شہر قائد ----- منی پاکستان

کراچی ایک قدیم شہرہے اِس کی تاریخ یونان اور عرب کے دور سے شروع ہوتی ہے ابتداءمیں یہ ایک گاﺅں تھا جس کا نام مائی کولاچی کے نام پر کولاچی جو گوٹھ تھا جو بعد میں کراچی بنا بندرگاہ ہونے کی وجہ سے کولاچی تجارتی مرکز بن گیا 1775ءتک کراچی خان قلات کی مملکت کا حصہ تھا جب سندھ کے حکمرانوں اور خان قلات کے درمیان جنگ چھڑی تو کراچی پر سندھ حکومت کا قبضہ ہوگیا بندرگاہ کی موجودگی اور کراچی شہر کی تیز رفتار ترقی کو دیکھتے ہوئے 1839ءمیں انگریزوں نے کراچی پر قبضہ کرلیا اور شہر کو برطانوی ہندوستان کے ساتھ ملحق کرکے ایک ضلع کی حیثیت دے دی شہرِ کراچی کو ایک فخر یہ بھی حاصل ہے بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی پیدائش بھی 1876ءمیں کراچی کے علاقے کھارادر میں ہوئی اس وقت تک کراچی ایک ترقی یافتہ شہر کی صورت اختیار کرچکا تھا کراچی کی ایک نمایاں حیثیت یہ بھی ہے کہ پاکستان کی آزادی کے وقت کراچی کو نو آموز مملکت کا دارلحکومت منتخب کیا گیا قیامِ پاکستان کے وقت اس شہر کی آبادی صرف 4لاکھ تھی دارلحکومت ہونے کی وجہ سے اس شہر کی آبادی بہت تیزی سے بڑھی 1947ءسے 1953ءتک کراچی پاکستان کا دارلحکومت رہا بحیرہ عرب کے کنارے واقع کراچی کو دنیا کے بڑے شہروں کی فہرست میں نمایاں مقام حاصل تھا کراچی صنعتی تجارتی ٹیکسٹائل شپنگ انڈسٹری آرٹ فیشن میڈیکل ریسرچ اور اعلیٰ تعلیمی سرگرمیوں کی وجہ سے بہت نمایاں حیثیت کاحامل تھا کراچی کو ایک اہم مقام یہ بھی حاصل ہے کہ بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح کا مزار بھی کراچی کے قلب میں واقع ہے اِسی وجہ سے اسی شہرِ قائد بھی کہا جاتا ہے کہ قائداعظم کی جائے پیدائش اور آخری آرام گاہ دونوں اسی شہر میں پائی جاتی ہیں شہرِ کراچی کو اس کی خوبصورتی اور دلفریبی کی وجہ سے عروس البلاد یعنی شہروں کی دلہن بھی کہا گیا کراچی میں زندگی رات بھر رواں دواں رہتی تھی اور اس کی روشنیاں کبھی مانند نہیں پڑتی تھیں جس کی وجہ سے اِسے روشنیوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے کراچی ایک غریب پرور شہر ہے جہاں کلفٹن کے ساحلوں اور بوٹ بیسن پرواقع پروتعیش مکانات سے لے کر خدا کی بستی کے مکینوں تک ہر نسل ہر رنگ اور ہر طبقے کا فرد کراچی کا شہری ہے یہ بات ایک حقیقت ہے کہ کراچی میں رہنے والا کوئی فرد رات کو بھوکا نہیں سوتا عروس البلاد کراچی نے امراءسے لے کر غرباءتک کو اپنے دامن میں اس طرح سمیٹا جیسے کوئی ماں اپنے بچوں کو۔ یہاں جہاں ایک طرف بڑے بڑے پانچ ستارہ ہوٹلز کی ایک کثیر تعداد ہے وہیں جھگی پیار اور ڈھابے چائے خانے تک موجود ہیں کراچی ایک ایسا شہر ہے جہاں پاکستان کے ہر صوبے کا فرد موجود ہے کرسچئن پارسی غیر مسلم انگریز سب ہی کراچی میں رہنا پسند کرتے تھے اسی وجہ سے عروس البلاد روشنیوں کے شہر کو منی پاکستان کا خطاب بھی حاصل ہوا لیاری سے لے کر کیماڑی اور کلفٹن سے لے کر خدا کی بستی تک کراچی کا دامن بہت وسیع تھا مائی کولاچی سے کراچی تک کا یہ سفر ترقی کا عروجِ کمال اور بے مثال بلندیوں کی اعلیٰ مثال تھا کراچی کا مستقبل نیویارک اور پیرس کی طرح ترقی یافتہ ترین نظر آتا تھا جبھی تو ہیوسٹن(امریکہ) جکارتہ (انڈونیشیائ) اور شنگھائی (چائنا) کو کراچی کا جڑواں شہر قرار دیا گیا۔ شہرِ قائد کی خوبصورتی اور صفائی کا یہ عالم تھا کہ یہاں کی سڑکیں روزانہ پانی سے دھوئی جاتی تھیں کراچی کی سڑکیں آج بھی روزانہ دھوئی جاتی ہیں مگر پانی سے نہیں یہاں کے باسیوں کے لہو(خون) سے دھوئی جاتی ہیں ان کے خون سے سجائی جاتی ہیں کوئی دن اب یہاں ایسا نہیں گزرتا کہ یہاں کی سڑکیں خون سے رنگیں نہ ہوں لہو میں ڈبوئی نہ ہوں یہ ایسا باکمال شہر بن گیا ہے کہ جہاں....
گزرو گے تو ہر موڑ پر مل جائیں گی لاشیں
ڈھونڈو گے تو اس شہر میں قاتل نہ ملے گا

