ترقی پذیر ممالک میں حکمران اپنے
وارثوں کو اعلیٰ تعلیم و تربیت کیلئے امریکہ وبرطانیہ کے اعلیٰ سکولوں و
یونیورسٹیوں میں داخل کرواتے ہیں، تاکہ ہماری سیاسی ریٹائرمنٹ کے بعد آنے
والا وارث غریب۔ بے روزگار۔ ذہینی غلام اور محنت کش عوام پر حکمرانی کے
فرائض سرانجام دے سکئے۔ ظاہری بات ہے کہ تخت نشین ہونے کے بعد ہم منصب
حکمرانوں سے مزاکرات ۔۔معاہدات۔۔ معلاقاتیں کرنا پڑتی ہیں جس میںاعلیٰ
تعلیم ۔۔ماڈرن لائف سٹائل۔۔ عالمی حالات و واقعات سے واقف ہوناناگزیر ہے۔
اور غلام۔۔بے روزگار۔۔برادری ازم کے شکار۔۔سادہ لوح انسانوں میں رہ کرماڈرن
لائف سٹائل کا حصول اسی طرح ہے جیسے تر قی پذیر ممالک میں جمہوریت کا حصول؟
دنیا کی تاریخ میں چند ہی ایسے خاندان آئے ہونگے جنہوں نے مسلسل حکمرانی کے
فرائض ادا کرنا پسند کیا ہوگا۔ورنہ عوام میں سے کوئی پاگل اپنے جیسوں کو
میدان میں لے کر تخت نشین ہوجاتا ہے۔ پاکستان جیسے نیم ترقی پزیروترقی
یافتہ ملک مین با مشکل ہی کوئی حکمران اپنی آئینی مدت 5سال پوری کرتا ہے۔
جبکہ نیپال میں 1846 میں رانا جنگ بہادر نے اس وقت کے حکمرانوں کا تخت
الٹااور مسلسل 9حکمران اس کی فیملی سے آئے۔ 1877 میں رانا ضنگ بہادر کی
وفات کے بعد اس کا بھائی اودیب سنگھ وزیراعظم بنا۔ 1885 میں جنگ بہادر کا
بھتیجے بیر شمیشررانا نے وزارت عظمیٰ کے فرائض ادا کیے۔ 1901 میں بیر شمشیر
رانا کا بھائی چندر شمشیر رانا وزیراعظم بنا۔ 1929 میں بیرشمشیر کا دوسرا
بھائی دیوشمشیر رانا وزیراعظم بنا پھر 1932 میں اسی خاندان کے جودھا شمشیر
رانا ۔ 1945-1946 تک بھیم شمشیر رانا وزیراعظم بنا۔ 1946-1948 تک پدما
شمشیر رانا وزیراعظم رہا۔ پھر آخر میں پدما شمشیر رانا کا بھائی دین شمشیر
وزیراعظم بنا ۔ جو رانا خاندان کا آخری وزیراعظم تھا۔ اسطرح رانا خاندان نے
مسلسل 105 سال تک حکومت کی۔
پاکستانی سیاست میں تو کوئی اتنا خوش نصیب پیدا نہیں ہوا۔ جس کا خاندان
وزیراعظم ہاﺅس کو اپنا مستقل گھر بنالے۔ ہاں مگروزیراعلیٰ پنجاب ہاﺅس میں
میاں نواز شریف کے بعد ان کا چھوٹا بھائی میاں شہباز شریف ضرور 2 مرتبہ تخت
نشیں ہوئے ہیں اور عیں ممکن ہے اس کے بعد حمزہ شہباز شریف تخت نشین ہو اور
اس کے ان کی فیملی کا کوئی ممبرپنجاب ہاﺅس پر ڈیرہ ڈال لے۔ مگر ان دور
اقتدار مسلسل نہیں ہوگا۔ ہاں البتہ قومی و صوبائی اسمبلی کی کچھ سیٹوں پر
فیملی کی حکمرانی مسلسل جاری ہے۔ جوتقریبا تمام صوبوں میں ہیں۔
جبکہ ترقی یافتہ ممالک و اداروں میں خاندانی سیاست کی گنجائش ہرگز نہیں
ہوتی ۔ بلکہ وہاں پر قابلیت۔۔سیاسی شعور۔۔تعلیمی قابلیت ۔۔شخصیت۔۔سابقہ
ریکارڈ دیکھ کرحکمرانی کا تاج پہنایا جاتا ہے۔ امریکہ کی سیاست میں صدر کا
امیدوار اپنی قابلیت عوام کو دیکھانے کے بعد میدان میں آتا ہے ناکہ خاندانی
بیک گراونڈ کی بدولت۔اسی طرح میرے شہر سیالکوٹ (شہراقبال) میں کاروباری
حضرات کا عالمی شہرت کا حامل ادارہ سیالکوٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری
موجودہ ہے جو گذشتہ 30 سالوں سے کاروباری طبقہ کے ساتھ ساتھ شہراقبال کی
ترقی میں سرگرم نظرآتا ہے۔
شیخ ریاض الدین کی قیادت میں چیمبر کی کابینہ نے ایسے ایسے کارنامے سرانجام
دے جس کا خواب وزیراعلیٰ و وزیراعظم کے ذہنیوں میں آنے کا تصور بھی نہیں
ہوسکتا۔ انہوں نے عالمی شہرت کے حامل سیالکوٹ انٹرنیشنل ائیرپورٹ ، سیالکوٹ
ڈرائی پورٹ ٹرسٹ بنا کر پوری دنیا کو حیران کررکھا ہے۔
گذشتہ دنوں سیالکوٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی خدمات کو دیکھتے ہوئے
حکومت پاکستان نے سیالکوٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کا اعزازی ٹکٹ جاری
کرکے اقبال کے شہر کا نام پوری دنیا میں دوبارہ مشہور کردیا ہے۔ قارئیں اگر
شیخ ریاض الدین سیالکوٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کو اپنی فیملی سیاست
کا شکار کردیتا تو آج کے سیالکوٹ کی حالت سیالکوٹ کی دیگر تحصیلوں جیسی
ہوتی؟ گذشتہ دنوں ہونے والے سیالکوٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سالانہ
الیکشن میں شیخ عبدالماجد صدر اور کاشف الماس نائب صدر منتخب ہوئے ہیں۔
باقی ایگزیکٹو ممبران کی لسٹ سیالکوٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی
انتظامیہ کی عدم تعاون کی بدولت میسر نہ آسکئی۔ امید ہے آنے والی کابینہ
سیالکوٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سٹاف کی تربیت پر بھی توجہ دے گئی؟
راقم کی طرف سے شیخ عبدالماجد صدر، سینئیر نائب صدر ، کاشف الماس نائب صدر
اور ایگزیکٹو باڈی کے نئے منتخب ہونے والے ارکان کومبارک ہو۔ امید ہے نئی
انتظامیہ سابقہ کابینہ کی پالیسیوں کو طول دیتے ہوئے سیالکوٹ کی دیگر
تحصیلوں کی طرف بھی توجہ دے گئی جن کے شہریوں نے بھی سیالکوٹ چیمبر آف
کامرس اینڈ انڈسٹری کی نئی کابینہ کو منتخب کیا ہے۔ |