آج اقوام متحدہ (united nations
organizations)اپنے قیام کے 68برس مکمل کررہی ہے اقوام متحدہ کا قیام
24اکتوبر1945ءکو امریکہ کے شہر سان فرانسسکو میں عمل میں آیایہ نام سابق
امریکی صدر روزویلٹ نے تجویز کیادوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں کے نتیجے
میں جنم لینے والی اس عالمی تنظیم کے منشور و مقاصد میں دنیا کو امن و امان
کا گہوارہ بنانا اور آنے والی نسلوں کو جنگوں کی ہولناکیوں سے بچا نا سب سے
اہم تھا لیکن آج ایک ایسے وقت میں جب اقوام متحدہ کے قیام کو 68برس مکمل
ہوچکے ہیں جب ہم پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو ہمیں یہ جان کر شدید مایوسی
ہوتی ہے کہ اقوام متحدہ نہ صرف اپنے بنیادی منشورومقاصد کے حصول میں بری
طرح ناکام رہی ہے بلکہ یہ انہی مکروہ قوتوں کی آلہ کار بن کے رہ گئی جس کے
ہاتھ پہلے ہی لاتعدادبےگناہ انسانوں کے خون سے رنگے ہوئے تھے ۔چنانچہ اقوام
متحدہ کے قیام کے صرف تین سال بعد ہی فلسطین ،اردن،مصر،شام اوردیگر 22عرب
ممالک کے عین قلب میں ایک ناجائز بچے نے جنم لیا جسے آج پوری دنیا اسرائیل
کے نام سے جانتی ہے ۔اسرائیل کا قیام ہی اقوام متحدہ کے اپنے منشور کی پہلی
خلاف ورزی تھی کیوں کہ اسرائیل مصر،اردن،شام اور فلسطین کی زمین پر قبضہ
کرکے وجود میں آیاتھا جبکہ اقوام متحدہ کے چارٹر میں یہ موجود ہے کہ تمام
ممالک ایک دوسرے کے باہمی مفادات اورسرحدوں کااحترام کریں گے لیکن اس بڑی
خلاف ورزی کے باوجود اقوام متحدہ نے اسرائیل کے اس اقدام کو جائز قراردیا
اوراقوام متحدہ کی اس زیادتی کا خمیازہ آنیوالے وقتوں میں پوری دنیاکولا
متناہی اور لاحاصل جنگوں کی صورت میں بھگتنا پڑا کیوں کہ اس کے بعد
ہونیوالی 110جنگوں اوران جنگوں میں ہلاک ہونیوالے ایک کروڑ اسی لاکھ
انسانوں کی موت کے پیچھے کسی نہ کسی حوالے سے صیہونی ہاتھ اور صیہونی
مفادات ضرور کارفرما رہے ہیں ۔چنانچہ لڑاؤ اور حکومت کرو کی اس صیہونی
پالیسی نے دوسری اقوام خصوصاََ مسلمانوں کو بے حد کمزورکیا بلکہ اگر ہم
اقوام متحدہ کے بعد کے حالات کا مختصراََ جائزہ لیں تو ہمیں یہ بخوبی
اندازہ ہوجائے گا کہ اقوام متحدہ کامقصدہی شائد اسلام اور مسلمانوں کو
ٹارگٹ کرناتھا کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اسرائیل نے فلسطین کے 67%رقبے پر
کھلے عام قبضہ کرلیا لیکن اقوام متحدہ خاموش رہی، کشمیر 65سال سے بھارت کا
مقبوضہ علاقہ ہے اوراب تک تقریباََ 90ہزار مسلمان شہید اور بےشمار معذور
ہوچکے ہیںجہاں عورتوں کی عصمت دری ایک معمول بن چکی ہے جہاں آئے روز مسجدیں
شہید ہوتی ہیں لیکن اقوام متحدہ کے منہ سے کبھی ان کیلئے ایک لفظ تک نہیں
نکلا حالاں کہ اقوام متحدہ خود جنوری1948ءمیں اپنی ہی قراردادوں میں بھارت
کو کشمیر میں رائے شماری کاحکم دے چکی ہے جس پر بھارت نے آج تک عمل نہیں
