صوبوں کی تقسیم اور میڈیا

میڈیا پر پیش کردہ سوالات میں ان کا جواب بھی موجود ہوتا ہے اور ان سوالات کے اٹھانے والوں کے مفادات کا عکس بھی بالکل واضح ہے۔ میڈیا کا ایک پسندیدہ موضوع نئے صوبوں کا قیام ہے جسے بھاری بوجھ اُٹھانے والے اینکر اس انداز سے پیش کرتے ہیں جیسے وہ اصل محرکات اور ان کے پیچھے سازشوں سے ناو اقف ہوں۔ وہ نئے صوبوں کی بات کرنیوالے سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کے نمائندوں سمیت ان کی سوچ اور مفاد کو نئے رنگ میں پیش کرنیوالے صحافیوں اور دانشوروں کو پہلے سے طے فارمولے کے تحت بولنے کی نہ صرف آزادی دیتے ہیں بلکہ ایک آدھا لقمہ ان کی تائید میں بھی ادا کر دیتے ہیں۔ یہ اینکر جو سرکاری دانشور بھی ہیں کبھی بھی سچی اور حقیقی رائے دے کر پروگرام کا اختتام نہیں کرتے جو کہ صحافتی اخلاقیات کی بنیاد ہے۔ اینکر دانشوروں میں سے بہت کو اس بات کا گھمنڈ ہے کہ وہ سال ہا سال سے لکھتے آئے ہیں اور ان کا تجربہ ان کی دانش کا سرٹیفیکیٹ ہے۔ ان اینکروں اور دانشوروں سے گزارش ہے کہ وہ اپنا تجزیہ کریں اور دیکھیں کہ ان کی تحریروں کو کون پڑھتا تھا اور اس کا عوام الناس پر کیا اثر ہوتا تھا۔ کچھ دانشوروں اور اینکروں نے جیلیں بھی کاٹی ہیں اور ان کی بھی ڈیمانڈ ہے کہ انہیں اب سزا کے طور پر سنا جائے ورنہ وہ ہر چیز کو تہس نہس کر دینگے۔ جو وہ ویسے بھی کر رہے ہیں۔معذرت کے ساتھ ، میں بھی اسی پیشے سے وابسطہ ہوں مگر حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ملک میں صحافی بھی عوام دوست نہیں رہے اور نہ ہی کسی صحافی نے عوامی مشکلات اُجاگر کرنے کی وجہ سے جیل کاٹی ہے۔ صحافت ہمیشہ دائیں یا بائیں بازوں کی ترجمان رہی ہے۔ اسی طرح جس بازوں نے اقتدار سنبھالا دوسرے بازوں کو مڑوڑ دیا جس کی لپیٹ میں صحافی حضرات بھی آگئے۔ ان صحافیوں میں ایسے بھی ہیں جو ہربر سر اقتدار بازوں سے چمٹنے کا گُر بھی جانتے ہیں اور ہمیشہ اقتدارکی چھتر چھایا میں رہتے ہیں۔ جہاں تک نئے صوبوں کا تعلق ہے تو اگر اس کی واقعہ ہی ضرورت ہے تو آغاز بلوچستان اور خیبر PKسے ہونا چاہیے۔ خیبر PKپہلے سے تین حصوں میں تقسیم ہوچکا ہے جس میں فاٹا،پاٹا اور خیبر PKتین الگ سیاسی وجود ہیں۔ دیکھا جائے تو ملک کے اندر جو سیاسی ابتری اور دہشت گردی کی لہر موجود ہے اس کا باعث صوبہ خیبر PK کی سیاسی،سماجی اور انتظامی تقسیم ہے۔ جب تک یہ تقسیم ختم نہیں ہوتی اور سرحدی علاقوں کے عوام کو ملک کے دیگر صوبوں کے برابر حقوق نہیں ملتے نہ دہشت گردی ختم ہوگی اور نہ ہی ملک میں سیاسی استحکام پیدا ہوگا۔

