ہماری بڑی خواہش ہے کہ سرکار کی
نوکری ہو آرام سے ڈیوٹی کرے اور مہینے کے اختتام پر تنخواہ ہمیں بروقت مل
جائے لیکن یہ ایسا خواب ہے جو ہم جیسے لوگ روزدیکھتے ہیں لیکن اس کی تعبیر
مشکل ہے لیکن اپنے رحمان ملک کے ایک بیان نے نہ صرف مجھے بلکہ میرے ساتھی
کو بھی حیران و پریشان کردیا وزیر داخلہ نے طالبان کیلئے جس پیکج کا اعلان
کردیا اس سے اندازہ ہوگیا کہ طالبان کو " ظالمان"کہنے والے اپنے مقصد کیلئے
کس حد تک جاسکتے ہیں -نہ ہم طالبان کے مخالف ہیں اور نہ ہی ہماری اوقات
سیکورٹی فورسز کیخلاف بات کرنے کی ہے کیونکہ ان کے زیر استعمال " لمبے بوٹ"
اور " گن"دیکھ کر بڑے بڑے "تیس مارخان" کلمہ شہادت تک بھول جاتے ہیں- سو ہم
بھی یہاں اپنی بات کرتے ہیں-
یار میرا دل کررہا ہے کہ میں طالبان میں جا کر شامل ہو جائوں اور ان کیساتھ
کام کروں ان کیلئے ویسے بھی پیکج آیا ہے یہ جملہ میرے ایک صحافی دوست نے
مجھے کہا- صبح سویرے اس کی بات سن کر میں حیران ہوگیا کہ آخر میرے اس شریف
اور معصوم ساتھی کوکیا ہوگیا کہ یہ طالبان کیساتھ شامل ہونے کو کہہ رہا ہے
حالانکہ وہ میری طرح "درمیانہ ہے" یعنی نہ تو اس کا کوئی تعلق کسی خفیہ
ایجنسی سے ہے اور نہ ہی کسی طالبان لیڈر سے اس کا کوئی تعلق ہے اسی بناء پر
میری طرح وہ بھی ہر جگہ خوار ہورہا ہے کیونکہ جن صحافیوں کے تعلق ایجنسیوں
والوں سے اچھے ہوں ان کے حالات بہت حد تک ٹھیک ہوتے ہیں اور جن کے طالبان
کیساتھ تعلقات ہوں وہ بھی کبھی کبھار کوئی بریکنگ نیوز انہیں دے جاتے ہیں
جسے وہ دیکر باہر کی نیوز ایجنسیوں سے کوئی نہ کوئی خرچہ نکال ہی آتے
ہیں-جبکہ میری طرح ڈرنے والے ہر جگہ ڈر ڈر کر زندگی گزارتے ہیں - خیر بات
ہورہی ہے اپنے ساتھی دوست جس سے میں نے پوچھ ہی لیا کہ بھائی یہ کونسا پیکج
آیا ہے جس کی وجہ سے تم طالبان میں شامل ہورہے ہو-جواب میں میرے ساتھی کا
کہنا تھا کہ ہمارے عجیب و غریب بالوں کے رنگ والے وزیر داخلہ نے عجیب و
غریب بیان دیا ہے کہ "طالبان کا ساتھ دینے والے ان کا ساتھ چھوڑ کر اسلحہ
رکھ کر آجائیں تو پھر ہم انہیں سرکاری نوکریاں دیدیں گے " اس کی بات سن کر
خود میرے منہ میں پانی بھر آیا کیونکہ پرائیویٹ نوکری کرتے کرتے اب تو ہمت
جواب دینے لگی ہے لیکن ہمارے وزیر داخلہ نے ایسی خطرناک شرط رکھی ہے کہ
طالبان کے ساتھی ہونا لازمی ہے اب ہماری اتنی اوقات کہاں کہ اپنے آپ کو
طالبان کا ساتھی کہہ کر سرکاری نوکری کیلئے اپنے آپ کو پیش کریں ویسے ہمیں
تو ڈر اس بات کا ہے کہ اگر ہم نے غلطی سے کہہ بھی دیا کہ ہم طالبان کیساتھ
ہیں تو بیلٹ والی سرکار جن کا نام ہم ڈر کی وجہ سے پورا نہیں لیتے اتنا
چھتر مارلیں گے کہ یقینا مجھے اپنی مری ہوئی دادی یاد آجائیں گی جس کا مجھے
یقین ہے -
ویسے مجھے رحمان ملک کی بات کا بھی یقین نہیں کیونکہ موصوف اتنی تیزی سے
بیان بدلتے ہیں کہ اتنی تیزی سے الیکٹرانک میڈیا کے صحافی " تیز تر خبر" کے
چکر میں جگہیں بھی تبدیل نہیں کرتے کیونکہ الیکٹرانک میڈیا کے صحافی بہت
تیزی کیساتھ ہر جگہ پہنچنے کے دعوئوں میں خبر کا بیڑا غرق کردیتے ہیں اور
پھر ٹی وی سکرین پر نظر آتا ہے کہ " ہم نے یہ خبر سب سے پہلے ہم نے عوام
کودی اور عوام کو ذہنی تنائو دینے میں ہم پہلے نمبر پر رہے -ذہنی تنائو
انسان کو کہاں سے کہاں پہنچاتا ہے ہم بات کررہے تھے رحمان ملک کی طالبان کے
ساتھیوں کو نوکریوں کی -پاکستان کے لاجواب وزیر داخلہ طالبان کے ساتھیوں کو
سرکاری نوکریاں دینے کا لالچ تو دے رہے ہیں لیکن اس ملک میں جو نوجوان طبقہ
جو پہلے سے ہی بیروزگار ہیں انہیں ایڈجسٹ کرنے کوئی اقدام نہیں اٹھایا
