امریکہ کے صدارتی انتخابات اسی سال
6نومبر2012ءکو ہونے ہیں۔اس ووٹنگ سے قبل امریکی صدارتی انتخاب کے امیدوار
صدر اوبامہ اور مٹ رومنی کے درمیان انتخابی مہم میں کڑا مقابلہ جاری
ہے۔پوری دنیا کی نظر اس بات پر لگی ہے کہ وائٹ ہاؤس میں آنے والا صدر کون
ہو گا کیونکہ امریکی صدر کے فیصلوں کا اثر پوری دنیا پر ہوتا ہے۔امریکی
ادارے پیو ریسرچ سینٹر کے تازہ ترین سروے کے مطابق گذشتہ ہفتے کے صدارتی
مباحثے کے بعد ووٹروں میں مٹ رومنی کی مقبولیت بڑھ کر 49فیصد جبکہ صدر
اوبامہ کی 45فیصد ممکنہ ووٹروں کے پسندیدہ امیدوار ہیں۔
ڈیموکریٹک پارٹی کے بارک اوبامہ جنوری 2009ءمیں عہدہ صدارت پر فائز ہوئے
توامریکیوں سمیت پورے عالم میں ایک ولولہ اور جوش آفرینی تھی ۔ امریکہ کی
تاریخ کے پہلے سیاہ فام صدر ابامہ ”اُمید اور تبدیلی“کا خواب لے کر آئے
تھے۔2008ءمیں اپنی انتخابی مہم کے دوران بارک اوبامہ نے کچھ ایسی باتیں کی
جن سے لگا کہ بعض امور کے حوالے سے ان میں غیر معمولی بصیرت پائی جاتی ہے۔
انہوں نے مسلم دنیا سے تعلقات خوشگوار بنانے، عالمی سطح پر جوہری پھیلاؤ
ختم کرنے، افلا کو ہر حال میں مٹانے اور ماحول کو پہنچنے والے نقصان کی راہ
بند کرنے کی بات کی تھی۔ساتھ ہی انہوں نے دنیا بھر میں جمہوری اقدار کو
فروغ دینے پر بھی زور دیا تھا۔اوبامہ کی ان باتوں کی وجہ سے پوری دنیا اس
جذبہ سے سرشار تھی کہ اب ناصرف امریکہ میں انقلابی تبدیلی رونما ہوگی بلکہ
امریکہ نئے انداز سے دنیا کی قیادت بھی کرے گا لیکن ایک ایک کرے کے ساری
اُمیدیں،مغالطے اورخوش فہمیاں دم توڑ بیٹھیں۔وائٹ ہاو ¿س پہنچنے کے بعد صدر
اوبامہ پر مختلف امور کا دباو ¿ اس قدر رہا کہ وہ اپنے پیشتر خواب شرمندۂ
تعبیر نہ کر سکے۔سچ تو یہ ہے کہ صدارتی مہم اور عہدہِ صدارت پر فائز ہونے
کے بعد کی گئی ان کی باتیں محض باتیں ہی ثابت ہوئی ہیں۔کبھی کسی نے سوچا
بھی نہ تھاکہ بارک اوبامہ نے اپنے پیش رو جارج واکر بش کی پالیسی اور حکمت
عملی میں پائی جانے والی جن خامیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا انہی کو
خود بھی اپنائیں گے، مگر کیا کیجئے کہ ایسا ہی ہوا ہے۔جو کچھ بش جونیئر اور
ڈک چینی نے کیا وہی کچھ صدر اوبامہ بھی تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ کرتے آئے
ہیں۔صدر اوبامہ نے بش جونیئر کے وزیر دفاع رابرٹ گیٹس کو برقرار رکھا جو
امریکہ میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا۔صدر اوبامہ نے عراق سے سولہ ماہ
میں افواج نکالنے کا وعدہ کیا مگر تین سال لگ گئے۔کئی بار وعدہ کرنے کے
باوجود صدر اوبامہ اب تک بدنام زمانہ گوانتاناموبے جیل بند نہیں کراسکے۔اس
جیل میں مقدمہ چلائے بغیر رکھے گئے قیدیوں کی رہائی بھی عمل میں نہیں لائی
جاسکی ہے۔
امریکہ کی مسلم دشمنی پر مبنی خارجہ پالیسی کے باعث آج اسلامی دنیا میں اسے
شدید نفرت کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے جس کی چند بنیادی وجوہات ہیں۔صدر
اوبامہ تاحال بعض اسلامی ممالک پر ہونے والے ڈرون حملے بند کرانے میں ناکام
رہے ہیں جن میں خاصا جانی و مالی نقصان ہوتا ہے۔ نائن الیون کی گیارہویں
برسی پر امریکہ میں ”مسلمانوں کی معصومیت“کے عنوان سے ایک گستاخانہ فلم