اس قضیے کو حل کرنے کی دو ہی صورتیں ہیں۔ اوّل یہ کہ ساتوں قبائلی پولیٹیکل ایجنسیوں کو صوبہ خیبر PKمیں ضم کر دیا جائے اور آئینی ترمیم کے ذریعے قبائلی علاقوں اور عوام کو مساویانہ حقوق دیئے جائیں۔ ہر ایجنسی کو رقبے اور آبادی کے لحاظ سے ضلعوں اور تحصیلوں میں تقسیم کر کے وہاں ایڈمنسٹریشن قائم کی جائے اور ہنگامی بنیادوں پر ہر ایجنسی میں دو دو یونیورسٹیاں اور میڈیکل کالج قائم کئے جائےں۔ اسطرح سکولوں اور کالجوں کی تعداد بڑھائی جائے اور اقوام متحدہ کے ذریعے ساری دنیا کے امیر ممالک سے ان ایجنسیوں کی ترقی اور خوشحالی کےلئے امداد کی اپیل کی جائے اور حاصل شدہ رقوم کو اقوام متحدہ کے بنائے ہوئے کسی امدادی کمیشن کے ذریعے ہی خرچ کیا جائے۔ جب تک افغان سرحد پر فاٹا اور پاٹا موجود ہیں۔ دنیا میں اور خاصکر پاکستان میں دہشت گردی میں اضافہ ہوگااور پاکستان کبھی خوشحال اور سیاسی لحاظ سے مضبوط ملک نہیں بن سکے گا۔

چونکہ فاٹا اور پاٹاکی موجودگی سے بڑے بڑے مگر مچھوں کے مفادات منسلک ہیں اور ان کی خوشحالی اور آسودگی کے سامان ان سات ایجنسیوں کے مرھون منت ہیں اسلئے کسی اینکر، دانشور اور سیاستدان کی نظر اس طرف نہیں جاتی۔ فاٹا اور پاٹا دہشت گردی کے مراکز ہی نہیں بلکہ دنیا بھی کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی آماجگاہ بھی ہیں۔فاٹا اور پاٹا منشیات، مہلک ہتھیاروں اور دیگر اشیاءسمگلنگ کے مراکز اور منڈیاں ہیں۔ ان ایجنسیوں میں عوام اور سرکاری مشینری بشمول فوج جس قدر غیر محفوظ ہیں، سمگلر، دہشت گرد اور غیر ملکی ایجنٹ اتنے ہی محفوظ ہیں۔ فاٹاکے ایم این اے اورسینیٹر مرکزی حکومت میں سیاسی اپ سیٹ کرنے کا اہم ذریعہ ہیں۔ یہ سنیٹرز اور ایم این اے اپنے عوام کی کیا نمائندگی کرتے ہیں ؟ اس کا احوال ساری دنیا کے سامنے ہے ۔ یہ لوگ ہمیشہ حکومتی پارٹی کا حصہ ہوتے ہیں اور ہر سال کروڑوں کماتے ہیں۔ اگر ان حضرات کے حلقہ انتخاب کی طرف دیکھا جائے تو سوائے مایوسی اور محرومی کے کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ فاٹا کے ایم این اے طلسماتی لوگ ہیں ان کی اس جرات کو بہر حال داد دینی چائیے کہ وہ الیکشن لڑنے ایک بار ضرور جاتے ہیں اور ہمیشہ جیت کر اور زندہ وسلامت واپس آجاتے ہیں۔حلف برداری کے بعد یہ لوگ پشاور اسلام آباد یا پھر دبئی ، شارجہ اور مشرق بعید کے ممالک میں پائے جاتے ہیں۔ ان کے علاقوں پر طالبان یلغار کریں، افغان افواج حملہ آور ہو ں یا امریکی ڈرون آگ برسائیں ان کی بلا سے۔