کیا، بوسنیا،چیچنیا،کوسوو میں لاکھوں مسلمان شہید کردئیے گئے جن کی اجتماعی
قبریں آج تک دریافت ہورہی ہیں لیکن اقوام متحدہ یہاں بھی مجرمانہ خاموشی کی
مرتکب ہوئی عرب اسرائیل جنگ،جنگ خلیج،امریکہ عراق وار ،اور دہشتگردی کے
خلاف جنگ کے نام پر افغانستان پر چڑھائی بھی اقوام متحدہ کے ضمیر کو نہ
جگاسکی حالاںکہ اگر اقوام متحدہ ان مواقعوں پر اپنے منشور کے مطابق ایکشن
لیتی تو یہ جنگیں نہ ہوتیں، لاکھوں جانیں ضائع نہ ہوتیں اوردنیا آج امن
وسکون کی آماجگاہ ہوتی۔دوسری جانب ہم دیکھتے ہیں کہ اقوام متحدہ نے ہمیشہ
امریکی و صیہونی مفادات کے پیش نظر اُن کے ہراقدام کو تحفظ دیا اور ہر موقع
پراُن کی لونڈی کا کرداراداکیا جس کی دو واضح مثالیں مشرقی تیمور اور جنوبی
سوڈان ہیں جہاں عیسائیوں پر چند حملوں کے بعد ہی وہاں ریفرنڈم کاانعقاد
کرکے انہیں الگ مملکتوں میں تبدیل کردیاگیا جبکہ کشمیر میں اس سے کہیں
زیادہ گھمبیر صورتحال ہونے کے باوجود وہاں آج تک کشمیریوں کو وہ حق رائے
رہی نہیں دیاگیا جو اقوام متحدہ نے انہیں خوددیاہے وجہ صاف ظاہر ہے کہ
اقوام متحدہ کامشن اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہونیوالے اقدامات کا تحفظ
کرناہے نہ کہ مسلمانوں کے مفادات کا۔ دوسری جانب 61اسلامی ممالک جو کہ ارب
ستر کروڑ کی آبادی اور 3کروڑ 48لاکھ کلومیٹر کے وسیع رقبے کے حامل ہیں تیل
کی دولت کا بڑا حصہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو عطاکررکھا ہے اوردلچسپ بات
یہ ہے اسلامی ممالک پوری دنیامیں اس ترتیب سے پھیلے ہوئے ہیں کہ ان کی مرضی
کے بغیرسفر و تجارت انتہائی مشکل ہو جائے لیکن ان سب کے باوجود امت مسلمہ
مسلسل زبوں حالی کا شکارہے یہ تمام اسلامی ممالک مجموعی طور پر اپنے دفاع
پر تقریباََ80ارب ڈالر خرچ کرتے ہیں لیکن امریکہ،بھارت اوراسرائیل انہیں
بھیڑوں کی طرح چن چن کر ظلم کا نشانہ بنارہے ہیں اور اسلامی ممالک کی
نمائندہ کہلانے والی عرب لیگ اور او آئی سی میں اتنی سکت بھی نہیں کی وہ اس
پر احتجاج ہی کرسکیں وقت کا تقاضایہ ہے کہ تمام اسلامی ممالک اقوام متحدہ
کے مقابلے میں او آئی سی (organization of islamic countries)کو فعال اور
مضبوط بنائیں ،یہود ونصاری کا مقابلہ کرنے کیلئے سائینس و ٹیکنالوجی کے
شعبے میں ہنگامی اصلاحات اوراقدامات کی اشد ضرورت ہے کیوںکہ یہی وہ ہتھیار
ہے جس کواپناکر اغیار ہم پر حکمرانی کررہے ہیں اور تعداد اوروسائل میں اُن
سے کہیں زیادہ ہونے کے باوجود اُن سے مارکھارہے ہیں ۔آخر میں اقوام متحدہ
سے ایک سوال کہ اس کے سامنے صدرصدام حسین اور کرنل قذافی کو چندسولوگوں کو
کیمیائی ہتھیاروں سے ہلاک کرنے کے جرم میں نشان عبرت بنایا گیا لیکن جاپان
کے شہرہیروشیمااورناگاساکی پر ایٹم بم گراکر لاکھوں انسانوں کی جان لینے
والے امریکہ کے معاملے میں وہ کیوں خامو ش ہے ؟ |