فخرو بھائی!لوگ آپ پہ اعتبار کرتے ہیں

کہتے ہیں کسی کا مان ٹوٹے تو اس کا صدمہ مدتوں نہیں بھولتا۔ہمارے نئے چیف الیکشن کمشنر جناب فخرالدین جی ابراہیم کی دیانت اور گیر جانبداری کا یہ عالم ہے کہ اپنے پرائے سبھی نہ صرف ان پہ اعتبار کرتے ہیں بلکہ اس ملک میں جہاں لوگ حرمت رسول ﷺ کی ریلیوں میں بھی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے سے باز نہیں آتے۔وہاںجسٹس صاحب کا دم غنیمت ہے کہ لوگ اس زمانے میں بھی ان پہ اعتبار کرتے ہیں۔جب نئے چیف الیکشن کمشنر کے لئے ڈھنڈیا پڑی تو محسوس یہی ہوتا تھا کہ نئے انتخابات کے لئے چیف الیکشن کمشنر کا تقرر اقتداریوں اور اختلافیوں کی باہمی رضامندی سے ہونا ہے۔اس لئے یہ کبھی کسی ایک نام پہ رضامند نہ ہوں گے اور بالآخر نئے انتخاب سپریم کورٹ ہی کی زیر نگرانی کرانے پڑیں گے۔پیپلز پارٹی کے لئے اس معاملے کو سپریم کورٹ پہ چھوڑناان کی دانست میں اپنے پاﺅں پہ کلہاڑا مارنے کے مترادف تھا اس لئے عربی حکایت کے بموجب وہ موت کو سامنے دیکھ کر بخار پر راضی ہو گئے اور یوں ہم نے حزب اقتدار اور حزب اختلاف کوباہمی طور پہ کوئی مشکل فیصلہ باہمی رضا مندی سے کرتے دیکھا۔

جسٹس صاحب نہ صرف یہ کہ ان دونوں پارٹیوں کے پسندیدہ ہیں بلکہ اسمبلیوں سے باہر بیٹھی سیاسی جماعتوں کا بھی انہیں اعتماد حاصل ہے۔تحریک انصاف جماعت اسلامی تو ایک طرف ایک دوسرے کے اتحادی لیکن ساتھ ہپی ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ایم کیو ایم اور اے این پی کو بھی ان کی تعیاناتی پہ کوئی اعتراض نہ تھا۔عوام کا وہ حلقہ جو جسٹس صاحب کو جانتا ہے انہیں پیار سے فخرو بھائی کہتا ہے۔کہنے کا مطلب یہ کہ عام لوگ بھی ان سے بہت پیار کرتے اور ان پہ بڑا اعتماد کرتے ہیں۔میں تو سچ پوچھیئے بڑا ہی رجائیت پسند ہوں ان کی تقرری کے ساتھ ہی مجھے پاکستان کے سارے مسائل حل ہوتے نظر آرہے تھے۔مجھے یوں لگ رہا تھا کہ جیسے فخرو بھائی جیسا شخص پاکستان کی تقدیر بدلنے کا باعث بنے گا۔اور ان کی زیرِ نگرانی ہونے والے انتخابات میں کوئی چور اچکا بد معاش لٹیرا حصہ نہ لے پائے گا۔وہ جو ذرا بھی داغدار ہو گا۔قیادت کے لئے نا اہل تصور ہو گا۔لیکن جسٹس صاحب نے ایک ہی وار میں میری ساری امیدوں پہ پانی پھیر دیا ہے۔میں اب سوچتا ہوں کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں کہ جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے ہیں۔

