسے نہیں جاگے ۔ہم نے اللہ تعالیٰ
سے کوئی فریاداورآہ وبکا نہیں کی ۔شہرقائدؒ سے ہرروزہمارے عزیزواقارب کے
جنازے اٹھتے ہیں مگرہم نے اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑانااوردعاکیلئے ہاتھ
اٹھانا چھوڑدیا ہے۔آج تک کوئی حکمران ٹارگٹ کلنگ کانشانہ بننے والے بیگناہ
شہریوں کے ورثاکی اشک شوئی کیلئے ان کی دہلیزتک نہیں گیامگرہلالہ یوسف زئی
کے گھرکامسلسل طواف کیاجارہا ہے۔ صرف ایک ملالہ یوسف زئی نہیں پاکستان
میںکروڑوں بچے امن وآشتی کے داعی ہیں اورپاکستان میں تعلیم کافروغ ان
کاخواب اورمشن ہے مگرانہیں کوئی امریکہ کااہلکار نہیں ملتا توپھرملالہ یوسف
زئی میں میں کیا خاص بات ہے جو امریکہ کے حکام اس کے ماں باپ سمیت ملتے رہے
ہیں ،اس بچی کیلئے قومی اسمبلی میں قرارداد پاس اوردعاکی گئی،حکومت کے اس
امتیازی رویے سے ڈرون حملوں میں مارے جانیوالے معصوم بچوں کے پسماندگان
کااحساس محرومی سے دوچارہونافطری ہے ۔من حیث القوم ہماری منافقت قابل نفرت
ہے۔
ملالہ یوسف زئی کولگنے والی ایک گولی سے حملے کے ماسٹرمائنڈ نے کئی شکار
کئے ہیں ۔ ملالہ یوسف زئی پرکامیاب مگربزدلانہ حملے کے نتیجہ میں کون فائدے
میں رہااورکون نقصان میں ،اس بات پرغورکرنااوراسے سمجھنازیادہ مشکل نہیں
ہے۔اس حملے سے18کروڑ پاکستانیوں کی توپوں کارخ جوگستاخانہ فلم کے حوالے سے
امریکہ کی طرف تھاوہ اچانک مگرپوری طرح طالبان کی طرف موڑدیا گیا ۔عمران
خان کاتاریخی امن مارچ راتوں رات قصہ پارینہ بن گیا ،اوراس طرح کئی دوسرے
اہم قومی ایشوزعارضی طورپردب گئے۔ملالہ یوسف زئی پرہونیوالے حملے
کوبنیادبناکرمبینہ طالبان کیخلاف معاشرے میں اشتعال اورشمالی وزیرستان میں
فوجی آپریشن کاجواز پیداکیا جارہا ہے ۔امریکہ کے ہاں اگردس مجرموں کے ساتھ
ایک بیگناہ کے مرنے کاخدشہ تووہ آپریشن نہیں کیا جاتا جبکہ اس اصول سے
متضاداگرپاکستان میں ایک گناہ گارکومارنے کیلئے پندرہ بیگناہوں کے مارے
جانے کاڈرہوتوامریکہ وہ آپریشن کرگزرتا ہے اورنتائج کی کوئی پرواہ نہیں
کرتا۔اب تک ہونیوالے ہرڈرون حملوںکئی بیگناہ مارے گئے ہیں،مگرہمارے ہاں صرف
ملالہ کے زخمی ہونے کا ماتم کیا جارہا ہے ۔ہمارے وہ ہم وطن جوریمنڈڈیوس کے
ہاتھوں بیدردی سے مارے گئے تھے ان کیلئے عوام نے سوگ کیوں نہیں منایا ،ان
کیلئے دعائے مغفرت کیوں نہیں کی گئی ،ان کے گھرکوئی حکمران نہیں گیا۔جامعہ
حصہ میں ہماری حافظ قرآن بہنوں اوربیٹیوں کے ساتھ جس درندگی کامظاہرہ کیا
گیا اس پرمیڈیا نے شورکیوں نہیں مچایا۔اس وقت نام نہاد روشن خیال این جی
اوزکہاں تھیں۔
میں پھرکہتا ہوں ہمارے ہم وطنوں کی یاداشت بیحدکمزوراورہاضمہ انتہائی
