مغل سلطنت تتر بتر ہو رہی تھی
خوشیوں کے ساتھی دکھوں کے وقت ایک ایک کر کے بھاگ رہے تھے وہ جو جان نچھاور
کرتے تھے وہ سامنا کرنے پر تیار نہ تھے ہر کوئی اپنا نیا ٹھکانا ڈھونڈ رہا
تھاان میں سے ایک مغل دربار کا باورچی محمد حسین بھی تھا اس نے بھی تعلقات
کا گھوڑا دوڑایا ۔ آخر بہاولپور کے نوابوں نے اسکو اپنے پاس آنے کا حکم
دیااکثر نوابوں کے اس وقت بھی آج کی طرح دو ہی شوق تھے اچھا کھانا اور
خوبصورت عورت کا ساتھ ۔ محمد حسین دہلی کو الوداع کہہ کر بہاولپور کاسفر
کرنا شروع کرتا ہے جب وہ لاہور سے گزر رہا ہوتا ہے تو اس وقت لاہور کے حاکم
مہاراجہ رنجیت سنگھ کو مخبر اطلاع کرتے ہیں کہ مغلوں کا مشہور باورچی محمد
حسین آج لاہور میں رکا ہوا ہے کل وہ بہاولپور کی طرف سفر شروع کرے گا۔
مہاراجہ رنجیت سنگھ بھی کیونکہ اپنی جگہ نواب تھا اس نے اپنا قاصد محمد
حسین کے پاس بھیجا کہ وہ دربار میں حاضر ہو ۔ محمد حسین اگلے دن دربار میں
حاضر ہو ا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ اورمہارانی جی نے محمد حسین سے کہا کہ
تمھاری بڑی تعریف سنی ہے ۔ ہم تمھارے ہاتھ کا بنا کھانا تناول کرنا چاہتے
ہیں ۔ محمد حسین نے ہاں کر لی ۔ مہاراجہ سے پوچھنے لگا کیا کھانا پسند کریں
گی مہاراجہ نے ایک نظر مہارانی پے ڈالی تو مہارانی جی بولی مجھ کو مسور کی
دال سخت نا پسند ہے ۔ اگر تم مسور کی دال پکاؤ اور میں وہ خوش ہو کے کھا
لوں تو پھر تم کو مغلوں کا باورچی مانوں گی ۔ محمد حسین نے کہا خرچہ آپکا
فن میرا ۔ آپ سب کھانے بھول جائیں گی اور صرف مسور کی دال ہی کھایا کریں
گی۔محمد حسین نے مسور کی دال کے لیے خزانچی سے پیسے لیے تو خزانچی کو ٹھنڈے
پسینے آنے لگ گئے ۔ مگر مہارانی کے خوف سے بولنے کی جرات نہیں کی ۔محمد
حسین نے بازار سے دال اور مصا لا جات خریدے اور دال پکائی ۔ کھانے کاٹائم
آیا تو مہارانی اور مہاراجہ رنجیت سنگھ عش عش کر آٹھے ۔ اور سب کے سامنے
اقرار کیا کہ ہم نے آج تک ایسا لذیز کھا نا تناول نہیں کیا ۔مہارانی نے
مہاراجہ کو کہا کہ اب جو بھی ہو جائے میں محمد حسین کو بہاولپور نہیں جانے
دوں گی ۔ مہاراجہ کی کہاں جرات تھی کہ وہ مہارانی کے سامنے نہ کرتا ۔ محمد
حسین کی تنخواہ مقرر کی گئی جو لگ بھگ ایک وزیر جتنی تھی ۔ بہرحال محمد
حسین نے کام شروع کر دیا ۔ مہارانی تھی کہ روز پوچھتی آج کیا پکا رہے ہو ۔
محمد حسین خوش ہو کر کہتا دال مسور ۔
تین دن بعد مہاراجہ کو ایک مخبرنے اطلاع دی کہ جناب محمد حسین جس حساب سے
کھانے پر خرچہ کر رہا ہے اس حساب سے یہ خزانہ پر بہت بڑا بوجھ ہے ۔ جناب
اسکو سمجھائیں مہاراجہ نے خزانچی کو طلب کیا کہ کتنا خرچہ ہوا تین دن میں
خزانچی ڈر کے بولا جناب 75 روپے ۔مہاراجہ رنجیت سنگھ کا پارہ اوپر چڑھ گیا
۔ وہ بولا محمد حسین نے تین دن دال مسور پکائی میں تو خوش تھا کہ خرچہ کم
ہو گیا یہ تو تین ماہ کا خرچہ تین دن میں کر گیا۔ اسی وقت محمد حسین کو
