کنجوس قیادت

اس کاآبائی تعلق بلوچستان سے ہے‘ جہاں ریاستی ادارے لوگوں کو برسوں تک غائب کر دیتے ہیں‘ اسکے والدین بلوچستان کے شہرکوئٹہ سے تعلق رکھتے تھے جو فرقہ واریت میں جل رہاہے‘ جہاں لوگوں کو بسوں سے اتار کر نشاندہی کے بعد گولیوں سے چھلنی کر دیا جاتا ہے‘ستر کی دہائی میں اسکے والدین پاکستان سے ناروے منتقل ہو گئے‘اس نے کوئٹہ کے حالات کے بارے میں ایک دفعہ کہا تھا کہ اگر اس کا خاندان کوئٹہ سے ناروے منتقل نہ ہوتا تو شاید اسکے گھر کا بھی کوئی فرد کوئٹہ کے اسپنئی روڈ، سریاب روڈ یا پرنس روڈ پر مارا جاتا‘ شاید وہ بھی اپنے گھر کے کسی لا پتہ فرد کی تصویراٹھائے عدالتوں، میڈیا یا لاپتہ افراد کے کیمپ میں بھٹک رہی ہوتی۔ اس کا خاندان ستر کی دہائی میں ناروے منتقل ہو گیا‘ وہ ناروے کے مغرب میں ساحلی پٹی کے ساتھ واقع ایک گاؤں میں انیس سو تراسی میں پیدا ہوئی‘ اس نے ناروے کی یونیورسٹی آف اوسلو اور یونیورسٹی آف کنگسٹن سے تعلیم حاصل کی‘ اس نے بچپن میں بطور غیر ملکی کے اپنے تاثرات پر مبنی ایک کتاب لکھی جسے کافی پذیرائی حاصل ہوئی‘ اسے بچپن ہی سے پڑھنے لکھنے اور معاشرتی طور پر فعال کردار اداکرنے کا شوق تھا‘ اسی شوق نے اسے اخباروں اور کتابوں کے باقاعدہ مطالعہ کی عادت ڈال دی ‘اس میں قائدانہ صلاحیتیں پیدا ہونا شروع ہوئیں اور وہ سولہ سال کی عمر میں لیبر پارٹی کی ذیلی سٹوڈنٹ تنظیم کی مقا می شاخ کی لیڈر بن گئی‘ اس نے ناریجن اخبار وی جی(VG) سے اپنے صحافتی کیر ئیر کا آغاز کیا اوروہ دو ہزار سات میں بطور صحافی پاکستان بھی آ چکی ہے ‘اس نے تئیس برس کی عمر میں مختلف حکومتی اداروں اور وزیر اعظم کے دفتر میں سیاسی مشیر کے طور پر کام شروع کر دیا‘ وہ خو دکو بطور وکیل، صحافی اور سیاستدان کے منوانے میں انتہائی کامیاب رہی اور دو ہزار نو میں منعقدہ عام انتخابات میں ناروے کی لیبر پارٹی کی جانب سے رکن پارلیمنٹ منتخب ہوگئی۔

ناروے کے وزیر اعظم جینز اسٹولٹن برگ (Jens Stoltenberg)نے رواں ماہ اپنی کابینہ میں ردوبدل کے بعد پہلی بار ایک مسلم خاتون کو وزارت ثقافت کا قلمدان سونپا اور یوں یہ انتیس سالہ پاکستانی نژاد ”ہادیہ تاجک“ ناروے کی ملکی تاریخ میں پہلی مسلم خاتون اور سب سے کم عمر وزیربن گئی‘ ہادیہ سکینڈے نیوین ممالک کی بھی پہلی مسلمان اور کم عمر وزیر بن گئی۔ ہادیہ کا سیاسی سفر نہ صرف دلچسپ بلکہ قابل ستائش بھی ہے‘ میں آپ کو اسکی کچھ جھلکیاں دکھاتا ہوں‘ ناروے میں ٹیلیویژن میڈیا پر سیاستدانوں کو اپنی سیاسی تشہیر کی اجازت نہیں ہے‘ لیکن ہادیہ نے اس کو اپنے رستے کی رکاوٹ نہیں بننے دیا ‘ اس نے اپنے سیاسی نظریات کی ویڈیو ریکارڈنگ کی‘ دو ہزار نو کی انتخابی مہم کے دوران ان ویڈیوز کو سوشل میڈیا اور دیگر نیٹ ورکنگ ویب سائٹس پر نشر کر دیا‘ اس کے نظریات کو فورا پذیرائی ملنے لگی‘ تیس جنوری دو ہزار نو کو اسکی پہلی دو ویڈیوز ، (Hadia behind the Scenes ) اور (The Hadia Story ) نشر ہوئیں‘ تیسری (The Women’s Day – Someone is Fighting for Their Lives)، یکم جون کو چوتھی (The Main Challenges of the School System) اور پانچویں ویڈیو(Safety in Oslo) کے نام سے نشرہوئی‘ آپ مختصر دورانیے کی ان ویڈیوز کو ضرور دیکھے گا آپ کو ہادیہ کا انداز گفتگو ، الفاظ کا چناو،چہرے کی سنجیدگی ، لہجے میں متانت‘کیمرے کے لینز میں اطمینان سے دیکھتی نگاہیں ‘ اپنے کام سے کمٹمنٹ ‘ پر اعتماد اور پر کشش شخصیت یقینااپنا گرویدہ بنا لے گی۔

