بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
آج کے ماحول اور حالات و واقعات کا جائزہ لینے کے بعد بڑے ہی قلق اور افسوس
سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ روز بروز جہیز کا مطالبہ عام ہوتا جا رہا ہے اور جو
عورت کم جہیز لے جائے اس کو کوسنے سے لے کر ستانے، طلاق دینے، یہاں تک کہ
جلانے اور مار ڈالنے تک کے واقعات سننے میں آتے ہیں۔ صد افسوس! ایک پاکیزہ
رشتہ جسے رب کائنات نے پاکیزہ اور عظیم مقاصد کےلئے جاری کیا، جو عہد رسالت،
عہد صحابہ اور عہد اسلاف میں بڑے پاکیزہ اور سادہ طریقہ سے عمل میں آتا رہا
آج بے غیرت خاندانوں اور نوجوانوں نے اسے نفع جوئی اور زر طلبی کا ایک
کاروبار سمجھ لیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس صورت حال کا علاج کیا ہے۔ اور
سلسلہ میں عوام و خاص کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟
جہیز کی حرص کیوں؟ہمیں اس سلسلہ میں پہلے غور کرنا ہو گا کہ جہیز کی کمی کی
وجہ سے عورتوں کو ستانے والے جوان اور خاندانوں میں یہ حریصانہ طبیعت اور
ظالمانہ جرات کیسے پیدا ہوئی اور اس کے اسباب و عوامل کیا ہیں؟
جواباً مختصر لفظوں میں کہا جاسکتا ہے کہ حریصانہ طبیعت حب دنیا کی پیداوار
ہے اور ظالمانہ جرات دین سے دوری کا نتیجہ ہے بلکہ جارحانہ حد تک حب دنیا
بھی دین سے دوری اور اس کے اصول و مقاصد سے بے تعلقی ہی کا شاخسانہ ہے۔اس
لئے کہ جو یہ جانتا ہو کہ دین اسلام اور ہر معتدل قانون اس کی اجازت دے
سکتا ہے کہ آدمی اپنی کوشش و محنت سے جتنا چاہے مال کمائے مگر دوسرے کے مال
کی طمع اور اسے اپنا مال بنانے کی حرص یقینا مذموم اور گھٹیا طبیعت ہی کی
پیداوار ہے۔ جو آدمی ایسی طبیعت سے پاک ہو وہ کبھی بھی بیوی کے مال و دولت
کا حریص نہیں ہو سکتا۔
جہیز کا مالک کون ہے؟ اسلامی نقطہ نظر سے تو جہیز کا سارا سامان جو بیوی
شوہر کے گھر لائے تمام تر بیوی ہی کی ملکیت ہے۔ اس پر زکوٰة فرض ہو تو اس
کی ادائیگی بیوی ہی کی ذمہ داری ہے۔ اور اس کا استعمال کوئی دوسرا اگر کرنا
بھی چاہے تو بیوی کی رضا مندی اور اجازت ہی پر منحصر ہے۔ لیکن اس کے برخلاف
جن خاندانوں اور جوانوں میں یہ عقیدہ جڑ پکڑ چکا ہے کہ ولہن کا سارا مال
ہماری ملکیت ہے اور ہم اسے جیسے چاہیں استعمال کریں ان لوگوں کی دین اور اس
کے مسائل و مقاصد سے دوری بالکل عیاں ہے۔
بیوی کا خرچ شوہر پر؟ پھر سنت رسولﷺ اور احکام اسلام کی رو سے نکاح کے بعد
مہر و نان نفقہ اور سکونت کے سارے معاملات و مصارف شوہرکے سر عائد ہوتے ہیں۔
بیوی کے اوپر قطعاً یہ کوئی واجب یا فرض یا سنت نہیں کہ وہ زیادہ سے زیادہ
مال و دولت شوہر اور اس کے خاندان والوں کے حصہ میں لائے اور وہ بھی اپنی
کمائی سے نہیں، اپنے ماں باپ اور خاندان و اقارب کی محنت اور پسینہ کی
گاڑھی کمائی سے۔ لڑکی کے خاندان پر بھی صرف یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ مناسب
لڑکے سے اس کا عقد کریں۔ یہ ان کی ذمہ داری ہر گز نہیں کہ اس لڑکے کو مال