حاضر ہونے کا کہا ۔ حاضر ہونے پر کہا محمد حسین دال تو دس آنے کی کلو مل
جاتی ہے تم نے 75 روپے کس چیز پر خرچ کر دیے ۔ وہ بولا جناب ایک روپے کی
سپیشل دال اور 74روپے کے 80 قسم کے مصالاجات ۔ مہاراجہ سن کر بولا ۔ محمد
حسین میری سلطنت تمھارا خرچہ برداشت نہیں کر سکتی ۔ تم بہاولپور چلے جاؤ۔
محمد حسین نے بہاولپور کا سفر شروع کر دیا ۔ ابھی وہ تھوڑی دور شہر سے نکلا
کہ دوپہر کا کھانا مہارانی کی خدمت میں نئے باورچی نے پیش کیا ۔ مہارانی نے
مہاراجہ رنجیت سنگھ کی سلطنت میں بھونچال پیدا کر دیا ۔ اور کہا کہ وہ کسی
صورت کھانے کو ہاتھ نہیں لگائے گی ۔ مجھ کو تو صرف محمد حسین کے ہاتھ کی
پکی دال مسور ہی چاہیے مہاراجہ رنجیت سنگھ نے مرتا کیا نہ کرتا کے مصادق
فوج کے ایک دستے کو محمد حسین کو واپس لانے بھیج دیا ۔ جب فوج کا دستہ محمد
حسین کا پیچھا کرتے آجکل کے رائیونڈ پہنچا تو محمد حسین نظر آ گیا ۔ دستے
کو سربراہ نے کہا محمد حسین تم کو مہاراجہ رنجیت سنگھ نے دوبارہ دربار حاضر
ہونے کو کہا ہے ۔ اس موقعے پر محمد حسین نے کہا کہ اب میں چل پڑا ہوں واپس
نہیں جاؤں گا ۔اب میری منزل بہاولپور ہے ۔دستے کے سربراہ نے کہا نہیں تم کو
ہمارے ساتھ جاناہو گا ۔ محمد حسین نے کہا میں نہیں جاسکتا ، اور میرا پیغام
مہاراجہ رنجیت سنگھ اور مہارانی کو دے دینا اور انکو کہنا یہ منہ اور مسور
کی دال ۔ محمد حسین کا یہ تاریخی فقرہ آج بھی کتابوں میں موجود ہے ۔ محمد
حسین کو اسی جگہ مہاراجہ کی فوج نے قتل کر دیا ۔ اور اسی جگہ اسکا دفنا دیا
گیا -
کچھ یہ ہی حال میرے وطن کا ہے آجکل ۔ پتہ نہیں ان حکمرانوں کو شرم کیوں
نہیں آتی ۔ اپنی انا کی تسکین کے لیے پتہ نہیں یہ کیا کیا کرتے پھر رہے ہیں
۔ کوئی اتنا ڈرتا ہے کہ کراچی آنے کو تیا ر نہیں اور لندن سے حکم نامے جاری
کرتا ہے ۔ اور کسی کو رائیونڈ میں بھی ڈر لگتا ہے اور بیچارہ عوام کے ٹیکس
سے سات سے نو سو کے قریب پولیس اہلکار رکھنے پر مجبور ہے اور ایک صاحب
صدارتی بنکر سے باہر آنے کو تیار نہیں ۔ رہی بات کے پی کے اور بلو چستان کے
نوابوں کی تو انکا اللہ حافظ ہے ۔ پچھلے پانچ سال کی بے مثال اور تاریخی
لوٹ مار کے بعد اب پھر پنجاب سندھ خیبرپختونخواہ بلوچستان اور فیڈرل
گورنمنٹ میں میں مزے لینے کے بعد اب یہ تمام پارٹیاں پھر عوام کے پاس جانے
کو تیار ہو رہی ہیں ۔مگر پچھلے ساٹھ سالوں سے عوام پیاز اور جوتے کھانے کے
بعد اب کافی سیانی ہو گئی ہیں ۔ مگر یہ پارٹیاں سمجھ رہی ہیں کہ وہ ایک بار
پھر عوام کو بیوقوف بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے ۔ مگر اب ایسا مشکل ہے ۔
عوام کا موڈ ان حکمرانوں کے لیے کچھ اچھا نہیں ۔ تبھی تو لوگ تبدیلی کی
باتیں کرتے ہیں ۔ جو ماضی میں کبھی نہیں سنی گیں ۔ اس کے بعد اب ایک بات طے
ہے جب یہ آزمائے چہرے ووٹ لینے کہ لیے لوگوں کہ پاس جائیں گے تو اس بار
انکو محمد حسین والا وہ تاریخی جواب سننا پڑے گا ۔ یہ منہ اور مسور کی دال |