جارہا معاشی بدحالی کا شکار لوگوں میں ہمارا زیادہ تر نوجوان طبقہ شامل ہیں
اور یہ پہلے سے بیروزگار ہیں اور طالبان کیساتھ نہیں لیکن جس طرح حکومت نے
انہیںنظر انداز کیا ہے اس سے لگتا ہے کہ ہماری نوجوان نسل جلد ہی طالبان کے
صفوں میں شامل ہو گی اور یہ میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ ہر جگہ پر نوجوانوں
کا راستہ روکا گیا ہے سیاستدان کے میدان سے لیکر بیورو کریسی صحافت سمیت ہر
شعبے میں "بڈھے" چھائے ہوئے ہیں جو قوم کی خدمت کا بیڑہ اپنے اٹھائے ہوئے
ہیں حالانکہ ان کی عمر اللہ اللہ کرنے یا پھر "" قبر میں جا کر لیٹنے"کی ہے-
ہمارے پشتو میں ایک مثل مشہور ہے جس کے معنی کچھ یوں ہیں کہ " انسان اگر
ساٹھ کا ہو جائے تو اسے گولی مار دینی چاہئیے" پشتو میں اس کے تلفظ اور
ادائیگی کا اپنا ہی مزہ ہے -سرکار ی نوکریاں تو عام لوگوں کو ملنے سے رہی
عام لوگوں کیلئے گریڈ چودہ سے اوپر کی نوکری تو خواب ہے اب تو حال ہو گیا
ہے کہ لوگ نائب قاصد اور کلرک کی نوکری کیلئے لاکھوں روپے دیتے ہیں کہ چلو
سرکار کے کھاتے میں شامل ہو جائینگے - ہمارے ایک رشتہ دار نے پشاور کے ایک
بڑے ہسپتال میں نائب قاصد کی بھرتی کیلئے ایک لاکھ روپے دینے کی حامی بھری
تھی جس کی ڈیمانڈ اس سے انسانیت کی خدمت کرنے والے ایک بہت بڑے سیاستدان جو
اس وقت عوام کی صحت کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہیں کے " پی آر او " کے " پی آر او
"نے کی تھی اور رشتہ دار نے اسے ایک لاکھ روپے دئیے ہی تھی لیکن درمیان
میںمیں نے آکر اس کا کام خراب کردیا کہ بھائی میرے قسمت میں جو تمھیں ملنا
ہے وہ تو ویسے بھی مل کر رہے گا لیکن اپنا رزق کیوں حرام کرنے پر تلے ہوئے
ہوں-جس کی وجہ سے میرا رشتہ دار سرکاری نوکری سے رہ گیارحمان ملک تو طالبان
کے ساتھیوں کو لالچ دیکر لے آئیں گے لیکن انہیں کس ڈیپارٹمنٹ میں بھرتی
کرینگے کیونکہ وفاق کے زیادہ تر اداروں میں تو لاکھوں روپے رشوت کا مطالبہ
کیا جاتا اور لوگ تو بدانتظامی ناانصافی اور کرپشن کی وجہ سے بھاگے ہوئے
ہیں-دوسرے ہمارے رحمان ملک تو انہیں ویسے بھی "ظالمان" کے نام سے پکارتے
ہیں اگر ان کے ساتھی اگر کسی سول اداروں میں آگئے تو پھر کیا ہوگا -اگر یہ
واقعی ظالمان ہے تو پھر انہیں آفر ہی کیوں کی جارہی ہے کبھی تو انہیں ختم
کرنے کے دعوے کئے جاتے ہیں اورکبھی آفر دیکر انہیں اپنی طرف راغب کرنا سمجھ
سے بالاتر گیم ہے -
ہمارے ایک صاحب جن کا آغاز " ا ب پ "سے ہوتا ہے کچھ ستم ظریف اسے " آصف
بلال اور پیپلز پارٹی" کہتے ہیں-ان کی پارٹی "روٹی کپڑے اور مکان" کے نام
پر آئی تھی اور گذشتہ ساڑھے چار سالوں میں عام لوگوں سے تو کپڑا اتر گیا
روٹی کے لالے پڑے ہیں اور مکانات کیا بنگلے ان لوگوں نے بنالئے ہیں جو "
جئے " کے نعرے نوجوانوں سے لگوا کر انہیں روزگار کیلئے سبز باغ دکھاتے ہیں
-ہم یہاں پر اپنے وزیر داخلہ سے اپیل کرتے ہیں کہ جو نوجوان ہمارے خوار
ہورہے ہیں پہلے ان کی بیروزگاری کو ختم کرنے کیلئے کوئی اقدامات اٹھائیں
گذشتہ پانچ سالوں سے ہم تو یہ سنتے آرہے ہیں کہ دھماکہ ہوگیا دہشت گردی
ہوگئی نوجوان دھماکوں میں ہلاک ہوگیا نوجوان روزگار کی خاطر ملک چھوڑ کر
بھاگ رہے ہیں لیکن کبھی یہ اعداد و شمار بھی بتائے جائیں کہ حکومتی اداروں
نے بغیر رشوت لئے اور میرٹ پر نوجوانوں کو مختلف صوبوں میں روزگار دیں شائد
یہی میرے جیسے " ڈرنے والے "صحافی کیلئے ایک بڑی خبر ہو اورپھر ہمارا رحمان
ملک کی بات سن کر منہ میں پانی نہ آئے- کہ کاش ہم بھی طالبان کے ساتھی ہوتے
تو ہمیں بھی سرکاری نوکری مل جاتی- |