ڈرون شب خون اور امت مسلمہ

دہشت گردی کے خلاف استعماریت کے تحفظ کی خاطر جرنیلی حکومت نے طالبان کی اسلامک شوری کو نیست و نابود کرنے کے لئے عالمی قاتل انکل سام کا ساتھ دیا اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری و ساری ہے۔ گزرے ہوئے 10سال کے خون ریز ماہ و وصال کو تحقیق و سچ کی عینک لگا کر پر کھا جائے تو یہ کہنا زیادہ غلط نہ ہوگا کہ کوتاہیوں ناعاقبت اندیشیوں کے کارن جو سزا ہمیں مل رہی ہے اسکا تصور ہی محال ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ امریکی و اتحادی 11/9 کے بعد افغانستان کی بجائے پاکستان کا دھڑن تختہ کرنے نکلے ہیں۔ ڈرون حملے خود کش بمباری فوجی چھاؤنیوں پر شب خون اور 40 ہزار پاکستانیوں کی ہلاکت 50 ارب ڈالر کا مالی عسکری نقصان فرنٹ لائنر اتحادی کا صلہ ہے۔کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب امریکیوں نے افغانستان سے قبائلی علاقہ جات پر ڈرون کے تجربات نہ کئے ہوں۔ ڈرون یورش میں99 ٪ قبائلی معصوم مجذوب اورشہید ہوتے ہیں۔ امریکی بہیمت و سفاکیت کا اندازہ پچھلے 3 دنوں میں لگائیں۔تواتر سے ہونے والی بارودی بارش میں سنگینی اور جوہری تیزی آگئی ہے۔یہ فیصلہ کرنا انتہائی مشکل تر ہوتا جارہا ہے کہ کیا ہم جنگ میں پارٹنر ہیں یا فریق ؟ اگرہم فریق نہیں تو پھر ہمیں سولی پر کیوں لٹکایا جارہا ہے ہماری عسکری و انتظامی قیادت اسے پاکستان کی سلامتی جنگ کہتے ہیں اگر ایسا ہے تو پھر کیوں ہماری بہنوں ماؤں بیٹوں بزرگوں کو ڈرون کے دہکتے الاو میں پھینکا جا رہا ہے۔ ڈرون کی سنگددلانہ کاروائیوں پر متعلقہ ادارے ghq ایوان صدر وزیراعظم ہاؤس سے مذمتی بیانات دینے اور بغلیں بجانے کے بعد یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ فرض کی ادائیگی مکمل ہو گئی ہے۔دوسری طرف امریکہ کے سرکاری ریڈیو نیشنل پبلک ریڈیو نے دعویٰ کیا ہے کہ ڈرون حملوں میں ہمیں پاکستان کی حمایت حاصل ہے۔ حملوں سے پہلے معلومات کا تبادلہ کیا جاتا ہے۔npr کے مطابق 6 مہینے پہلے تک پاکستان کی پوری تائید و حمایت میسر تھی۔ ریڈیو کے فیچر سے اس نقطہ نظر کی تصدیق کی گئی ہے کہ پاکستان کو مقررہ اہداف کے نشانات کے متعلق پوری آگاہی دی جاتی ہے۔ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی سابق ایڈوائزر پشلی ڈیکس نے ڈرون دہشت پر کف افسوس ملتے ہوئے کہا کہ پاک فوج شہریوں کو ڈرون کی قیامت صغری سے بچانے کی کوئی تدبیر ڈھونڈنے میں ناکام رہی حالانکہ پاکستان ڈرون میزائل کو تباہ کرنےکی صلاحیت رکھتا ہے۔کیا پشلی ڈیکس کی تصدیق کے بعد کوئی وجہ باقی رہ جاتی ہے کہ فورسز کو ڈرون میزائل کو غتر بود کرنے کی خاطر ہنگامی اقدامات کرنے چاہیں یا ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ کر خون کے دریاؤں سے لطف اندوز ہونا چاہیے۔ ویت نام کی جنگ میں امریکی فوجی اڈوں کے باہر ایک لوگو نصب تھا جس پر درج تھا۔KILLING OF PEOPLES IS TRADE OF AMERICA AND WE R NO1 IN THIS BUSSINESS امریکہ کی درندگی کا زائچہ نکالا جائے تو روح گھائل ہوجاتی ہے۔ پچھلی دو صدیوں میں دنیا میں کوئی ایک ایسا ملک جزیئرہ یا ریاست ایسی نہیں جسکی ازادی و خوداری پر امریکہ نے خونی پینٹ نہ کیا ہو۔ 1امریکی تھنک ٹینک پہلے اپنے ہدف کا تعین کرتے ہیں۔یہ ہدف کوئی ملک یا کوئی خطہ ہوسکتا ہے۔