ملالہ یوسف زئی پر حملہ اور مغربی ممالک کی دلچسپی

اہل مغرب جب بھی کسی کی تعریف کرتے ہیں یا برائی بیان یا مذمت یا خیرمقدم کرتے ہیں تووہ غرض سے خالی نہیں ہوتا۔ پوری دنیا میں عیسائیوں کو خدمت خلق کرنے کے نام بھی جانا جاتا ہے اور کسی حدتک یہ سچ بھی ہے یہ الگ بات ہے کہ وہ اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے خدمت خلق کا راستہ منتخب کرتے ہیں کیوں کہ جو راستہ شکم سے جاتا ہے وہ پائدار ہوتا ہے ۔ عیسائیوں کے خدمت خلق کا جلوہ اور حقیقی منظر دیکھنا ہے تو شمال مشرق کی ریاستیں، قبائلی اور غربت زدہ علاقوں کو دیکھا جا سکتا ہے جہاں کچھ عرصہ میں جہاں عیسائی معدودے چند تھے آج اکثریت میں ہیں اور حکمراں ہیں۔ ڈالر ایسا ہتھیار ہے جس سے سب کو رام کیا جاسکتا ہے۔ مغرب کی تھوڑی سی مدد اس کے نتیجے میں ہزاروں کو برائیوں کو جنم دیتی ہے۔ یہی بات گجرات کے ایک عالم دین، جو منگولیا اور البانیہ میں طویل عرصہ تک قیام کرچکے ہیں اور دینی و رفاہی کاموں سے بھی وابستہ رہے ہیں، نے کہی تھی کہ اگر مغرب دس ڈالر کی امداد دیتا ہے تو سو ڈالر کی برائیاں چھوڑ جاتا ہے۔ اس وقت یہ بات عجب سی لگی تھی بھلا مدد سے برائیاں کیسے پھیل سکتی ہیں لیکن جیسے جیسے مغرب کے چہرے سے نقاب اتر رہا ہے ، اس کا دہرا پیمانہ اور خودغرضی عوام کے سامنے آرہی ہے ویسے ویسے پرت درپرت کھلتی جارہی ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مغرب کی بہت ساری چیزیں اچھی ہیں لیکن اچھائی کے ساتھ وہ اشتراک کرنا نہیں چاہتے بلکہ ان کی ساری دلچسپی برائیوں کے ساتھ اشتراک میں ہوتی ہے۔ ڈالر کے ذریعہ ہر ملک اور ہر معاشرے میں ہزاروں ایسے افراد پیدا کرلیتے ہیں کہ اس کے ہر جائز و ناجائز قدم کی تعریف و توصیف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے رہے ہیں۔ یہ مغرب کا وطیرہ ہے کہ اس کا کوئی قدم ذاتی مفاد سے خالی نہیں ہوتا ۔ دنیا میں خصوصاً اسلامی ممالک کو تخت و تاراج کرنے اور وہاں انتشار پھیلانے کے لئے وہیں کے افراد کو منتخب کرتے ہیں اور انعامات کے سہارے انہیں اپنا گرویدہ بناتے ہیں اور اسے ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے ، مغرب میں بلاکر ان کی ذہن سازی کی جاتی ہے اور پھر معاشرے میں انتشار و افتراق پھیلانے کا کام لیا جاتا ہے ۔ اس کے مختلف طریقے ہوتے ہیں جیسے مسلم خواتین کی حقوق ، عورتوں کی آزادی، عورتوں کی تعلیم، مسلم سماج کو دقیانوسی قرار دینا، مسلم خواتین کے پردے ان پر ظلم قرار دینا اور خواتین کے گھروں میں رہنے کو چہار دیواری میں قید قیدی قرار دینا وغیرہ وغیرہ ۔ ایسے دلکش موضوع منتخب کرتے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ واقعی وہ مصلح معاشرہ ہے اور معاشرہ کی بہتری کے لئے کچھ کرنا چاہتا ہے لیکن اصلاح معاشرہ کے لئے بنیادی اصول نہیں اپنائے جاتے اور نہ ہی وسائل بروئے کار لائے جاتے ہیں ۔ اگر اس پر عمل کیا جاتا ہے بھی تو سب سے پہلے مذہب کو نشانہ بنایا جاتا ہے جس کے بارے میں تمام دنیا کو معلوم ہے یہ کہ انتہائی حساس معاملہ ہے ۔ اس کے لئے مسلمان جان تو دے سکتے ہیں لیکن اس کی توہین برداشت نہیں کرسکتے۔ملالہ کے بارے میں مغرب کی حد سے زیادہ دلچسپی، تعریف و توصیف میں تمام حدود کو پار کرنا، مذمت کرنے میں سب سے آگے رہنا ، مغرب کے تمام رہنما کے بیانات اور وہاں کے تمام اخبارات میں اس خبر کو نمایاں جگہ دینا اپنے آپ میں بہت کچھ کہتا ہے اور بہت کچھ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔کیوں کہ مغرب بغیر مقصد اتنا اتاولانہیں ہوتا۔
 