ودولت سے بھی سرفراز کریں، یا اپنی لڑکی کو ہی زیادہ سے زیادہ سامان سے
نوازیں۔ بلکہ عقد نکاح تو وہ عمل ہے جس کی وجہ سے لڑکی کے ذاتی مصارف کی
بھی ذمہ داری شوہر کے سر منتقل ہو جاتی ہے۔ لیکن یہ عجب حرص و ہوس ہے کہ آج
کا نوجوان اور اس کا خاندان نکاح کے ذریعے اپنی ضروریات اورمصارف کی ذمہ
داری بھی نادر و ناتواں لڑکی کے سر ڈالنا چاہتے ہیں۔ اس ظلم و ستم اور
جذبات و خیالات کے اندھے پن سے خدا کی پناہ۔
قلت جہیز کی وجہ سے عورت پر ظلم:میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ جہیز کی
کمی کے باعث جو خاندان اور نوجوان شاکی ہوتے ہیں اور اپنی بے جا توقعات پر
پانی پھرتا دیکھ کر اس قدر غیظ و غضب میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ ظلم و ستم
اور ننگی جارحیت پر اتر آتے ہیں، وہ یا تو دین و شریعت کے مزاج و نہاد اور
اصول و قوانین ہی سے نابلد ہوتے ہیں، یا جانتے ہوئے بھی احکام ربانی کی
خلاف ورزی کے عادی ہوتے ہیں۔ ان کی روز مرہ کی زندگی میں بھی دین و شریعت
سے انحراف نمایاں طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔
خصوصاً جہیز یا کسی دنیاوی رنجش کی بناءپر قتل مسلم تو ایسا ظالمانہ عمل ہے
کہ اس کا مرتکب وہی شخص ہو سکتا ہے جس کی دینی روح موت کے قریب پہنچ چکی ہو۔
اس کے متعلق قرآن کریم نے صاف طور پر بتایا ہے کہ ” جو کسی بھی ایماندار کو
قصداً قتل کرے اس کا بدلہ جہنم ہے جس میں اسے ہمیشہ رہنا ہے“ ظاہر ہے کہ جو
خوف آخرت سے خالی اور رب قہار کی ناراضگی اور اس کے انتقام سے بے پرواہ ہو
، وہی اس طرح کی ظالمانہ جسارت کر سکتا ہے۔
یہ ایک رخ ہے جس سے اندازہ ہو تا ہے کہ جہیز طلبی کی حریصانہ طبیعت اور نہ
ملنے پر ظالمانہ جسارت کیسے پیدا ہوتی ہے؟ لیکن ایک رخ اور ہے جس سے یہ
معلوم ہو گا کہ زیادہ جہیز لینے دینے کا عمل کیوں پروان چڑھ رہا ہے اور اس
سلسلہ میں کوئی آہ و فغاں اور شور و فریاد کار گر کیوں نہیں ہوتی؟
جہیز اور نام و نمود:اس کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ جو اہل ثروت ہیں وہ اپنی
دولت کی نام و نمود کی خاطر ،یا لڑکی اور داماد سے بے پناہ محبت کی نمائش
کی خاطر بذات خود اور بلا معاوضہ اتنا جہیز دے ڈالتے ہیں کہ متوسط طبقہ کی
ساری جائیداد کی مالیت لگائی جائے تو اس کے برابر نہ ہو۔ ان حضرات کا یہ
عمل دیکھ کر دوسرے بھی زیادہ سے زیادہ جہیز دینے کی فکر کرے ہیں اور اسی کو
عزت و عظمت خیال کرتے ہیں اور نہ دینے میں اپنی بے عزتی و حقارت محسوس کرتے
ہیں۔ یہاں تک دیکھا گیا ہے کہ بہت سے دیندار اور خلوص کار لڑکوں اور
خاندانوں نے زیادہ جہیز سے منع کیا پھر بھی لڑکی والوں نے اپنی بساط سے
زیادہ دے ہی دے ڈالا۔ زیادہ دینے کا رواج دولت مند اور متوسط قسم کے اچھے
خاصے دیندار اور پابند شرع لوگوں میں بھی کثرت سے پایا جاتا ہے۔اگر کوئی
شخص بظاہر خوشحال نظر آتا ہو لیکن حقیقت میں وہ پریشان حال اور تنگدست ہو
تو اس لیے اتنا جہیز نہ دے سکے جو معاشرہ میں اس کے برابر اور ہم پلہ شمار
