بے شک آج کی تازہ خبر ضمیر کا
قیدی (اصغر خان) ہے۔ آخر کار سپریم کورٹ نے22 سالہ پرانے متنازعہ الیکشن پر
16 سال قبل جمع کرا ئی جانے والی درخواست پر فیصلہ دے ہی دیاجو 1990 کے
الیکشن میں آئی جے آئی کے بد عنوان سیاستدانوں میں غلام اسحاق خان ‘ اسلم
بیگ اور جنرل درانی کے آٹھ ملین ڈالر کی بندر بانٹ سے متعلق ہے‘ ن لیگ کے
ترجمان اس کا ذمہ دار اس دور کے نگران وزیر اعظم اور آئی جے آئی کے رہنما
غلام مصطفی جتوئی کو ٹھہرا رہے ہیں‘ ن لیگ کا کوئی رہنما یہ کہہ رہا ہے کہ
انہیں تو یہ بتایا گیا تھا کہ یہ سعودی عرب کی جانب سے عطیہ آیا تھا۔ دوسری
جانب حمید گل کا کہنا ہے کہ انہوں نے آئی جے آئی تشکیل دی ‘انکا ٹرائیل
کیوں نہیں کیا جاتا۔ تاہم انکا یہ بھی کہنا ہے کہ جب رقوم تقسیم کی گئیں تو
اس وقت وہ آئی ایس آئی کے سربراہ نہیں تھے۔
پاکستان کی تاریخ میں سب سے کم عمر چیف آف ائیر فورس اصغر خان یقیناََ ایک
رول ماڈل کا درجہ رکھتے ہیں۔ حکومت نے انہیں تمغہ ہلال قائداعظم اور ہلال
پاکستان کے اعزازات سے نوازا۔ مگر انہوں نے یہ اعزازات حکومت کو واپس کر
دیئے۔ دوسری طرف ن لیگ یہ کہہ کر بھی اپنا دفاع کر رہی ہے کہ اگر جرنیل
اتنے ہی بد عنوان تھے تو پھر بے نظیر بھٹونے اسلم بیگ کے ماتھے پر تمغہ
جمہوریت کیوں سجایا اور جنرل درانی کو جرمنی میں کیوں سفیر بنا کر بھیجا۔ ن
لیگ کے حمایت یافتہ راہنما اور اسلم بیگ کے وکیل شیخ اکرم کا کہنا ہے کہ
اسلم بیگ نے1952 کے آئین کے تحت حلف اٹھایا تھانہ کہ 1973 کے آئین کے تحت
لہٰذاا ان پر غداری کا مقدمہ نہیں چل سکتا۔
تاریخ گواہ ہے کہ بے نظیربھٹوکی حکومت کو صرف بیس ماہ بعد ہی ختم کردیا گیا
اورنئے انتخابات 24اکتوبر1990کو منعقد ہوئے جس میں قومی اسمبلی کی 217سیٹوں
میں سے اسلامی ڈیموکریٹک الائنس یا اسلامی جمہوری اتحاد (IJI) نے نواز شریف
کی قیادت میں 106 نشستیں جیتیں۔ پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت کو چونکہ غلام
اسحاق خان نے ختم کر دیا تھا لہٰذاپی پی پی نے الیکشن کا بائیکاٹ کیا تاہم
بے نظیربھٹو کی حکمت عملی کے تحت پی پی پی کی طرف سے تین چھوٹے چھوٹے
گروپوں کی شکل میں الیکشن لڑا گیا جن کے اتحاد کا نام پیپلز ڈیموکریٹک
الائنس (PDA) رکھا گیا تھا۔جس نے بمشکل 44 سیٹوں پر ہی کامیابی حاصل کی تھی۔
سیاسی مبصرین کے مطابق الیکشن مہم کے دوران پی پی پی کی پوزیشن زیادہ
مستحکم تھی کیونکہ نگران حکومت بے نظیر حکومت پر لگائے جانے والے الزامات
کو درست ثابت نہ کر سکی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ بے نظیربھٹو نے لاہور میں
ہزاروں کے جلوس سے خطاب کیا جبکہ نواز شریف کی ریلی میں فقط دس ہزار
افرادشریک ہوئے تھے۔ وہی ہوا جسکا ڈر تھا۔ ملکی اور غیر ملکی نامہ نگاروں
نے اسے غیر منصفانہ الیکشن قرار دیا۔ اور یہ تاثر بھی عام تھاکہ یہ سب
پاکستان کے صدرمملکت ‘ آرمی چیف اور نگران وزیر اعظم غلام مصطفی جتوئی کے