image

ملالہ پر حملہ ایک انتہائی بزدلانہ، وحشیانہ، سفاکانہ اور قابل مذمت قدم ہے ۔ اس طرح کے کسی قدم کیلئے مہذب سماج میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ ملالہ کا قصور کیا تھا صرف یہی کہ وہ تعلیم نسواں کے حق میں آواز اٹھاتی تھی؟۔اس لڑکی کا تعلق وادی سوات سے ہے جہاں کے اسکول امریکہ، پاکستان اور طالبان کی عنایتوں کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ اسلام تعلیم کے معاملے میں مرد و عورت کے مابین کوئی امتیاز نہیں کرتا۔ دونوں پر حصول علم فرض قرار دیاگیا ہے۔ تو پھر طالبان لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف کیوں ہیں؟۔ اگر طالبان کا دین سے تھوڑا سا بھی تعلق ہے اور اپنے آپ کو دین کا علمبردار سمجھتے ہیں کہ توانہوں نے ملالہ پر حملہ کیوں کیا۔ نظریہ کے مخالفین کو سزا دینے کا یہ کونسا طریقہ ہے جب کہ اسلام کا طریقہ یہ ہے کہ جنگ کے دوران بھی بچوں، بوڑھوں اور خواتین کو قتل کرنے سے منع کیاگیا ہے تو پھر طالبان کس مذہب کو تسلیم کرتے ہیں ۔طالبان کی اس کرتوت کی وجہ سے اسلام اور مسلمانوں کا کتنا بڑا نقصان ہوا ہے۔ کیا اسی طالبان نے کیا ہے جس کے قید میں تین سال تک رہنے والی رینڈلے مریم جب ملک اپنے ملک واپس جاتی ہے مشرف بہ اسلام ہوجاتی ہے اور کئی موقعوں پر طالبان کا دفاع کرتی ہے اور کہتی ہے کہ طالبان ایسا کر ہی نہیں سکتے۔ انہوں نے طالبان کو بہت سے موقعوں پر اشتعال دلانے کی کوشش کی یہاں تک اس کے منہ پر تھوک بھی دیا لیکن وہ مشتعل نہیں ہوئے اور ہر طرح سے ان کا خیال رکھا جس طرح اسلام کے دائرے میں رکھا جاتا ہے۔ پھر وہ اس طرح کی حرکت کیسے انجام دے سکتا ہے۔ پوری دنیا میں اس واقعہ کی وجہ سے آج س کا کریہہ چہرہ پیش کیا جارہاہے۔ طالبان کو اپنی تحریک اور انسانی اتلاف پر ازسرنو غور کرنا چاہئے۔ لڑائی اگر امریکہ سے ہے تو پھر اس کی زد میں بے قصور ہزاروں لوگ کیوں مارے جارہے ہیں؟۔

ملالہ یوسف زئی کو اس وقت شہرت ملی جب انہوں نے گل مکئی کے قلمی نام سے سوات میں پیش آنے والے جنگی حالات پر مبنی ڈائری لکھنے لگی جسے بی بی سی اردو نے اپنے ویب سائٹس پر شائع کیا۔ اس ڈائری میں سوات، تعلیم، اسکول ، مولانا کی ایف ایم پر تقریر کے بارے میں لکھا ہے۔ ۲۰۰۹ میں ملالہ پر دستاویزی فلم بنانے والے ایڈم بی ایلک کو اس نے بتایا تھا ’میں بہت بور ہو رہی ہوں کیونکہ میرے پاس پڑھنے کے لیے کتابیں نہیں‘۔ آپریشن میں فوج کی جزوی کامیابی کے بعد ملالہ تقریباً ایک سال سے زائد کے عرصے کے بعد مینگورہ لوٹ سکی تھی۔ دو ہزار نو کے دوران ملالہ نے ٹی وی پروگراموں میں شرکت اور عوامی سطح پر خواتین کی تعلیم کے لیے مہم شروع کر دی تھی۔ اس عوامی پہچان کے نتیجے میں ملالہ ’سوات کا ترقی پسند چہرہ‘ بن کر سامنے آئی۔سوات کی صورت حال کو اجاگر کرتے ہوئے ایک جگہ ڈ ائری میں لکھتی ہے کہ ...اسکول میں بچے اس افواہ پر بھی بات کررہے تھے کہ ایف ایم پر تقریر کرنے والے مولانا (فضل اللہ ) فوت ہوچکے ہیں ہم سب کی دعا تھی کہ وہ واقعی مر چکے ہوں۔ وہ ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے اعلان کیا تھا کہ لڑکیوں کو اسکول نہیں جانا چاہئے۔بعض نے کہا کہ مولانا چھٹیوں پر چلے گئے ہیں کیونکہ وہ ہر رات کو پابندی سے ایف ایم ریڈیو پر تقریر کرتے تھے اور انہوں نے گزشتہ رات تقریر نہیں کی تھی... آج پندرہ جنوری تھی یعنی طالبان کی طرف سے لڑکیوں کے سکول نہ جانے کی دھمکی کی آخری تاریخ مگر میری کلاس فیلو کچھ اس اعتماد سے ہوم ورک کر رہی ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔آج میں نے مقامی اخبار میں بی بی سی پر شائع ہونے والی اپنی ڈائری بھی پڑھی۔ میری ماں کو میرا فرضی نام’گل مکئی‘ بہت پسند آیا اورابو سے کہنے لگیں کہ میرا نام بدل کر گل مکئی کیوں نہیں رکھ لیتے۔ مجھے بھی یہ نام پسند آیا کیونکہ مجھے اپنا نام اس لیے اچھا نہیں لگتا کہ اسکے معنی ’غمزدہ‘ کے ہیں۔ ایک جگہ اور اپنی ڈائری میں ایک ایسی بات لکھی ہے جس سے اس کی ذہنیت اجاگر ہوتی ہے ۔ انہوں نے لکھا کہ ...میں اسکول روانہ ہونے کیلئے یونیفارم پہن ہی رہی تھی کہ مجھے یاد آیا کہ ہمارے پرنسپل نے ہمیں یونیفارم پہننے سے منع کردیا تھا اور کہا تھا کہ گھر کے سادہ کپڑوں میں اسکول آیا جائے اور برقعہ پہن کر۔ مجھے تو برقعہ دیکھ کر ہی پتھر کا زمانہ یا د آتا ہے اور داڑھی والے دیکھ کر فرعون...۔۲۰۱۱ میں اسے کڈز رائٹس فاؤنڈیشن نے بچوں کے عالمی امن انعام کے لیے نامزد کیا جبکہ گزشتہ برس کے اواخر میں حکومتِ پاکستان نے اسے قومن امن ایوارڈ دیا جسے بعد ازاں نیشنل ملالہ امن انعام کا نام دے دیا گیا اور اعلان کیا گیا کہ یہ اٹھارہ برس سے کم عمر بچوں کو دیا جائے گا۔

وادی سوات کی ۱۴ سالہ طالبہ ملالہ کی جرات و بہادری اس لئے قابل تعریف ہے کہ اس وقت انہوں نے طالبان کے خلاف آواز بلند کی جب طالبان کے خلاف کوئی بھی منہ کھولنے سے گھبراتا تھاان میں سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ نہایت دلیری سے تعلیم سے محبت اور جبر و تشدد اور دہشت گردی سے نفرت کی علامت بن گئی ہے۔یہ وہ علاقہ ہے جہاں برسہا برس سے قبائلی رسم و رواج سماج پر حاوی ہے۔ جہاں خواتین کے بارے میں قدیم خیالات ہیں۔ اسلام کی صحیح روشنی ان پر نہیں پڑی ہے۔ وہ جہالت کی تاریکیوں میں ہچکولے کھارہے ہیں اور ملالہ اس سے لڑ کر اپنے علاقے کی ساری بچیوں کو زیورِ علم سے آراستہ دیکھنے کی متمنّی ہے۔ملالہ اپنے ماحول میں رائج اس دقیانوسی سوچ کو بدلنا چاہتی ہے کہ جیسا کہ سماج کا تصور ہے کہ عورتوں کے لیے تعلیم ضروری نہیں۔وہ انقلابی سوچ کی حامل طالبہ ہے گرچہ اس کا دوسرا پہلو بھی ہے جس پر آگے بات کی جائے گی۔ انہوں نے روزنامہ ڈان کے ساتھ ایک انٹرویو میں تعلیم کے فروغ کے لئے اپنی سیاسی پارٹی بنانے کا عندیہ بھی ظاہر کیا تھا۔ اس کے علاوہ کئی پاکستانی خاتون صحافی نے اسے امید کی کرن قرار دیتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ وہ بہت آگے جائے گی۔ ملالہ پر حملہ پر کے سلسلے میں جہاں سیاسی جماعتیں بہت محتاط انداز میں اپنے ردعمل کا ظہار کیا ہے وہیں پہلی مرتبہ ایسا دیکھا گیا کہ پورے پاکستان میں ملالہ کے لئے ہمدردی کی لہر دوڑی ہے اور پورے پاکستان ہی نہیں دنیا کے بیشتر ممالک میں ان کے لئے دعائیں کی گئیں۔ ملالہ پر حملے کے لئے جہاں ایک طرف جرات کو وجہ بتائی گئی وہیں بعض حلقے میں مغرب کی حد سے زیادہ دلچسپی اور وظفیہ خوار میڈیا اور دانشوروں کا اسے ہیروئن کی شکل میں پیش کرنا بھی قرار دیا گیا ہے۔جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد کے مطابق ملالہ پران لوگوں نے بھی زیادتی کی جنہوں نے ملالہ کو ایک ہیروئن بنایا اور اس کے کردار کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا ۔ پاکستان میں سرگرم امریکہ اور مغربی ممالک کی وظیفہ خوار این جی اوز ، لِبرل ،فاشسٹ طبقہ، تجدد پسند اور مغرب زدہ دانشور ، صحافی اور اینکرز بھی ملالہ کے اتنے ہی بڑے دشمن ہیں جتنا کہ طالبان کیوں کہ وہ ملالہ کو ایک ایسی حیثیت میں اپنے طور پر متعارف کرانے کی مکروہ کوشش کر رہے ہیں جس کا ملالہ یا اس کے خاندان نے کبھی دعویٰ نہیں کیا ہے۔میڈیا نے پاکستان میں بازاروں، چوراہوں اور چوکوں پر عوام کی کوشش تو بہت سارے افراد نے بات کرنے سے انکار کردیا۔ کچھ جو بات کرنے پر راضی ہوئے انہوں نے ملالہ کا نام سن کر کہا کہ وہ اس موضوع پر بات نہیں کرنا چاہتے کیونکہ ملالہ پر حملہ ایک صیہونی اور امریکی سازش ہے۔ کئی نے تو یہ تک کہا کہ یہ طالبان کو بدنام کرنے کی سازش ہے اور ہر غلط کام جو اس ملک میں ہوتا ہے وہ طالبان کے ذمے کیوں ڈال دیا جاتا ہے۔

ملالہ یوسف زئی کی عمر صرف ۱۴ برس کی لیکن امریکہ نے اس میں دلچسپی اس وقت لینا شروع کردی تھی جب انہوں نے سوات کے ڈائری لکھنی شروع کی تھی۔پاکستان میں امریکہ سے نفرت عروج ہے پاکستان میں امریکی یا امریکہ پرست افراد سے سخت نفرت کی جاتی ہے کیوں کہ امریکہ کی وجہ سے پاکستان آج ناکام ریاست کے دہانے پر کھڑا ہے۔ لاکھوں معصوم افراد امریکی امداد کے نتیجے میں اپنی جان گنواچکے ہیں۔ ہزاروں معصوم بچے بچیاں معذور ہوچکی ہیں اور اپنے والدین سے محروم ہوچکی ہیں۔ ملالہ کوا مریکی دوستی (یا امریکی جاسوس ہونے کی) کی قیمت چکانی پڑی ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ امریکی اعلی افسر رچرڈ ہالبروک بریگیڈیر مارٹن جونز اور سی آئی اے اہلکار کے ساتھ ایک چھوٹی بچی کے ساتھ میٹنگ کر رہے تھے۔ آخر ملالہ کو اتنی اہمیت کیوں دی جارہی تھی۔ اس کے علاوہ ملالہ پر حملہ ہوتے ہی مغرب میں زلزلہ کیوں آگیا ہے اور سارے اہم رہنما اور سربراہ مملکت کا مذمتی بیان آنا شروع ہوگیا۔ درجنوں پاکستانی فوجیوں اور ہزاروں معصوم لوگوں کو ڈرون سمیت مختلف ناجائز حملوں تہ تیغ کرنے والا امریکہ اور اس کے صدر اور وزیر خارجہ کو اتنی ہمدردی کیوں ہوگئی۔ جس طرح ہندوستان میں بڑی طاقتوں کا میڈیا غلام ہے اسی طرح پاکستان میں بھی ایسے افراد کی کمی نہیں ہوگی جوحق نمک ادا کرنے میں سبقت لے جاتے ہیں۔ ملالہ دہشت گردی کا نشانہ بننے والی پہلی بچی نہیں ہے۔بہت سی معصوم اور کم عمر بچیاں دہشت گردانہ کارروائیوں کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔ ڈرون حملوں میں اسی عمر کی اور اس سے چھوٹی بچیوں، بچے اور خواتین کے جسموں کے پرخچے اڑ چکے ہیں۔ اسی دیر اور وادی سوات کے علاقے میں مسمار کیے جانے والے متعدد اسکولوں کی حیا دار اور اسلامی اقدار کی پابند استانیاں بھی اس ظلم کا ہدف بن چکی ہیں۔ ڈرون حملے میں کئی اسکول تباہ ہوچکے ہیں لیکن امریکی صدر اوبامہ وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن اور اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون پر جوں تک نہیں رینگی۔ صدر اوبامہ نے حملہ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ وہ مشکل کی اس گھڑی میں ملالہ کے اہلخانہ کے ساتھ ہیں اور ملالہ یوسف زئی کے لیے جو بھی امداد ممکن ہوسکے گی ضرور کریں گے اگر ملالہ کو ائیر ایمبولینس یا علاج کے لیے مدد درکار ہوئی تو حاضر ہے۔امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے ملالہ پر طالبان کے حملے کے بعد دنیا بھر میں پاکستان کی اس بہادر لڑکی کی حمایت میں اضافہ ہونے کی بات کہی۔ اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری بان کی مون نے بھی سوات کی چودہ سالہ طالبہ پر قاتلانہ حملے کی مذمت کرتے ہوئے ملالہ کو قابل تقلید قرار دیا۔ایک امریکی اخبار نے اپنی رپورٹ میں ملالہ یوسف زئی کو پاکستان کا روشن مستقبل قرار دیا ہے۔

اتنے بڑے پیمانے پر قومی اور بین الاقوامی میڈیا میں کوریج، ہر رہنما کی زبان پر صرف ملالہ کا ہی نام،ان کے لئے تمام سہولتوں کی پیشکش اور وسیع پیمانے پر مذمتی بیان یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس میں کہیں نہ کہیں مغربی طاقتیں ملوث ہیں جس کا مقصد مسلمانوں کی توجہ توہین رسالت کے مجرم امریکہ اور دیگر مغربی ممالک سے ہٹانا ہے۔ پاکستان جہاں پر مسلسل امریکہ کے خلاف مظاہرے ہورہے تھے اب اس کی جگہ ملالہ پر حملہ نے لے لیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں پاکستان میں اس وقت تمام اسلام دشمن طاقتوں کا مجمع ہے۔ دنیا کی کوئی ایسی مسلم مخالفت ایجنسی نہیں ہے جو پاکستان میں موجود نہ ہو۔ یہاں کچھ بھی ممکن ہے۔ ڈالر کی کھنک کچھ بھی کرواسکتی ہے۔ بھٹکے ہوئے اور گمراہ نوجوانوں کی کمی نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ مغرب میں ایسے مدارس موجود ہیں جہاں عیسائی مولوی تیار کئے جاتے ہیں جس کے پاس مسلم مولوی کے زیادہ علم ہوتا ہے اور اسلام کی باریکیوں سے بخوبی واقف ہوتے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ پاکستان میں اسلامی مقامات پر دھماکے ہورہے ہیں ان میں مغرب کے خودساختہ مولویوں ہاتھ ہو۔ وہ آسانی سے مسلمانوں اور اس کی تحریک میں شامل ہوکر اپنا گھناؤنا کام انجام دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
Abid Anwer
About the Author: Abid Anwer Read More Articles by Abid Anwer: 132 Articles with 87273 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.