پاکستان میں ایک چیز بہت عام ہے
اور وہ ہے طاقت ور کا کمزور پر زور، امیر کا غریب پر رعب۔ ہمارے ملک کی
سیاست کی سب بڑی بیماری یہ ہے کہ ہر سیاستدان اپنے رشتے داروں اور اپنے
قریبی لوگوں کو ہر جگہ اہمیت دیتے ہیں اور تھانہ کلچر تو ایسے جیسے ان کی
مٹھی میں بند ہو۔ جب دل چاہا جس مرضی کو فون کرکے رہا کرادیا اور جب ضرورت
پڑی تو کسی کو گرفتار کرادیا۔ ان اقدامات کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں دنگا
فساد، بدتمیزی روزمرہ کا معمول بن گیا ہے۔ ہمارے سیاستدانوں کے ڈیرے صرف
تھانہ کلچر کے لیے ہی آباد ہیں ۔ بہت کم لوگ ملازمت اور دوسرے کاموں کے لیے
جاتے ہیں ۔
ایسا ہی واقعہ پچھلے دنوں لاہور میں پیش آیا ۔ ہمارے خادم اعلیٰ کی
صاحبزادی نے کسی بیکری والے سے منہ ماری کرلی اور مثال مشہور ہے کہ” شاہ سے
زیادہ شاہ کاوفادار “ ان کے گارڈز نے اپنی وفاداری نبھاتے ہوئے بیکری
ملازمین کی ٹھکائی کردی اور ان کی اس حرکت کا خمیازہ ان کے مالک کو بھگتنا
پڑرہا ہے۔ جس کے نتیجے میں وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف کے داماد علی
عمران نے گرفتاری دے دی ہے۔اپنے داماد کو شامل تفتیش ہونے کے لیے خادم اعلیٰ
نے خودحکم دیکر پاکستان میں نئی تاریخ رقم کی ۔ ا ان کا کہنا ہے کہ قانون
سب کے لئے برابر ہے اور کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں۔ وہی بات کہ شاہ سے
زیادہ شاہ کے وفادار والی داماد صاحب کا کہنا ہے کہ جنہوں نے بیکری ملازم
پر تشدد کیا، وہ ہمارے ملازم ہیں، لیکن ہم نے ہدایات نہیں دیں۔
بیکری ملازم پر تشددکا واقعہ انتہائی افسوسناک ہے تاہم جب یہ واقعہ پیش آیا
خادم اعلیٰ ملک سے باہر تھے، جب وہ واپس آئے اوران کو اس بات کا علم ہوا تو
انہوں نے فوری طور پر قانونی کارروائی کا حکم دیا اور ذمہ داروں کے خلاف
مقدمہ درج کرکے قانونی کارروائی کی ہدایت کی اوریہ بھی نہ سوچاکہ اس واقعہ
میں ان کے داماد ملوث ہیں۔ چنانچہ پولیس نے وزیراعلیٰ کی ہدایت پران کے
داماد علی عمران کو دفعہ 109کے تحت گرفتار کرلیااورپھرجوڈیشل مجسٹریٹ کی
عدالت میں پیش کیا گیا جنہوں نے ریمانڈ پر جیل بھیج دیا اور ضمانت کی
درخواست پر فریقین کو نوٹس جاری کردیئے۔
اس طرح کے بڑے لوگوں کے لڑائی جھگڑے اور تشدد کی وارداتیں ہمارے ہاں معمول
کی بات ہیں۔ عام طورپر ایسی وارداتوں کی ایف آئی آر درج ہونا تو دور کی بات
پولیس کو اطلاع تک نہیں ہوتی اور اگریہ بات تھانے تک چلی بھی جائے تو
معاملہ جلد ہی رفع دفع ہو جاتا ہے۔ لیکن قابل ستائش امر یہ ہے کہ وزیراعلیٰ
پنجاب نے قانون کے معاملے میں اپنی پوزیشن کو اپنے داماد کے حق میں استعمال
نہیں کیا جو سیاستدانوں کے ایک زندہ مثال ہے۔داماد علی عمران اس معاملے کو
دوسرے لوگوں کی طرح ڈرا دھمکا کر یا لالچ دیکر رفع دفع کرسکتے تھے مگر
انہوں نے اپنے سسراور خادم اعلیٰ کی ہدایت پر گرفتاری دی اور اب سارا
معاملہ قانون کے سپرد ہے۔اس سے پہلے ان کے بڑے بھائی اور ن لیگ کے صدر میاں
نوازشریف نے اپنے داماد کے معاملے میںبھی اسطرح کے مثالی طرز عمل کا مظاہرہ
کیا تھا، جنہوں نے ن لیگ کے بعض سینئررہنماؤں کے متعلق بیانات دیئے تھے۔
میاں نوازشریف نے اس معاملے کا نوٹس لیا اور اپنے داماد کی رکنیت معطل کی۔
ان کے خلاف انکوائری ہوئی اور قیادت کے مطمئن ہونے کے بعد ہی ان کی رکنیت
بحال ہوئی۔
دونوں بھائیوں اور سیاسی رہنماؤں کا یہ طرزعمل قانون کی نظرمیں پسندیدہ
ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سبق اموز مثال بھی ہے اور اگر ہماری تمام سیاسی
قیادتیں اسی طرح قانون پسندی کا مظاہرہ کریں تو ملک میں قانون کی پاسداری
قائم ہو سکتی ہے۔وزیراعلیٰ پنجاب کا یہ اقدام قابل تعریف ہونے کے ساتھ ساتھ
قابل تقلید بھی ہے اور اس طرح کے اقدام اٹھانے کے لئے بڑے دل گردے کی ضرورت
ہوتی ہے جس کا مظاہرہ صرف میاں شہباز شریف نے کیا ہے۔کاش ہمارے ملک کے باقی
حکمران ، جاگیردار، وڈیرے اور دوسرے امیر لوگ بھی ایسے معاملات میں اس طرح
کے طرزعمل اپنائےں جو اپنے عزیزوں کو سزا سے بچانے کے لئے ملک کے قانون کی
ہر حد کوعبور کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔ خادم اعلیٰ کے اس قدم سے جولوگ
طرح طرح کی باتیں بنا رہے تھے تو اپنا منہ لیکر بیٹھ گئے ہیںاور ان کی یہ
مثال ان سیاستدانوں کے منہ پر طمانچہ ہے جو اپنے بچوں ،رشتے داروں ،
بھائیوں کے بچانے کے لیے قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں اور کچھ لوگ
تو اس حد کو پار کرچکے ہیں کہ انہوں نے اپنے مفاد حاصل نہ ہونے پر ججز پر
انگلیاں اٹھانا شروع کردی ہیں۔ شہباز شریف نے ثابت کردیا کہ خادم اعلیٰ
ہوتو ان جیسا۔ |