یہی حال بلوچستان کا ہے۔ بلوچستان بھی چار حصوں میں تقسیم ہے جسے یکجا کرنے یا پھر چار صوبوں میں تقسیم کرنے کی ضرورت ہے۔ ساراوان اورجھاراوان پہلے سے موجود ہیں جو کہ سرداری اور نوابی نظام کی تقسیم ہے۔ اسی طرح بلوچستان کا پختون علاقہ بلوچ علاقوں سے الگ ہے اور کسی بلوچ پختون قبائل سے تعلق داری، رشتہ داری اور قربت نہیں جبکہ مشرقی بلوچستان جس میں جھل مگسی، ڈیرہ مراد جمالی اور سبی وغیرہ شامل ہیں ایک وسیع علاقے پر مشتمل الگ پہچان کا حامل خطہ ہے۔ جس پر بلوچی کم اور سندھی تہذیب کی زیادہ چھاپ ہے۔ کوئٹہ مرکز سے دور اور سو میل سے زیادہ سلسلہ کوہ کی دوسری جانب واقع ہونے کی وجہ سے اس علاقہ پر حکمران طبقے کی نظر کم ہی پڑتی ہے۔ جس طرح موجودہ حکومت سندھ کی شہری اور دیہی تقسیم پر ڈٹی ہوئی ہے اگر سندھ سے منسلک بلوچستان کے علاقوں پر مشتمل ایک انتظامی یونٹ بنا دیا جائے تو ہو سکتا ہے کہ ان علاقوں میں بسنے والے عوام کی زندگیوں میں بھی خوشحالی نام کی کوئی چیز آجائے۔ بلوچستان میں بھی فاٹا اور پاٹا کی طرح Aاور Bایریاز ہیں جہاں حکومت کی کوئی گرفت نہیں۔ فاٹا کی طرح یہ علاقے بھی افغان سرحد پر ہیں جہاں کسی اینکر کاکیمرہ، صحافی اور دانشور کی سوچ نہیں جاتی۔ بلوچستان کے حالات پر تو بہت بات ہوتی ہے اور پاکستان کو ٹوٹتا اور بکھرتا دیکھنے والے اینکروں، نام نہاد سیاستدانوں اور دانشوروں کی سوئی اس بات پر اٹک جاتی ہے کہ بلوچستان کے حالات مشرق پاکستان سے بھی بدتر ہیں اور آزاد بلوچستان کی صورت میں ایک اور بنگلہ دیش پکے ہوئے پھل کی طرح ان کی جھولی میں گرنے والا ہے۔

اللہ ان اینکروں، دانشوروں اور سیاستدانوں کی ہر خواہش پر عذاب نازل کرے یا پھر انہیں حقیقت کا سامنا کرنے کی توفیق دے کہ وہ سچ بولیں اور سچ لکھیں۔تا کہ عوام الناس اصل حقائق سے واقف ہو سکیں۔ جناب حامد میر نے اپنے ایک شو میں نسل در نسل مسلم لیگی خواجہ آصف سے زور دے کر کہلوایا کہ پنجابی فوج بلوچوں کی نسل کشی کر رہی ہے۔ جناب میر صاحب کے دل میں فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف نفرت ان کے ہر پروگرام میں کسی نہ کسی صورت سامنے آجاتی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان میں کوئی فوجی آپریشن نہیں ہورہا، وہاں جو بھی کاروائی ہو رہی ہے وہ ایف سی کر رہی ہے۔ اگر جناب حامد میر اور خواجہ آصف ایف سی کی تنظیم پر توجہ دیں تو ایف سی فوج نہیں بلکہ ایک نیم فوجی تنظیم ہے جو صوبائی حکومت کے ماتحت کام کرتی ہے۔ ایف سی وزارت داخلہ اور وزیر اعلٰی کی طرف سے دیئے گئے احکامات کی پابند ہے اور بلوچستان کا وزیر اعلی کبھی پنجابی نہیں ہوتا۔ ایف سی کے جوان بھی صوبے کے ہی باشندے ہوتے ہیں اور اکثریت پٹھانوں کی ہوتی ہے۔ پٹھانوں کے بعد ڈیرہ غازی خان، میانوالی، بھکر سے تعلق رکھنے والے بلوچ بھی ایف سی میں بھرتی ہوتے ہیں مگر ان کی تعداد کم ہوتی ہے۔ ایف سی کے افسر پاک فوج سے لئے جاتے ہیں اور ترجیح پشتو، ہند کو اور سرائیکی بولنے والے افسران کو دی جاتی ہے جس کی وجہ ٹروپس کے ساتھ کمیونیکیشن اور بارڈر کے دوسری جانب بولی جانے والی زبان جو کہ پشتو ہی ہے کی سدھ بدھ رکھنا ہوتی ہے۔ ایف سی کا بنیادی کام پاک افغان بارڈر کی حفاظت اور صوبے میں امن و امان قائم رکھنا ہے جسکے احکامات صوبائی حکومت دیتی ہے۔