دکھائی گئی جس میںجہاں پیغمبر اسلام کو انتہائی نازیبا حالت میں پیش کیا
گیا وہیں مذہب اسلام کو بھی کینسر سے تشبیہ دی گئی،جبکہ افسوسناک پہلو یہ
ہے کہ یہ فلم یہود ونصاریٰ کی مشترکہ کوششوں سے تیار ہوئی۔بظاہر امریکہ نے
اس فلم سے اپنی لاتعلقی ظاہر کی مگر اظہارِ رائے کی آزادی کے نام پر اصل
کرداروں کی پشت پناہی سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ امریکی حکومت اور اس کی
ظاہری،باطنی پالیسیاں موجب لعنت اور تمام مسلم اُمہ کی دل آزاری کاسبب ہیں۔
گذشتہ صدارتی انتخاب کی مہم کے دوران اومامہ نے وعدہ کیا تھا کہ وہ
ہندوستان اور پاکستان کے درمیان دوستی اور کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کے لیے
اقدامات کریں گے۔اسی سلسلے میں نومبر2008ءمیں ”ٹائم“ میگزین کے ساتھ
انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا کہ کشمیر کے مسئلے کو سنجیدگی سے حل کرنے کے
لیے پاکستان اور بھارت کے ساتھ ملکر کام کرنا ان کی حکومت کے اہم ترین
اہداف میں سے ایک ہے۔انتخاب کے بعد انہوں نے اس مقصد کے لیے رچرڈ ہالبروک
کو خاص ایلچی مقرر کیا لیکن بدقسمتی سے یہ مشن صرف افغانستان اور پاکستان
تک محدود رہا۔ صدراوبامہ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے
کہاتھا کہ اگلے سال جب ہم یہاں آئیں گے تو اسرائیل اور فلسطین کے درمیان
امن کا سمجھوتہ طے پائے گا جس کی بنیاد پر فلسطین کی ایک آزاد اور خودمختار
مملکت اقوام متحدہ کی رکن ہو گی جو اسرائیل کے ساتھ امن کے ساتھ رہے
گی۔لیکن جب ایک سال بعد صدر اوبامہ جنرل اسمبلی آئے تو انہوں نے اقوام
متحدہ میں فلسطین کی نئی مملکت کا مژدہ سنانے کی بجائے ایک آزاد مملکت کی
حیثیت سے فلسطین کی رکنیت کی بھرپور مخالفت کی اور دھمکی دی کہ اگر
فلسطینیوں نے رکنیت کی درخواست پیش کی تو امریکہ اسے ویٹو کر دے گا۔یہ
فلسطینیوں کے ساتھ صریح وعدہ خلافی تھی اور کھلم کھلا اسرائیلیوںکے سامنے
گھٹنے ٹیک دینے کے مترادف عمل تھا۔
افغانستان کی جنگ کے بارے میں صدر اوبامہ کی پالیسی پر پورے عالم اسلام میں
سخت مایوسی کا اظہار کیا جا رہاہے۔ افغانستان کی جنگ میں امریکہ کی واضح
ناکامی کے باوجود صدر اوبامہ اس ناکامی کے اعتراف اور وہاں سے امریکہ کی
تمام فوجوں کی واپسی کے لیے تیار نہیں ہیں۔جون 2011ءمیںصدر اوبامہ نے اعلان
کیا تھا کہ دسمبر2011ءتک افغانستان سے دس ہزار فوج واپس بلا لی جائے گی اور
2012ءمیں مزید 23ہزارافغانستان سے نکال لی جائے گی لیکن اس کے باوجود
افغانستان میں 68000 فوج برقرار رہے گی۔اس سے صاف ظاہر ہے کہ صدراوبامہ
افغانستان میں جنگ کے خاتمہ کے حامی نہیں بلکہ وہاں بدستور امریکی فوجوں کا
تسلط برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔یہی صورتحال عراق کی ہے۔21اکتوبر2011ءکو صدر
اوبامہ نے اعلان کیا تھا کہ اس سال کے آخر تک عراق سے تمام امریکی فوجیں
واپس بلالی جائیں گی لیکن یہ سب الفاظ کا ہیر پھیر ہے۔ عراق سے امریکی
فوجوں کی ’واپسی‘ کے بعد بھی وہاں کم سے کم پانچ ہزار امریکی فوج تربیت اور
خاس آپریشنز کے لیے تعینات ہیں اور دراصل امریکی فوجیوں کی جگہ نجی ٹھیکے