طاقتورہے ،ہم بڑے سے بڑاواقعہ اورقومی سانحہ محض چندروزمیںفراموش کردیتے
ہیں جبکہ ہمارے ہاں ایک دوسرے کی بڑی سے بڑی برائی ہضم کرلی جاتی ہے۔ کیا
ڈرون حملے کرنے اورہمارے معصوم بچوں کوبیدردی سے موت کے گھاٹ اتارنے
اورہمارے دشمن ملک بھارت کودفاعی طورپرمضبوط کرنے والے امریکہ سے کسی
بھلائی کی امید کی جاسکتی ہے۔مانا طالبان ہمارے دشمن ہیں توکیا امریکہ
ہمارادوست ہے ۔وہ قوم انتہائی بدقسمت ہے جواپنے دوست اوردشمن کے درمیان فرق
نہیں کرسکتی ۔مخلص اورمدبرقیادت سے محروم ایٹمی پاکستان کامقابلہ ایک
شیطانی تکون سے ہے ،بدقسمتی سے ہمارے کچھ روشن خیال نجی ٹی وی چینل بھی
شیطانی تکون کی زبان بول رہے ہیں اورپاکستانیوں کوغیرمحسوس اندازمیں روشن
خیالی کاٹیکہ لگایا اوراسلام کے نام پرمعرض وجود میں آنیوالے ملک میں جانتے
بوجھتے بے حیائی کوفروغ دیا جارہا ہے۔ہمارے مفتی اورعلماءحضرات جومسلسل ایک
دوسرے کونیچادکھانے میں مصروف ہیں جبکہ اسلامی اقدارکوسرعام پامال کیا
جارہاہے ۔اسلامی معاشرے میں ہندوﺅانہ رسوم کافروغ انتہائی شرمنا ک
اورخطرناک ہے ۔اب ہمارے ہاں بھی مغربی کلچر کی نقل کرتے ہوئے کسی زخمی ہونے
اورمرنے والے کیلئے ایک یادومنٹ کی خاموشی اختیار کی جاتی ہے ۔قبورکی بجائے
جائے حادثہ پرپھول رکھنااور موم بتیاںروشن کرناہرگزہماراکلچر نہیں ہے
مگرجان بوجھ کریہ سب کچھ ہورہا ہے جبکہ ہمارے علماءاوردانشورحضرات سمیت
میڈیاوالے بھی اس مجرمانہ روش کیخلاف آوازیاانگلی نہیں اٹھارہے ۔ملک
میںجمہوریت کی رٹ لگانے والی سیاسی قیادت کوعوام کی تربیت سے کوئی سروکار
نہیں ہے ۔سیاستدانوں کواس بات کاادراک ہے کہ اگرعوام آپس میں متحد ہوگئے
توان کی مستقل چھٹی ہوجائے گی ۔
کیا ملالہ یوسف زئی کے خون کارنگ ڈرون حملے میں مارے جانیوالی بیٹیوں کے
لہوکی رنگت سے مختلف ہے۔کیا امریکہ کی قیدمیں پل پل مرنے والی بیگناہ ڈاکٹر
عافیہ صدیقی ہماری بیٹی ،بہن اورہماری دعاﺅں کی مستحق نہیں ۔صدرزرداری
کاملالہ یوسف زئی کوپاکستان کاچہرہ کہنااوراثاثہ قراردینادرست نہیں ۔ارباب
اقتدار سمیت مختلف سیاستدان اورجرنیل ڈرون حملوں سے ہلاک اور زخمی ہونیوالی
بیٹیوں اوربیٹوں کے پسماندگان کی اشک شوئی کیلئے کیوں نہیں جاتے ۔ جولوگ
ڈرون حملوں اوربھوک سے مرتے ہیں کیا حکمرانوں کے نزدیک ان کی زندگی ملالہ
یوسف زئی کی طرح قیمتی نہیں ہے۔ملالہ یوسف زئی کے معاملے میں پوری دال کالی
ہے،حالات وواقعات اسی طرف اشارہ دے رہے ہیں ۔ حکومت اور کرنٹ میڈیا خودبھی
ہوش میں آئے اور عوا م کوبھی ہوش کی دوادے، ملالہ یوسف زئی پرہونیوالے حملے
کی سازش اوراس میں ملوث کرداروں کے چہروں سے پردہ اٹھایاجائے ۔ |