ان ٹی وی اینکرز کے دل میں فوج اور آئی ایس آئی کی نا پسندیدگی کی معقول وجوہات ہو سکتی ہیں مگر انہیں ہر بات دلیل اور شوائد کے ساتھ کرنی چاہیے۔ اگر ایف سی بلوچستان میں کچھ غلط کر رہی ہے تو اس کا ذمہ وہاں کے وزیر اعلی ،گورنر اور ملک کے وزیر داخلہ کے سر ہے فوج کے نہیں۔ یہ کہنا اور خواجہ آصف سے فتویٰ حاصل کرنا کہ پنجابی فوج بلوچوں پر ظلم کر رہی ہے نہ سچ ہے اور نہ ہی حقیقت۔ جناب حامد میر کے اس پروگرام کے بعد بلوچستان میں بسنے والے کتنے پنجابی قتل ہوئے؟ ان کی جائیدادیں چھین لی گئیں یا پھر جلا دی گئیں۔ اس پر حامد میر کبھی پروگرام نہیں کریں گے اور نہ ہی ان لوگوں کو اپنے شو میں مدعو کر کے ان کی بھپتا عوام کے سامنے رکھیں گے۔

بلوچستان میں آج جو ہو رہا ہے اس کی منصوبہ بندی بہت پہلے سے ہو چکی تھی جس کی نشاندہی جنرل قیوم نے اپنے سلسلہ وار کالموں میں کی مگر کسی نے دھیان نہ دیا۔ اگر یہ ٹی وی ایکٹرز چاہیں تو جنرل عبدالقیوم کو اپنے شو میں مدعو کریں تا کہ قوم کو پتہ چلے کہ امن کی آشا کا اصل روپ کیا ہے اور ان امن کے گیت میں پاکستان کی بربادی کا کیا پیغام چھپا ہوا ہے۔ اگر جناب اکبر بگٹی کا سانحہ نہ بھی ہوتا تو بلوچستان میں ہلچل ضرور ہوتی اور اسے کوئی دوسرا رنگ دے دیا جاتا۔

حکومت نئے صوبے بنانے، عدلیہ سے بگاڑ پیدا کرنے کے علاوہ پٹرول اور گیس کی من مانی قیمتیں وصولنے اور ٹی وی شوز کے ذریعے عدلیہ پر پھبتیاں کسنے کے علاوہ کچھ کر رہی ہے تو کرپشن کو قانونی تحفظ فراہم کر رہی ہے۔اور اب اس کو قانونی تحفظ احتساب بل کی صورت میں دیا جا رہا ہے۔ اپوزیشن حکومتی کاروائیوں پرخاموشی میں ہی آفیت سمجھتی ہے یا پھر کوئی بھونڈا بیان داغ کر کچھ عرصہ کے لئے آرام فرماتی ہے۔ میڈیا اس کھیل کا ریفری ہونے کے علاوہ بگاڑ کو مزید بگاڑنے کا سبب بنتا ہے اور دانشور اینکر مال کی مناسبت سے مزاح پیش کرتے ہیں۔
asrar ahmed raja
About the Author: asrar ahmed raja Read More Articles by asrar ahmed raja: 95 Articles with 90703 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.