کیے جانے والوں نے دیا ہے تو اسے بخیل شمار کیا جاتا ہے۔ اور لڑکی، داماد
سے عدم محبت پر محمول کیا جاتا ہے جس کے نتیجہ میں لڑکی کو بہت سی اذیتوں
اور مصیبتوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب جہیز معزز گھرانوں کا
علامتی نشان بن چکا ہو اور فخر کے ساتھ اسے عملاً رواج مل رہا ہو اس ماحول
میں اگر یہ تحریک چلائی جائے کہ جہیز بند کرو تو یہ کہاں تک کامیاب ہو سکتی
ہے اور نہ پانے والے کہاں تک صبر کر سکتے ہیں ۔خخصصاً جب کہ وہ دینی فکر و
مزاج اور شرعی کردار و عمل سے بھی عاری ہوں۔ دولت مندوں کےلئے حسب حیثیت
لاکھ دو لاکھ اور اس سے زیادہ کا جہیز دے دینا کوئی مسئلہ نہیں اور انہیں
کے کردار سے یہ رسم بڑھتی اور پھیلتی جا رہی ہے ۔ ان کے دامادوں کو دیکھ کر
ہر نوجوان آرزو مند ہوتا ہے کہ مجھے بھی ایسی لڑکی ملے جو اپنے ساتھ اسی
طرح وافر جہیز لائے اور جس کی یہ آرزو پوری نہیں ہوتی وہ اس حد تک بد دل
ہوتا ہے کہ لڑکی پر طعن و تشنیع سے لے کر ضرب و قتل تک پہنچ جاتا ہے۔
آخر علاج کیا ہے؟ان حالات و اسباب کا جائزہ لینے کے بعد اب ان کے ازالہ اور
علاج پر غور کیجیے تو درج ذیل صورتوں کے بغیر اس لعنت کا ازالہ اور ظالمانہ
و جارحانہ واقعات کا انسداد ناممکن ہے:
۱۔ معاشرہ میں دینی اسلامی روح پیدا کی جائے، اسلامی احکام کی اہمیت و عظمت
دلوں میں اتاری جائے، آخرت کا خوف پیدا کیا جائے۔ متاع دنیا کی حرص اور
ثواب آخرت سے بے پروائی سے دور کیاجائے۔ اس بات کو دل و دماغ میں راسخ کیا
جائے کہ مومن کی سرخروئی اور کامیابی اسی میں ہے کہ خدا کی قائم کی ہوئی
حدود کے اندر رہ کر جائز و بہتر طور پر اپنی دنیا بھی خوشحال بنائے اور
آخرت بھی سنوارے، ناانصافی اور ظلم و ستم سے بہرحال پرہیز کرے ورنہ اس کا
انجام بڑا ہی بھیانک اور خطرناک ہے منتقم حقیقی کی سزا سے کبھی غافل نہیں
ہونا چاہیے۔
۲۔ یہ ذہن نشین کرایا جائے کہ نکاح ایک پاکیزہ رشتہ ہے جو انسان کو انسان
کی حفاظت و بقاءاور انسان کے فطری جذبات کی مناسب تحدید کےلئے وضع ہوا ہے۔
اس رشتہ کے بعد دو خاندانوں میں قرابت و محبت اور اتحاد یگانگت بھی برپا
ہوتی ہے۔ اور مردو زن پر بہت سی ذمہ داریاں بھی عائد ہوتیں ہیں۔ لیکن مصارف
و اخراجات کی ساری ذمہ داری شریعت نے مرد کے سر رکھی ہے اور عورت قطعاً اس
کی پابند نہیں کہ شوہر کو اپنی یا اپنے ماں باپ کی دولت سے نفع اندوز کرے۔
۳۔ دلوں میں مردانہ غیرت و حمیت پیدا کی جائے اور بتایا جائے کہ مرد کی عزت
اور وقار کا تقاضا یہی ہے کہ مرد خود اپنی کمائی، اپنی محنت اور اپنی دولت
پر بھروسہ کرے۔ بیوی یا اس کے ماں باپ اور اہل خاندان کی کمائی اور دولت پر
حریصانہ نظر رکھنا گھٹیا طبیعت پر غماز ہے ۔ جس سے ہر شریف اور باغیرت فرد
اور خاندان کو بہت دور ہونا چاہیے۔
۴۔ یہ باتیں لوگوں تک پہنچانے کےلئے پمفلٹ تقسیم کیے جائیں، جلسے منعقد کیے
جائیں، نجی مجلسوں اور ہوٹلوں میں بھی ان خیالات کو عام کیا جائے اور
کمیٹیوں کے ذریعہ ان احکام و افکار کو گھر گھر پہنچا دیا جائے۔