امن کے لغوی معنوںسے قطع نظر روشنیوں کے اس شہرِ قائد میں اب امن کا مطلب ایک لاش سے دوسری لاش تک کے گرنے کا وقفہ کہلاتا ہے کراچی کے باسیوں کے لئے امن بس دو اموات کے بیچ کا دورانیہ ہی ہے ایک رپورٹ کے مطابق کراچی کو دنیا کا ساتواں بدامن شہر ہونے کا اعزاز حاصل ہوچکا ہے اللہ نہ کرے یہی صورتحال برقرار رہی تو اس کو نمبرون آنے سے کون روکے گا؟؟؟

ٹارگٹ کلنگ روز کا معمول بن کر آسیب کی طرح یہاں کے شہریوں کے حواس پرچھا گئی ہے موت کی آہٹ سنتے سنتے ماﺅں کے کلیجے چھلنی ہوچکے ہیں اپنے سہاگ کی سلامتی کی دعائیں مانگتی خواتین کے لبوں پر سے مسکراہٹ تک مفقود ہوچکی ہے بہنیں بھائیوں کے گھر آنے تک خوف میں مبتلا رہتی ہیں اور بھائی بہنوں کو خوف کے مارے گھرسے نکلنے نہیں دیتے ماضی کے خوشحال کراچی سے آج کے بدحال بلکہ خستہ حال کراچی تک کا سفر ایک دن کا نوحہ نہیں ہے بلکہ وقت کرتا ہے پرورش برسوں کا حال ہے کراچی کا اب یہ حال ہے کہ
کتنی مشکل زندگی ہے کس قدر آساں ہے موت
گلشنِ ہستی میں مانندِ نسیم ارزاں ہے موت

کبھی قائد کے شہر میں ہر سال عالمی مشاعرہ منعقد ہوتا یہاں کے باسیوں کے اعلیٰ ذوق کی پہچان ہواکرتا تھا آج اس شہر میں مشاعرے کے شرکاءپر فائرنگ کرکے دہشت گردی کے عالمی ریکارڈ بنائے جارہے ہیں کراچی روزانہ کی بنیادوں پر ہونے والی اس قتل و غارت گری کی وجہ سے سہم کررہ گیا ہے روشنیوں کے شہر کی روشنی ٹمٹاتے ہوئے دیئے کی مانند ہوچکی ہے جسے ہوا کا ایک ہلکا جھونکا بھی بجھانے کے لئے کافی ثابت ہوگا یہاں تک کہ تجارتی تعلیمی سیاسی اور ثقافتی سرگرمیاں آہستہ آہستہ ختم ہوتی جارہی ہیں وہ کراچی جہاں لوگ فخریہ رہا کرتے تھے آج وہاں سے نقل مکانی کرنے کے بارے میں سوچنے لگے ہیں۔ بلکہ کچھ تو کربھی چکے ہیں۔

قتل چاہے کسی کا ہو انسانیت کی اصطلاح میں سب سے بڑا جرم ہے اور کراچی میں یہ جرم روز کا معمول ہے کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب کہ کراچی کی کوئی سڑک خونِ ناحق سے نہ رنگی جائے کراچی کی تمام جماعتوں کو ٹھنڈے دل سے یہ سوچنا چاہیے کہ کراچی کے حالات خراب ہونے میں کس کا فائدہ ہے ؟؟ نقصان تو سراسر یہاں کے رہائشیوں کا ہے ایک خوف کی فضاءہے جس کی وجہ سے ترقی کا پہیہ الٹا چلنے لگا ہے جبکہ موت اور خون کے اس کھیل میں سیاست چمکائی جارہی ہے بہت دنوں سے سیاست کا مشغلہ ہے یہی کہ جب جوان ہوں بچے تو قتل ہو جائیں۔ وہ کراچی جو کبھی ترقی امن اور خوشحالی کا سمبل تھا آج تنزلی بدامنی اور بدحال کی مثال بن چکا ہے۔ روم جل رہا تھا اور نیروبانسری بجا رہا تھا یہاں روم کی جگہ کراچی اور نیرو کی جگہ حکومت کہنا بجا ہے کراچی جل رہا ہے یہ ایک جملہ نہیں حقیقت ہے اور کیا کراچی یونہی جلتا رہے گا ایک سوالیہ نشان ہے؟؟

کراچی میں مارنے والے بھی اپنے ہیں اور مرنے والے بھی اپنے ہیں بس ڈور ہلانے والے کہیں دور بیٹھے ہیں۔
Nusrat Sarfaraz
About the Author: Nusrat Sarfaraz Read More Articles by Nusrat Sarfaraz: 42 Articles with 48407 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.