جناب فخرالدین جی ابراہیم نے اصغر خان کیس میں سولہ سال بعد سپریم کورٹ کے دئے گئے فیصلے پہ اپنے رد عمل میں کچھ ایسی باتیں کی ہیں کہ اپنا تو دل ہی ٹوٹ گیا ہے۔ان کا فرمانا ہے کہ وہ سیاستدان جنہوں نے ایجنسیوں سے پیسے لئے ہیں انہیں معاف کر کے آگے چلنا چاہیئے۔اگر کروڑوں روپے بٹور کے ارب پتی بن جانے والے ان بد معاشوں کو معاف ہی کرنا تھا تو پھر فخرو بھائی! یہ بتائیے کہ ان یتیموں اور مسکینوں اور بیواﺅں کا کیا قصور ہے جو آپ کی ہاﺅس بلڈنگسے مکان بنانے کے لئے قرض لیتے ہیں۔ساری عمر قسط ادا کرتے ہیں اور ٓخر میں آکے جب چند قسطیں وہ نہیں دے پاتے تو آپ ان کا مکان نیلام کر دیتے ہیں۔انہیں تو کبھی آپ نے معاف کرنے کی بات نہیں کی۔ایک آدمی ریاست کے سو روپے کھا جائے تو آپ کے نزدیک وہ مجرم ہے اور ایک جو کروڑوں ڈکار جائے آپ اسے معاف کرنے کی وکالت کرتے ہیں۔فخرو بھائی! یقین جانیئے ہمیں آپ پہ بہت اعتماد ہے لیکن آپ کا ایک آدھ اسی قبیل کا اور بیان ہمں اس بات پہ مجبور کر دے گا کہ آپ کے بارے میں بھی ہماری سوچ بدل جائے۔آپکا احترام ہی غیر جانبداری میں ہے لیکن آپ نے تو اپنے پہلے ہی تفصیل انٹرویو میں لٹیروں چوروں اور بد معاشوں کے لئے عام معافی کا اعلان کر کے اپنی جانبداری واضح کر دی۔

آپ فرماتے ہیں کہ سپریم کورٹ نے ایک نیا تنازعہ کھڑا کر دیا ہے اور کورٹ خود جانبدار ہو گئی ہے حالانکہ سپریم کورٹ نے بھی شاید پہلی بار حق اور سچ کی بات کی ہے۔بد معاش کو بد معاش اوربے ایمان کو بے ایمان کہا ہے اور آپ کہہ رہے ہیں کہ آپ کے پاس ان بے ایمانوں کے خلاف کارواءکا اختیار ہی نہیں۔فخرو بھائی! خدا کے لئے آپ کا آئین تو اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ عوامی نمائندے کو صادق اور امین ہونا چاہیئے۔اسی بناءپہ آپ رحمن ملک کے خلاف ریفرنس کا انتظار کر رہے ہیں کہ وہ آپ تک پہنچے اور آپ اسے نا اہل قرار دیں اور دوسری طرف آپ ماضی کو بھول کے آگے چلنے کی بات کرتے ہیں۔کمال ہے کہ الیکشن کمیشن کسی ایسے رکن کے خلاف کاروائی کیوں نہیں کر سکتا جس پر پیسے لینے کا الزام ہے۔ہم بھی یہ نہیں کہتے کہ کسی کے خلاف الزام پہ کاروائی کی جائے لیکن اگر ثابت ہو جائے کہ فلاں شخص نے ایجنسیوں سے یا کسی اور ناجایز ذریعے سے پیسے لے کے لوگوں کا مینڈیٹ چوری کیا ہے تو کیا پھر بھی اس کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہو سکتی۔اگر جناب الیکشن کمشنر! پھر بھی آپ کا جواب نفی میں ہی ہے تو پھر نہیں چاہیئے ہمیں آپ کی غیر جانبداری۔اس دفعہ پھر ہم کسی جانبدار الیکشن کمشنر کا تقاضا کریں گے جو اب کے ان بے ایمانوں اور چوروں کی بات کرے۔جو پیٹ کی بھوک مٹانے کو بے ایمانی کرتے اور چوری بھی۔نہ جناب عالی! ہم ماضی نہیں بھول سکتے۔آپ تو اعلی عدالت کے اعلیٰ جج ریٹائر ہوئے ناں۔آپ وکیل بھی بہت تگڑے تھے۔فیس بھی لاکھوں لیتے ہوں گے۔ہم نے اور ہماری اولاد نے تو ہمیشہ ایک آدھ روٹی کی بھوک رکھ کے ہی کھایا ہے اور وہ صرف اس لئے کہ ہمارے حکمران بد نیت اور بد دیانت تھے۔ورنہ ہمارے ملک میں تو وسائل کی کمی نہ تھی۔اب وقت آیا ہے کہ ہم اس گند کو اٹھا کے باہر پھینک دیں تو آپ ہمیں ماضی کو بھول کے دوبارہ انہی پیران تسمہ پا کو اپنی گردنوں پہ سوار رکھنے کا مشورہ دے رہے ہیں کہیں ایسا تو نہیں کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خیر اتنی جلدی بدگمانی ہم غریبوں کا شیوہ نہیں۔ہم اعتبار کرتے ہیں ۔لیکن یہ بات ذہن میں رہے کہ جو ایک دفعہ ہماری نظروں سے گرتا ہے وہ پھر کسی کی سفارش سے کبھی نظروں میں بحال نہیں ہوتا اور لوگ آپ کی ایمان داری کی جناب بڑی تعریف کرتے ہیں۔
Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 269282 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More