کے فوجیوں نے لے لی ہے اور یوں عراق پر امریکی تسلط برقرار ہے۔ ایران کو
قائل کرنے میں اب تک کامیابی حاصل نہیں ہو سکی ہے اور اس کے خلاف پابندیاں
مزیر سخت کر دی گئی ہیں۔
صدر اوبامہ ناصرف خارجی امور بلکہ بدقسمتی سے گھریلو محاذ پر بھی ناکام صدر
ثابت ہوئے ہیں۔ امریکی معیشت کی موجودہ ابتر صورتحال صدراوبامہ کے لیے
نہایت تشویشناک ہے جس کی بنا ہر آئندہ صدارتی انتخاب میں ان کی کامیابی کے
امکانات معدوم ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔اوبامہ نے جب صدارت کا منصب سنبھالا
تھا تو انہوں نے”اُمید اور تبدیلی“ کا نعرہ لگایا تھا لیکن معیشت میں نہ تو
کوئی ”اُمید“ کی جھلک نظر آئی اور نہ کوئی”تبدیلی“بلکہ ابتری ہی ابتری نظر
آتی ہے۔جنوری2009ءمیں وفاقی قرضے ایک سو کھرب ڈالر تھے جو اب چودہ سو کھرب
ڈالر تک پہنچ چکے ہیں۔گذشتہ تینتالیس مہینوں سے ملک میں بے روزگاری آٹھ
فیصد سے زیادہ ہے اور اس وقت ایک کروڑپینتیس لاکھ بیالیس ہزار امریکی بے
روزگار ہیں۔اوبامہ انتظامیہ امریکیوں کے لیے ملازمت کے نئے مواقع پیدا کرنے
میں ناکام رہی ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کی تازہ ترین رپورٹ(22جنوری2012ء)کے
مطابق امریکہ میں کم و بیش 4کروڑ60لاکھ افراد غربت کی زندگی بسر کر رہے
ہیں۔المناک بات یہ ہے کہ اس معاملے میں نسلی اور ثقافتی فرق نمایاں ہے۔
سیاہ فام اور غیر مغربی نسلوں میں غربت کی سطح انتہائی بلند ہے۔ گذشتہ 4سال
میں امریکہ کے تین سو سے زیادہ بینک بند ہو گئے ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ، نیویارک
ٹائمز اور ٹائم جیسے اخبارات و رسائل نے اپنے عملے میں پچاس سے ستر فیصد تک
کی کٹوتی کر دی ہے۔ ایک طرف ٹیکسز کے معاملہ میں جہاں چھوٹی صنعتیں خوش
نہیں ہیں اور ان پر بھاری بوجھ لاددیا گیا ہے وہیں بڑی صنعتوں کو غیر
معمولی چھوٹ دے کر اقتصادیات کو غیر متوازن بنادیا گیا ہے۔2009ءمیں اقوام
متحدہ میں ہونے والی ایک عالمی اقتصادی کانفرنس میں بتایا گیا تھا کہ ایک
ہزار امریکی کمپنیاں پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں اور وہی بیشتر ممالک کا
بجٹ اور سیاسی حکمت عملی طے کرتی ہیں۔ لیکن اوبامہ انتظامیہ کی اقتصادی
پالیسیوں کے سبب ان کمپنیوں کا کردار بدل گیا ہے اور اب دنیا کے ایک درجن
سے زیادہ ممالک ان کے چنگل سے آزاد ہو گئے ہیں۔ اب یہ جگہ اسرائیل نے لے لی
ہے۔ حالات یہ ہے کہ صدر اوبامہ سے خود ان کے قبیلے کے سیاہ فام لوگ خوش
نہیںکیونکہ ان کے آنے کے بعد بھی ان کی سماجی اور سیاسی زندگی میں کوئی
قابل ذکر فرق نہیں آیا ہے۔
چند دنوں بعد امریکہ میں انتخابات ہونے والے ہیں۔ بارک اوبامہ اب دوبارہ
امریکی صدر بننے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ اگر اوبامہ دوبارہ صدر منتخب ہونا
چاہتے ہیں تو انہیںلازمی طور پر اپنی عوام کے ساتھ کئے گئے وعدوں پر
سنجیدگی سے عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔ دوران صدارت انہوں نے اپنے بیشتر
وعدے نہیں نبھائے جس کے باعث ان کی مقبولیت گھٹی ہے۔معیشت کی زبوں حالی،
بیروزگاری کی بلند شرح اور خارجہ پالیسی اوبامہ کے دوبارہ صدر منتخب ہونے
کے راستے میں بڑی رکاوٹیں ثابت ہو سکتی ہیں۔ |