2 اپنے ہدف ریاست میں ڈالروں اور اسلحے کی بارش کی جاتی ہے۔ امریکی ایجنسیاں دینی مذہبی لسانی اور گروہی خلفشار اور سیاسی انتشار کی خاطر کئی پاپڑ پیلتے اور مقامی میر جعفروں کی معاونت سے درجنوں سازشوں کے جال بنتے ہیں۔3 خانہ جنگی کا بیج بویا جاتا ہے جب یہ فصل عروج پر پہنچتی ہے تو پھر استعماری گدھ امریکی کمان میں مخالفین پر لشکر کشی کردیتے ہیں۔یو این او بڑی طاقتوں کی جنبش ابرو پر کسی ملک کے خلاف کاروائی کی قرارداد منظور کرنے میں ید طولی رکھتی ہے۔4 کسی ملک میں امریکی حملے کا جواز ڈھونڈنے کے لئے قتل و غارت اور شورش کو ہوا دیتے ہیں اور پھر جب دل کرتا ہے امن سکون یکجہتی اور تحفظ انسانیت احترام ادمیت کا نعرہ ہانک کر بغداد و کابل لیبیا پر وحشیانہ حملے اور قبضے کرلیتے ہیں۔ روئے ارض پر امریکی قہرمانیوں اور دریدہ دہنیوں کی طویل ترین تاریخ ہے جسکا ایک ایک حرف اور لفظ مسلمانوں کے خون جگر کی آبیاری سے ہویدا ہے۔مغرب کے باکمال رائٹر JON KNIPERS نے کڑی محنت اور جاں گسل فراست کی روشنی میں national securty کے نام سے کتاب قلمبندی کی ہے جو بام شہرت کو چھور ہی ہے۔کتاب میں قلمکار نے ایسے ایسے ناقابل تصور حالات و واقعات کا زکر کیا ہے جو ہماری نظروں سے ہمیشہ پوشیدہ رہے۔ عراق سے کیمیائی ہتھیاروں کی سوئی پن تک نہ مل سکی مگر امریکہ نے حملہ کرکے بغداد کوپتھر کے زمانوں میںپھینک دیا۔ امریکہ اپنا اسلحہ بیچنے کے لئے مختلف ملکوں اور دہشت گرد فرقوں سے رجوع کرتا ہے۔ کسی ملک شہر یا براعظم میں سرکاری حکومت اور مقامی گروپوں کے درمیان لڑائی جاری ہو تو دونوں اطراف سے اسلحے کی خرید امریکی کمپنیوں سے کی جاتی ہے۔ مزہ تو یہ ہے کہ اپنے مفادات کے حصول کی خاطر کسی ملک میں حکومت کی تبدیلی مقصود ہو تو cia حکومت اپوزیشن اور انتہاپسندوں کے درمیان فساد کی جڑ پیدا کرتا ہے اور پھر لڑائی کے سارے فریقین کو طلب کرکے بزور ڈنڈا اپنی شرائط منوا لیتا ہے۔ امریکہ بیک وقت لڑائی کے سارے فریقین پر اثر و نفوز رکھتا ہے۔ امریکی اتحادیوں نے ہیٹی ویتنام ڈومینک ریپبلک کابل بغداد میں جراثیمی ہتھیاروں کے ان گنت تجربات کئے جس میں زندہ انسان راکھ بن گئے جنکی تعداد لاکھوں کروڑوں میں ہے ۔ سوویت یونین کی بکھر جانیوالی عظمت کو سلام کیونکہ روس اور سوویت یونین نے عروج و زوال دونوں ادوار میں امریکی ظلمتوںکو روکنے کی خاطر کم از کم صدا ضرور دی ہے۔ ہمارا خطہ تبدیلیوں کی زد میں ہے امریکہ ایک طرف پاکستان کے جوہری اثاثوں کو ختم کرنا چاہتا ہے تو دوسری طرف شام اور ایران کو راکھ بنانے کی منصوبہ بندی کرچکا ہے۔ حضرت امام حسین نے کہا تھا لوگو ظلم کے خلاف لڑنے جابروں کو ختم کرنے کا صیح وقت اگیا ہے۔ پاکستان سمیت امت مسلمہ کا اسلامی فرض تو یہ ہے کہ وہ حضرت امام حسین کے قول کی روشنی میں امریکہ کی کھوکھلی سپرپاور کو زمین بوس کرنے کی خاطر میدان میں نکل ائیں اگر امام حسین کے زندہ جاوید مقولے کو رہبر مان کر یہود و ہنود کے سامنے ڈٹ جائیں اور ہوسکتا ایسا کرنے سے ڈرون حملوں کا خاتمہ اور ایران پر متوقع یہودیوں کی جنگ وقت سے پہلے ہی دم توڑ دے۔
Rauf Amir Papa Beryar
About the Author: Rauf Amir Papa Beryar Read More Articles by Rauf Amir Papa Beryar: 204 Articles with 140641 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.