گذشتہ برس ایک نارویجن شہری اینڈرس بریوک نے انہتر لوگوں کو قتل کر دیا ‘ اس قتل نے ناروے کی ساکھ کو پوری دنیا میں متاثر کیا‘دنیا ناروے کے لوگوں کو انتہا پسند‘ جذباتی‘ مخبوط الحواس اور فارغ العقل کہنے لگی‘لیکن ایک خاتون،کم عمر ، مسلمان، اور وہ بھی پاکستانی نژاد ہادیہ کی بطور وزیر تقرری نے وہاں کے پر امن اور روشن خیال طبقے کو ہمت اور حوصلہ عطا کیا‘ ناروے کا امیج (Image) بہتر ہونے لگا اور مختلف عوامی حلقے وزیر اعظم کے اس فیصلے کو سراہنے لگے‘ اسکی اس کامیابی پر نارویجن اخبار نی ِٹدNy Tidکے ایڈیٹر داج ہربیونسرڈ( Dag Herbjornsrud) نے کہا ” مجھے ہادیہ کو صحافت پڑھانے کا اتفاق ہوا‘ میں نے اسے ہونہار‘ ذہین اور متحرک طالبہ کے طور پر پایا‘ وزیراعظم کی جانب سے یہ قدم انتہائی حوصلہ افزا ہے اور میں اس فیصلے کو ناروے کے مستقبل کیلئے انتہائی خوش آئند سمجھتا ہوں“۔

میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ ہماری قوم شرمین عبید چنائے کو اس سے پہلے نہیں جانتی تھی جب اسکی ڈاکیومینٹری سیونگ فیس Saving Face نے آسکر ایوارڈ جیتا‘ جب اسے معروف ٹائم میگزین نے دنیا کی سو بااثر شخصیات برائے سال 2012کی فہرست میں شامل کیا‘ اور جب اسے امریکہ کے شہر لاس اینجلس میں قائم اکیڈمی کی جانب سے ایمی ایوارڈ سے نوازا گیا‘ ہم نے ارفع کریم رندھاوا کو اسوقت پہچانا جب وہ سی ایم ایچ لاہور کے بستر مرگ پر پڑی تھی‘ ہمارے اربابِ اقتدار اسوقت اسکے نام سے کیوں نہ کچھ منسوب کر سکے جب وہ دو ہزار چار میں صرف نو برس کی عمر میں دنیا کی کم عمر ترین مائیکروسوفٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل بن گئی ‘ جب چار برس تک دنیا کا کوئی کم عمر نوجوان اس سے یہ اعزاز چھین نہ سکا‘ اور جب بل گیٹس نے ارفع سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا‘ ہمارے دست ِدعا اسوقت کیوں بلند ہوئے جب وہ تئیس دن تک زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہی‘ آخر ہم ہمیشہ دیر کیوں کر دیتے ہیں؟

ہادیہ مسلمان ہے‘ اس کا آبائی وطن پاکستان ہے‘ پاکستان اور اسلام کو مغرب میں بمشکل ہی پذیرائی حاصل ہوتی ہے‘ لیکن میں سلام کرتا ہوں ناروے کے اس نظام کو جو کسی کی قابلیت کا اعتراف کرنے سے پہلے اس کا مذہب، فرقہ ، وطنیت، زبان یا ولدیت نہیں پوچھتا‘ میں سلام کرتا ہوں اس نظام کو جو کسی کی صلاحیتوں کو سراہنے سے پہلے اس کی عمر،ذات ، قبیلہ، صوبہ یا سیاسی جماعت نہیں پوچھتا‘ قابل تعریف ہے وہ نظام جہاں کا انسان ‘ ترکھان، جولاہا، لوہار، مہاجر، پنجابی، سندھی ، پختون ، مخدوم ،چوہدری، وٹو، لغاری، مزاری، عیسائی، مسلمان یاسکھ میں تقسیم نہیں ہے اورمیں سلام کرتا ہوں ناروے کے وزیراعظم کو جس نے صرف انتیس سالہ ہادیہ تاجک کو اپنی کابینہ میں شامل کر کے پاکستان کی کنجوس قیادت کو یہ پیغام دیا ہے کہ اگر ترقی کرنا چاہتے ہو اپنے ٹیلنٹ Talentکو تلاشنا ‘ تراشنا اور نکھارنا سیکھو ورنہ تمہارے ملک کے تمام دماغ ، ذہانت اور قابلیت تمہاری کنجوسی کی بھینٹ چڑھ جائے گی۔

اگر قیادت کی کنجوسی پر مبنی روش عوامی قابلیت کا استحصال کرنے لگے تو پھر خدا کا سایہ رحمت ایسی ریاستوں سے اٹھ جایا کرتا ہے‘ اور جن ریاستوں سے خدا کا سایہ رحمت اٹھ جائے وہاں کی کھیتی بانجھ ہو جایا کرتی ہے‘ اور جو زمین بانجھ ہو جائے وہ کبھی ہر یالی نہیں اگا سکتی۔

(امیر عباس کا یہ کالم11اکتوبر کو روزنامہ نوائے وقت میں شائع ہوا)
Ameer Abbas
About the Author: Ameer Abbas Read More Articles by Ameer Abbas: 18 Articles with 17433 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.