۵۔ عملی طور پر شادی بیاہ کے موقع پر خصوصاً دولت مندوں کو سمجھایا جائے کہ
خدا نے آپ کو دولت دی ہے آپ اپنی بیٹی داماد کو جو چاہے دے سکتے ہیں لیکن
اس کا بھی خیال رکھیں کہ اس سے غریبوں کی دل شکنی نہ ہو۔ آپ کو معلوم ہے کہ
غریب خاندانوں کی لڑکیاں اس رسم جہیز کی وجہ سے بیٹھی رہ جاتی ہیں اور ان
کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ جس کا نتیجہ معاشرہ میں آوارگی اور بے حیائی
کی صورت میں بھی نمودار ہو سکتا ہے۔ آپ کو دینا ہی ہے تو بعد میں کبھی خفیہ
طور پر دے لیں لیکن خدارا اپنے جہیز اور دولت کی نمائش کر کے تنگدست لڑکیوں
کی زندگی اجیرن نہ بنائیں۔ ایسی انجمنیں بنائی جائیں جو سماج کے سربرآوردہ،
ذی ثروت، دردمند صاحب کردار اور مخلص افراد پر مشتمل ہوں یہ حضرات جہیز میں
دیئے جانے والے سامانوں کی مناسب حد بندی کریں اور سب سے پہلے خود اس پر
کار بند ہوں پھر دوسروں کو اس کا پابند بنائیں۔
۶۔ نوجوانوں کو بہرحال یہ یقین دلایا جائے کہ دولت خدا کا ایک عطیہ اور اس
کا خاص فضل و انعام ہے جو ہر شخص کے حصے میں آنا ضروری نہیں۔ تم اگر اپنی
محنت اور خاندان کی کمائی سے دولت کے مالک بن سکے تو یہ دولت تمہارے لیے
راحت و عزت کا باعث ہو سکتی ہے۔لیکن ظلم و ستم کے طریقوں اور ناجائز راستوں
کو اپنا کر بھیک کی طرح جہیز مانگ کر مال و اسباب جمع کرنا کوئی شریفانہ
طریقہ نہیں تمہاری عظمت اور وقار اسی میں ہے کہ تم کسی دکھی اور غریب و
پریشان حال کےلئے ایک باعزت زندگی کا سہارا بنو اور اسے اپنی زوجیت میں لا
کر اس کا دکھ درد رنج و الم دور کرو نہ یہ کہ وہ خود اپنے جہیز سے تمہاری
محتاجی و غربت کا علاج کرے۔ جہیز اگر بہت زیادہ ہو تو بھی پوری زندگی اور
اس کے اخراجات و ضروریات کا ساتھ نہیں دے سکتا۔ بہرحال ایک وقت تمہیں اپنی
اور اپنی نسل کی کفالت کےلئے خود محنت کرنا ہو گی۔ تو کیوں نہ آج ہی تم
سسرال کی بجائے اپنے بازو کی قوت اور اپنے مولیٰ کی عنایت پر بھروسہ کر لو۔
قناعت ہی اصل مالداری ہے آدمی کو جو مل جائے اس کی محنت سے جو برآمد ہو اگر
اس پر اس نے قناعت نہ کی تو مزید پر مزید کی حرص ہمیشہ اسے دل کے اعتبار سے
فقیر اور محتاج ہی رکھے گی۔ خدا تمہیں غنائے قلب سے نوازے اور طمع دنیا سے
بچائے۔
مذکورہ بالا تجاویز کا حاصل یہ ہے کہ فکر و مزاج میں تبدیلی لائی جائے۔
تصوارات و خیالات، معاملات و عادات کو اسلامی و ایمانی رنگ میں ڈھالا جائے
اور دولت مند طبقہ نادار و کمزور کے دکھ درد اور اس کے مصائب و مشکلات کا
سچے دل سے احساس کرے جبھی جہیز میں افراط و غلو اور اس سے پیدا ہونے والے
مفاسد کا سد باب ہو سکتا ہے۔ اور ان دونوں باتوں کو بروئے کار لانے کےلئے
شہر شہر، گاﺅں گاﺅں ، محلہ محلہ ایسی تنظیموں کا وجود ضروری ہے جو سماج
موثر اور مخلص و درد مند افراد پر مشتمل ہونے کے ساتھ سرگرم عمل بھی ہوں ۔
اگر یہ تنظیمیں قائم ہو کر دلچسپی سرگرمی اور اخلاص و دل سوزی کے ساتھ
برائیوں کے خلاف برسر پیکار ہیں تو ان کے ذریعہ دوسرے بھی بہت سے اصلاحی و
فلاح کا انجام پا سکتے ہیں۔ |