ٹرائیکا (Troika) کی ملی بھگت کا نتیجہ تھا۔ یہ دھاندلی تین مرحلوں میں
انجام پائی تھی۔ پری پول رگنگ‘ پول ڈے رگنگ اور پوسٹ پول رگنگ ۔صدر کے دفتر
میں جو مانیٹرنگ دفتر قائم کیا گیا تھا اسکے سربراہ جنرل رفاقت تھے۔ کہا
جاتا ہے کہ نوے کی پوری دہائی میں طاقت کا یہ کھیل جاری رہا۔ بینظیر بھٹوکی
جگہ میاںنواز شریف میاں‘ نواز شریف کوہٹانے کے بعد پھر بے نظیربھٹو اوربے
نظیربھٹو کی سبکدوشی کے بعد پھرمیاں نواز شریف نے لے لی تھی۔ آخر کار جنرل
پرویز مشرف نے میاںنواز شریف کو ہی چلتا کردیا۔ اور کوئی نو سال اقتدار کے
مزے لوٹے۔
ووٹوں کے اعدادوشمار
رجسٹرڈ ووٹرزکی تعداد 47,065,330
ڈالے گئے ووٹ 21,163,911
ووٹوں کی تقسیم
سیاسی جماعتیں امیدوار حاصل کردہ ووٹ حاصل کردہ فیصد ووٹ
اسلامی جمہوری اتحاد 154 7,908,513 37.37
پیپلز ڈیموکریٹک الا ئنس 182 7,795,218 36.83
مہاجر قومی موومینٹ (MQM) 24 1,172,525 5.54
آزاد 716 2,179,956 10.3
دیگر جماعتیں 256 2,107,699 9.96
1990 کے انتخابات ایک نظر میں
سیاسی پارٹیاں حاصل کردہ ووٹ ووٹوں کا تناسب سیٹیں
اسلامی جمہوری اتحاد (IJI) 7,908,513 37.4% 106
پیپلز ڈیموکریٹک الائنس 7,795,218 36.8% 44
حق پرست(MQM) 1,172,525 5.5% 15
جمعیت علماءاسلام 622,214 2.9% 6
عوامی نیشنل پارٹی 356,160 1.7% 6
جمعیت علماءپاکستان 310,953 1.5% 3
پاکستان عوامی تحریک 237,492 1.1% 0
جمہوری وطن پارٹی 129,431 0.6% 2
پاکستان نیشنل پارٹی 127,287 0.6% 2
پختون خواہ ملی عوامی پارٹی 73,635 0.3% 1
سندھ نیشنل فرنٹ 51,990 0.2% 0
پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی 51,645 0.2% 0
بلوچستان نیشنل موومنٹ 51,297 0.2% 0
13دیگر پارٹیاں 64,470 0.3% 0
آزاد 2,179,956 10.3% 22
ذِکر ہو رہا تھا1990 کے انتخابات کا جس میں پی پی پی ‘پنجاب میں 39 سیٹو ں
سے محروم ہو گئی۔ پہلے اس کے پاس 53 سیٹیں تھیں جو اب دو ہی سال کے بعد
چودہ رہ گئی تھیں۔ آزاد امیدواروں کے ووٹ 15 فیصد سے گھٹ کر 8 فیصد رہ گئے۔
پنجاب میں آئی جے آئی نے پچھلے الیکشن کی نسبت بارہ فیصد زےادہ ووٹ حاصل
کیے تھے۔ اس انتخاب میں نگران وزیر اعظم غلام مصطفی جتوئی نے آئی جے آئی کے
پلیٹ فارم پر سندھ میں کوئی نمایاں کامیابی حاصل نہ کی تھی۔ لہٰذا میاںنواز
شریف جو اس وقت صرف چالیس سال کے تھے اور انکا تعلق ایک کاروباری گھرانے سے
تھا‘ بھٹو مخالف ہونے کے باعث اہم شخصیت کے روپ میں ابھر ے یا ایک خاص
ایجنڈے کے تحت ابھارے گئے ۔ لہٰذا وہ وزارتِ عظمیٰ کے مضبوط ترین امیدوار
کے طور پر پہلی بار وفاقی افق پر نمودار ہوئے۔ جو بالآخر 30 ماہ حکومت کرنے
کے بعد اپریل 1993 میں منظر سے ہٹا دئیے گئے۔لوگ کہتے ہیں کہ میاں نواز
شریف جتنے اچھے وزیر اعلیٰ تھے اتنے ہی برے وزیر اعظم ثابت ہوئے ،ضروری
نہیں عوام کاکہنادرست ہولہٰذااس بات کافیصلہ تاریخ پرچھوڑدیتے ہیں۔تاہم
آوازخلق کو نقارہ خداکوسمجھاجاتا ہے۔ |